وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 50ویں قسط

وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 50ویں قسط
وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 50ویں قسط

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ساحل گہری نیند سویا ہوا تھا۔ راحت اس کے بال سہلانے لگی’’میں تو بے خبر اپنے بیٹے کی نوکری کے لیے دعائیں مانگ رہی تھی۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ میرا بیٹا کسی مصیبت میں گرفتار تھا۔‘‘
راحت اپنے آنسو پونچھتی ہوئی وہاں سے اٹھی اور الماری سے سورہ یسین نکال کر لے آئی۔ وہ ساحل کے پاس بیٹھ کے سورۃ یسین پڑھنے لگی۔ سورۃ یسین پڑھنے کے بعد اس نے ساحل کی طرف پھونکا اور پھر جائے نماز بچھا کر شکرانے کے نقل پڑھنے لگی۔ خود کو کتنا ہی سمجھاتی مگر اس کے آنسو نہیں تھم رہے تھے۔
اس نے نفل پڑھ کر خدا کا شکر ادا کیا اور اسامہ کے لیے دعائیں مانگنے لگی۔ اسی دوران ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ راحت نے دعا مکمل کی اور جائے نماز تہہ کرکے رکھ دیا اور فون کی طرف بڑھی۔
’ہیلو۔۔۔‘‘ راحت نے ریسیور کان سے لگایا۔
’’السلام علیکم آنٹی!‘‘ عمارہ کی آواز راحت کی سماعت سے ٹکرائی۔

وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 49ویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’کیسی ہو بیٹی!‘‘ راحت نے گلوگیر لہجے میں پوچھا۔
عمارہ اس کی آواز سن کر پریشان ہوگئی۔’’آنٹی آپ رو رہی ہیں۔‘‘
عمارہ بے چین ہوگئی اس نے ایک بار پھر پوچھا’’آپ کس بات پر پریشان ہیں ساحل تو ٹھیک ہے نا۔‘‘
راحت نے عمارہ کو آدھی بات ہی بتائی تو عمارہ نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا’’میں آپ کے گھر آرہی ہوں۔‘‘
بیس یا پچیس منٹ کے بعد عمارہ راحت کے گھر پہنچ گئی۔ وہ ساحل کے پاس آئی۔ ساحل بے سدھ سویا ہواتھا۔ وہ اس کے قریب بیٹھ گئی۔ اس نے اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھا۔’’ٹمپریچر تو نہیں ہے۔‘‘
عمارہ نے سرگوشی کے انداز میں کہا اور پھر وہ اور راحت دوسرے کمرے میں چلے گئے۔ عمارہ نے راحت کو سمجھایا۔’’آنٹی! آپ ہمت رکھیں ساحل کو کچھ نہیں ہوگا۔ خطرے کا سامنا اس وقت ہم سب کوہے، ہم میں سے کون کب ان ہمزاد کا شکار ہو جائے۔ یہ کوئی نہیں جانتا۔ بس ایک بات ہم سب کو ذہن نشین کرنی چاہئے کہ وہ ہمزاد روپ بدل کر ہمیں دھوکہ دینے کی کوشش کریں گے۔ ہمارے لیے جال بچائیں گے مگر ہمیں محتاط ہو کے رہنا ہے۔ آپ مجھے پوری بتا ئیں۔‘‘
راحت عمارہ کو ساحل کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ تفصیل سے بتانے لگی۔ یہ واقعہ سن کر عمارہ کے ذہن کی رگیں جیسے سکڑ کے رہ گئیں مگر اس نوجوان کے ذکر نے جس نے ساحل کی جان بچائی، عمارہ کو چونکا دیا۔ وہ جلدی سے بولی۔’’کچھ بتایا اس جوان نے کہ وہ کہاں رہتا ہے۔‘‘
’’نہیں۔۔۔بس اتنا ہی بتایا کہا س کا نام اسامہ ہے۔ ‘‘ راحت نے ذہن پر زور ڈالتے ہوئے کہا۔
’’اوہ شٹ! آپ کو اس سے پوچھنا چاہئے تھا کہ وہ کہاں رہتا ہے کیا کرتا ہے۔‘‘
’’ساحل کی ایسی پریشانی لگی کہ میرے ذہن میں ہی نہ آیا کہ اس سے یہ سب پوچھوں۔‘‘ راحت نے جبیں پیمائی کی۔
’’اچھا آپ مجھے اس کا حلیہ بتائیں کہ وہ کس طرح کا دکھائی دیتا ہے۔‘‘ عمارہ نے اپنے ہاتھوں کو پھیلائے ہوئے پوچھا۔
راحت جیسے کھو سی گئی’’بھلا خوبصورت تھا۔۔۔لمبا قد چوڑا سینہ، چھریرے بدن والا تھا۔ بس ایک کمی ایسی تھی کہ میرا دل اکٹھا ہوگیا تھا۔‘‘
’’کیا۔۔۔؟‘‘ عمارہ نے پوچھا
’’اس کا ایک ہاتھ کٹا ہوا تھا‘‘ راحت نے تاسف بھرے اندا زمیں کہا۔
اسی دوران ساحل کی آواز آئی’’اماں۔۔۔راحت تیز تیز قدموں سے چلتی ہوئی بیٹے کے پاس پہنچ گئی۔
عمارہ بھی ساحل کے پاس آگئی’’اب کیسی طبیعت ہے؟‘‘
ساحل نے بستر سے اٹھتے ہوئے تکیے سے پشت لگا لی۔’’کچھ پتہ نہیں کہ مجھے کیا ہوا ہے۔ جیسے جسم سے جان سی نکل گئی ہے۔عجیب نڈھا لگی ہے۔‘‘
’’کمزوری ہے آہستہ آہستہ ٹھیک ہو جاؤ گے۔‘‘ یہ کہہ کر عمارہ، راحت سے مخاطب ہوئی۔’’آنٹی آپ اسے گرم دودھ لا دیں۔‘‘
ساحل نے ہاتھ سے نفی کا اشارہ کیا’’میرا کسی بھی چیز میں دل نہیں ہے۔‘‘
’’دل ہو یا نہ ہوتمہیں دودھ پینا پڑے گا۔‘‘ یہ کہہ کے راحت دودھ لینے چلی گئی۔
عمارہ ساحل کے قریب بیٹھ گئی’’تم جانتے ہو کہ تمہاری وشاء مر چکی ہے تو پھر کیوں ہر دفعہ فریب کھاتے ہو۔‘‘
ساحل کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی’’وشاء کو پانے کا جنون، میری ہجر کی راتوں میں یادوں کے جلتے دیے میں ہی ختم ہوگیا تھا۔ نہ جانے پھر کیوں میں اس فریب میں مبتلا ہو جاتا ہوں ۔ وہ بد روح میری وشاء بن کر بار بار میرے سامنے آتی ہے اور میرے سوئے ہوئے جذبات جگا دیتی ہے۔‘‘
عمارہ پختہ لہجے میں بولی’’اس بار جو ہوا سو ہوا مگر اب تمہیں خود کو ذہنی طور پر تیار کرنا ہوگا کہ وہ بدروح تمہیں اب اپنے جال میں نہ پھانس سکے اور وہ نوجوان جو تمہیں گھر تک چھوڑ گیا ہے اس نے تمہیں کچھ بتایا اپنے بارے میں۔‘‘
ساحل نے حیرت سے عمارہ کی طرف دیکھا’’کیسا احمقانہ سوال کر رہی ہو۔ اس نے مجھے کن حالات میں بچایا، وہ مجھے کس طرح گھر چھوڑ گیا۔ وہ بھلا اپنے بارے میں کیسے بتاتا۔‘‘
راحت دودھ کا گلاس لے کر آئی اس نے ساحل کو دودھ کا گلاس پکڑایا۔ ساحل نے برا سا منہ بنایا۔’’پی لو بیٹا!‘‘ راحت نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔
’’میں چلتی ہوں آنٹی! پھر دوبارہ چکر لگاؤں گا۔‘‘ وہ اپنا ہینڈ بیگ اٹھا کر دروازے کی طرف بڑھی، ساحل کی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی۔’’ایک بہت عجیب بات مجھے اب یاد آئی۔‘‘
عمارہ ساحل کی طرف واپس پلٹ آئی۔’’کیا۔۔۔؟‘‘
’’میں جس وقت زندگی اور موت کی کشمکش میں گہرے پانی میں غوطے کھا ہرا تھا تو میں نے وشاء کی آواز سنی وہ کہہ رہی تھی خیام تم۔۔۔؟ تم یہاں کیوں آئے ہو۔ اس کے بعد میں پانی کی تہہ میں گرتا چلا گیا میں نے کچھ اور نہیں سنا۔‘‘
عمارہ حیرت میں ڈوبی ہوئی ساحل کے قریب بیٹھ گئی’’اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہیں خیام نے بچایا ہے۔‘‘
ساحل نے فوراً نفی میں سر ہلا’’نہیں۔۔۔مجھے نہیں لگتا، اس جوان کے علاوہ وہاں اور کوئی نہیں تھا یقیناًاسی نے مجھے بچایا ہے۔‘‘
عمارہ گہری سو چ میں گاڑی کے Key ringکو گھمانے لگی’’اس کا مطلب ہے ساری صورت حال وہ نہیں ہے جو ہمیں نظر آرہی ہے۔ کوئی گہری بات ہے جو چھپی ہوئی ہے بہرحال میں اس جوان کا پتہ لگا لوں گی۔ اس سے مل کر ساری بات سمجھ میں آجائے گا۔ ‘‘ عمارہ یہ کہہ کر وہاں سے چلی گئی۔
۔۔
عشاء کی اذان ہو رہی تھی۔ اسامہ گاڑی میں اپنے گھر کی طرف جا رہا تھا، وہ مسلسل صبح کے واقعہ کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ وہ کس طرح ساحل کی مدد کے لیے پہنچ گیا۔ وہ اس لڑکے سے پہلی بار ملا تھا مگر وہ اس لڑکے کے بارے میں سب کچھ جانتا تھا اس کا ذہن اسے ان تین ویمپائرز سے جنگ پر اکسا رہا تھا۔ وہ ان بدروحوں کے بارے میں سب کچھ جانتا تھا۔ اور ان لوگوں کو بھی جانتا تھا جوان ہمزاد کے خلاف جنگ میں سرگرم ہیں۔۔۔یہ سب کیسے ہوگیا؟‘‘
اس سوچ میں اس نے گاڑی مسجد کی طرف موڑ لی اس نے با جماعت عشاء کی نماز ادا کی۔ نماز کے بعد کچھ دیر تک مولوی صاحب نے خطبہ دیا پھر لوگ یکے بعد دیگرے مسجد سے جانے لگے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے مسجد میں صرف امام صاحب اور اسامہ ہی رہ گئے۔ سب نمازی چلے گئے۔
اسامہ سر جھکائے بیٹھا تھا۔ امام صاحب نے اس کی طرف دیکھا اور دھیمے سے لہجے میں گویا ہوئے’’کیا بات ہے بیٹا! کوئی پریشانی ہے۔‘‘
اسامہ نے امام صاحب کی طرف دیکھا اور اپنی جگہ سے اٹھ کر ان کے پاس جا بیٹھا۔
’’آپ کو کیسے پتہ چلا کہ میں پریشان ہوں۔‘‘ اسامہ نے پوچھا۔
بزرگ مولوی صاحب مسکراتے ہوئے تسبیح پھیرنے لگے’’انسان جب زیادہ پریشان ہو جاتا ہے تو خدا کو ہی یاد کرتا ہے۔ اس کے حضور اس وقت تک سر جھکائے بیٹھا رہتا ہے جب تک پروردگار اس پریشانی سے نبٹنے کا حوصلہ اس کے دل میں پیدا نہیں کرتا۔‘‘
اسامہ خاموشی سے مولوی صاحب کی باتیں سنتا رہا پھر اس نے مولوی صاحب کے پر نور چہرے کی طرف دیکھا’’شاید پروردگار نے ہی میرے دل میں یہ خیال پیدا کیاہے کہ میں آپ سے کچھ سوال کروں۔ جو میری پریشانی کا سبب ہیں۔‘‘
’’ضرور بیٹا! پوچھا میرے علم کی جتنی وسعت ہوگی میں تمہارے سوالوں کا جواب دے دوں گا۔‘‘ مولوی صاحب نے اثبات میں سر ہلایا۔
اسامہ کچھ دیر خاموش رہا پھر اس نے پوچھا’’آپ کیا کالے جادو پر یقین ہے؟‘‘
مولوی صاحب نے بلا تامل اثبات میں سر ہلایا۔’’ہاں جادو ایک حقیقت ہے۔ جادو ٹو نے یہ سب شیطان کے ہی پھیلائے ہوئے جال ہیں۔ کالا جادو کرنے والا اور کروانے والا دونوں ہی کار ہیں۔ ایسے لوگوں کے دل و دماغ شیطان کے قابو میں ہوتے ہیں۔ پھر وہ وہی کچھ کرتے ہیں جو ان سے شیطان کرانا چاہتا ہے۔ بری راہ میں پڑنے کی وجہ سے وہ لوگ نماز اور قرآن پاک سے دور ہو جاتے ہیں جبکہ نماز اور قرآن پاک ہی انسان کے دل و دماغ کو وہ تقویت دیتا ہے جس سے انسان شیطانی حملوں سے بچا رہے مگر تم کیوں پوچھ رہے ہو، کیا تم پر بھی کسی نے جادو کیا ہے۔‘‘ مولوی صاحب نے پوچھا۔
اسامہ اصل موضوع کی طرف آگیا’’آپ آرٹ گیلری میں ہونے والے حادثہ کے متعلق تو جانتے ہوں گے اور اس حادثے کے بعد شہر میں پھیلی ہوئی سنسنی خیز خبریں بھی سنی ہوں گی۔‘‘
مولوی صاحب نے آنکھیں بند کرکے اثبات میں سر ہلایا۔’’ہاں جانتا ہوں۔‘‘
’’ پولیس کے کہنے کے مطابق وہ سب کچھ دہشت گردوہ نے کیا ہے۔ مگر کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ سب اموات کالے جادو کے تحت ہوئی ہیں جس کا ذمہ دار ایک ہمزاد ہے۔‘‘ اسامہ نے بے چینی سے کہا۔
’’دونوں میں سے کوئی بات بھی ہو سکتی ہے۔ مگر دوسری بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اس خیال کو محض وہم یا توہمات پرستی نہیں کہا جا سکتا کیونکہ شیطان ہمزاد کچھ بھی کر سکتا ہے۔‘‘ مولوی صاحب نے معنی خیز لہجے میں کہا۔
اسامہ کے ذہن میں سوچوں کی گرہیں دھیرے دھیرے کھل رہی تھیں اور الفاظ پھسل پھسل کر اس کے منہ سے باہر نکل رہے تھے۔
’’مولوی صاحب! میں اپنے اندر ایک عجیب سی تبدیلی محسوس کر رہا ہوں جیسے میرے اندر کوئی دوسرا انسان آبسا ہو۔ شہر میں ہونے والے پراسرار واقعات میرے لیے محض ایک خبر کی طرح ہی تھے مگر اب میری سوچوں کا مرکز بن گئے ہیں۔ کبھی کبھی میں ایک ہی وقت میں دو لوگوں کی طرح سوچتا ہوں۔‘‘
مولوی صاحب ہنسنے لگے’’میاں! یہ تو معمولی سی بات ہے جسے تم خواہمخوہ اپنے اوپر حاوی کررہے ہو انسان تو ازل ہی سے دوہری سوچ کا مالک ہے۔ کیونکہ اس کے دو روپ ہوتے ہیں اگر ایک نفس اسے اچھائی کی طرف مائل کرتا ہے تو دوسرا نفس اسے برائی کی طرف مائل کرتا ہے۔‘‘
اسامہ نے بے قراری سے سر کو جھٹکا’’مولوی صاحب! آپ میری پوری بات تو سنیں۔ مجھے ایسا لگتا ہے جیسے کسی نے میری Memoryمیں وہ تمام یادداشتیں ڈال دی ہیں جو میری نہیں ہیں میں ان تمام جگہوں کے بارے میں جانتا ہوں جو میں نے نہیں دیکھیں ان تمام لوگوں کے بارے میں جانتا ہوں جنہیں میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ جیسے میرے جسم میں کسی اور کی روح سرایت کر گئی ہے۔‘‘
مولوی صاحب نے مبہوت نظروں سے اسامہ کی طرف دیکھا۔’’ان لوگوں کو اور ان جگہوں کا تعلق کس سے ہے؟‘‘
اسامہ نے جواب دینے میں ذرا دیر نہ لگائی۔’’انہی شیطان ہمزاد سے جن کے خلاف جنگ کے لیے میرے اندر ہی کوئی مجھے اکسا رہا ہے۔ میں ان چاروں کے بارے میں اس طرح جانتا ہوں جیسے یا تو میں ان میں سے ایک ہوں یا ان کا انتہائی قریبی رشتہ دار ۔۔۔‘‘
مولوی صاحب سر جھکا کے سوچ میں پڑ گئے۔ کافی دیر تک انہوں نے اسامہ کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا پھر ایک لمبا سانس کھینچتے ہوئے دونوں ہاتھوں کو آپس میں جڑ لیا’’میری معلومات محدود ہے تمہارے سوال بہت مشکل ہیں۔۔۔لیکن پروردگار کے کرم سے میں تمہیں اتنا سمجھا سکتا ہوں کہ تم صحیح راستے کا تعین کر سکو۔ جس طرح کئی خطرناک کام ہمارے مادی وجود کی وجہ سے ہمارے لیے ناممکن ہو جاتے ہیں اسی طرح ہمزاد بھی اپنے مقاصد پورے کرنے کے لیے کسی وجود میں داخل ہوکے اس شخص کے ذریعے اپنے مقاصد پورے کرتا ہے۔
سفلی علوم کرنے والے عامل کسی کے کہنے پر شیطان ہمزاد کو کسی انسان کے جسم میں داخل کردیتے ہیں۔ اس انسان کی شخصیت اور کردار کا بدلاؤ لوگوں کا حیران کر دیتا ہے۔ وہ شیطان ہمزاد اسے برائی پر اکستا ہے اور اچھائی سے روکتا ہے۔ اس شخص کے زندگی کے معمولات اس قدر بگڑ جاتے ہیں کہ اس شخص کی بے چینی ہی اسے مار ڈالتی ہے۔ مگر تمہارا معاملہ الگ ہے۔ میرے خیال سے تمہیں اس چیز کی تصدیق کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ واقعی تمہارے جسم میں کوئی روح سرائیت کر گئی ہے یا نہیں تمہیں صرف یہ سوچنا چاہئے کہ تمہارے ذہن میں اٹھنے والی سوچیں تمہیں بہت نیک کام کی طرف مائل کر رہی ہیں۔ تم میں کوئی خاص بات ضرور ہوگی جو رب نے تمہارے ذہن میں نہ صرف یہ خیال پیدا کیا بلکہ تمہارے لیے چھپے ہوئے رازوں سے بھی آشکار کیا۔ تم زیادہ نہ سوچو اور اسی گروپ میں شامل ہو جاؤ جنہوں نے ان شیطانی بدروحوں کے خلاف جنگ کا اعلان کیا ہے۔ لوگوں کو شیطان ہمزاد کے حملوں سے بچانے کے لیے اپنی جان پر بھی کھیل جاؤ۔ تم کسی عامل کے چکر میں مت پڑنا۔ تم دیکھ لینا اس نیک کام کی تکمیل کے بعد تم پہلے جیسے ہو جاؤ گے۔‘‘
اسامہ کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی۔’’آپ نے کتنی آسانی سے اس الجھے ہوئے مسئلے کو سلجھا دیا۔ میں وہی کروں گا جس کے لیے میرا ذہن مجھے آمادہ کر رہا ہے اگر پھر سے پریشانی ہو تو آپ کے پڑھا کرو۔ خدا وند کریم تمہارے سارے مسئلے حل کر دے گا۔‘‘(جاری ہے )

وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 51ویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں