وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 51ویں قسط
رات کے گیارہ بج رہے تھے مگر عمارہ اپنا لیپ ٹاپ گود میں رکھےgoogleسرچ میں مصروف تھی۔ وہ اس شہر کے اسامہ نام کے اشخاص کے ایڈریسز اور فون نمبرز پر سرچ کر رہی تھی۔ اس نے ان ناموں کی spread sheetپر ایڈریسز اور فون نمبرز کے ساتھ ایک لسٹ تیار کی۔
’’عمارہ بس کرو، بہت رات ہوگئی ہے اب سو جاؤ۔‘‘ دوسرے کمرے سے اس کی والدہ بار بار کہہ رہی تھیں۔ عمارہ نے دوسری بار بلند آواز میں کہا’’امی جان! بس تھوڑا سا کام رہ گیا ہے۔‘‘ عمارہ کی تیار کردہ لسٹ میں ریٹائرڈ میجر اسامہ کا نام اور ساتھ ایڈریس کی جگہ رینجرز مارشل آرٹ کلب کا نام تھا۔
لسٹ بنانے کے بعد عمارہ نے اسے سیو کیا اور پھر لیپ ٹاپ بند کرکے کمرے کی لائٹ بھی آف کر دی اور ٹیبل لیمپ جلا لیا۔
وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 50ویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
وہ بستر پر لیٹ تو گئی مگر اس کے ذہن میں سوچوں کا تانتا سا بندھ گیا۔ وہ اپنے ذہن کو جھٹک کے سیدھا لیٹ گئی اور چھت کی طرف آنکھیں ٹکا دیں۔
’’یا اللہ کب صبح ہوگی۔۔۔آج کی رات تو بہت مشکل سے گزرے گی ساحل کو اپنے ساتھ پک اپ کرلوں گی وہ میری خاصی مدد کر سکتا ہے۔‘‘ نصف رات کے بعد ہی اسے نیند آئی۔
صبح عمارہ کلینک کے لیے وقت سے پہلے ہی تیار ہوگئی۔ رابعہ، عمارہ کے کمرے میں داخل ہوئی تو اس نے حیرت سے عمارہ کی طرف دیکھا’’آج تو بہت جلدی تیار ہوگئی اور یہ کیا ڈھونڈ رہی ہو۔‘‘
رابعہ نے عمارہ سے پوچھا جو بیڈ کے کشن ادھر ادھر پھینک رہی تھی۔’’مجھے میرا Cellنہیں مل رہا۔۔۔‘‘ عمارہ نے تذبذب سی کیفیت میں کہا۔
’’اوہ۔۔۔اتنی پریشان کیوں ہو رہی ہو میں اپنے موبائل سے بیل دیتی ہوں’’یہ کہہ کر رابعہ وہاں سے چلی گئی۔ اس نے عمارہ کے موبائل پر بیل دی تو ring toneکی آواز بیڈ کے نیچے سے آئی۔ عمارہ نے بیڈ کے نیچے سے بمشکل اپنا Cellنکالا۔رابعہ کمرے میں داخل ہوئی۔
’’تمہارا بھی کوئی حال نہیں ہے۔ اپنی چیزیں تو ٹھکانے سے رکھا کرو۔‘‘
عمارہ نے ماں کی بات پر کان دھرے بغیر اپنا موبائل ہینڈ بیگ میں رکھا اور تیزی سے دروازے کی طرف بڑھی۔
’’کہاں جا رہی ہو عمارہ۔۔۔؟ ابھی تو میں نے ناشتہ بھی تیار نہیں کیا۔‘‘ رابعہ نے جاتی ہوئی عمارہ کو روک کر کہا۔
عمارہ نے ماں کا ہاتھ تھاما’’مما!آج میں آفس میں ہی ناشتہ کر لوں گی مجھے جلدی ج انا ہے۔ بہت ضروری کام ہے۔ ‘‘ یہ کہہ کر عمارہ تیزی سے وہاں سے نکل گئی۔ اس نے گاڑی سٹارٹ کی تو اسے ساحل کا خیال آیا۔’’ایک بار اسامہ کا پتہ چل جائے۔ ابھی ساحل کو لے کر نہیں جاتی۔ جب ضرورت ہوگی تو اس سے رابطہ کر لوں۔‘‘ اس نے پہلا گیئر لگایا اور گاڑی پورچ سے باہر نکال لی۔
کلینک پہنچ کر اس نے عنبر کو فون کرکے بلا لیا اور باقی سٹاف کو بھی جلدی آنے کی ہدایت کر دی۔ اس نے اپنا لیپ ٹاپ کھولا اور آفس ورلڈ ایکسل کی مطلوبہ سپریڈ شیٹ اوپن کی۔ اسامہ نام کے افراد کے موبائل نمبرز اور ایڈریسز کی لسٹ ڈیسک ٹاپ پر آگئی۔ وہ اپنے موبائل سے یکے بعد دیگرے تمام نمبرز پر Contactکرنے لگی۔ بہت سے نمبرز سے رابطہ نہیں ہوسکا۔ کسی کا موبائل آف تھا۔ کسی کا بیزی اور کہیں نیٹ ورک پرابلم۔
تین اشخاص سے رابطہ ہوا جن کی عمر50سے اوپر تھی۔ عنبر بھی آچکی تھی اور سٹاف کے ممبرز بھی پہنچ چکے تھے۔ عمارہ دو گھنٹے تک موبائل سے رابطہ کرنے میں مصروف رہی مگر اسے اپنا مطلوبہ نمبر نہیں ملا وہ اکتا گئی۔ اس نے اپنا موبائل عنبر کو دیا تم یہ نمبر ملاؤ میرا تو سر درد کرنے لگا ہے۔
عنبر نے نمبر ملایا تو ایک شخص نے کال اٹینڈ کی۔۔۔’’جی میں اسامہ ہوں، آپ کون ہیں؟‘‘
عنبر نے موبائل عمارہ کو دے دیا۔
’’السلام علیکم!‘‘ عمارہ نے کہا۔
’’وعلیکم السلام!‘‘ شخص نے جواب دیا۔
’’آپ کو ہم نے زحمت دی۔۔۔ہمیں دراصل ایک شخص کی تلاش ہے جس کا نام اسامہ ہے۔۔۔اس کی عمر35یا 36سال کے لگ بھگ ہے ۔۔۔اس کا ایک ہاتھ نہیں ہے۔‘‘
ابھی عمارہ اپنی بات پوری بھی نہ کر پائی تھی کہ وہ تمسخرانہ انداز میں بولا۔’’آپ نے غلط نمبر پر فون کیا ہے کیونکہ میرے تو دونوں ہاتھ کٹے ہوئے ہیں اور دونوں کان بھی نہیں ہیں۔‘‘
’’سٹوپڈ(بدتمیز)!‘‘ عمارہ نے موبائل میز پر دے مارا۔
’’موبائل پر غصہ کیوں نکال رہی ہو۔‘‘ عنبر نے اپنی ہنسی روکتے ہوئے کہا۔
ٹیلی فون کی بیل بجی تو عنبر نے فون ریسو کیا’’تم ایسا کرو کہ ان کہ ہسٹری فائل تیار کرو میں ڈاکٹر صاحبہ کو بتاتی ہوں۔‘‘
فون رکھنے کے بعد عنبر، عمارہ سے مخاطب ہوئی’’باہر دو مریض آئے ہیں۔‘‘
’’ٹھیک ہے تم باہر جاکے دونوںPatientsکی ہسٹری فائل لے آؤ پھر انہیں باری باری اندر بلا لینا۔‘‘ یہ کہہ کر عمارہ اپنا لیپ ٹاپShut downکرنے لگی۔ Patientsچیک کرنے کے بعد عمارہ ایک بارپھر اپنا لیپ ٹاپ کھول کر بیٹھ گئی اور اسامہ نام کے اشخاص کے موبائل نمبرز اور Addressesچیک کرنے لگی۔ اس نے تین نمبرز اور ڈائل کیے مگر مایوسی ہوئی اسی دوران دو مریض اور آگئے۔ عمارہ اپنے کام کے ساتھ ساتھ مریضوں کو بھی چیک کرتی رہی۔ دوپہر کے تین بج گئے۔ عمارہ کافی تھک چکی تھی اس نے نقاہت سے کرسی سے پشت لگاتے ہوئے عنبر سے پوچھا۔
’’اور توکوئی مریض نہیں ہے باہر۔۔۔‘‘ عنبر بھی سکون سے کرسی پر بیٹھ گئی۔
’’مریض تو کوئی نہیں ہے مگر کچھ دیر تک مجھے کھانا نہیں ملا تو میں مریضہ بن جاؤں گی۔ تمہیں تو کچھ ہوش نہیں ہے۔‘‘
’’کیوں۔۔۔آج کیا بات ہے ۔۔۔کیا اپنا لنچ بھول آئی ہو۔۔۔؟‘‘ عمارہ نے پوچھا۔
عنبر نے بالوں کی لٹ کو اپنی انگلی سے لپیٹتے ہوئے ادھر ادھر دیکھا۔’’آج بھول آئی ہوں۔‘‘
عمارہ الرٹ ہوکے بیٹھ گئی’’پہلے کیوں نہیں بتایا کہ آج میں اپنا لنچ نہیں لائی۔‘‘
عمارہ نے فون کرکے باہر سے ملازم کو بلایا۔ ملازم اس کے آفس میں داخل ہوا’’جی میڈم!‘‘
عمارہ نے اس سے کچھ کھانے کے لیے منگوایا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ ملازم دو بریانی کی پلیٹیں اور رائتہ لے آیا۔
’’ایک شہر میں ایک شخص کو ڈھونڈنا اتنا سہل نہیں ہے جتنا تم سمجھ رہی ہو۔‘‘ عنبر نے چاولوں کا لقمہ منہ میں ڈالتے ہوئے کہا۔
’’انContactمیں سے کوئی تو نمبر اس کا ہوگا ابھی میں نے سارے نمبر چیک نہیں کیے۔ ان شاء اللہ رابطہ ہو جائے گا۔‘‘
عنبر نے تمسخرانہ انداز میں عمارہ کی طرف دیکھا’’جو شخص ساحل کو ملا وہ انسان ہی تھا یا۔۔۔‘‘
عمارہ نے گھور کر عنبر کی طرف دیکھا’’فضول میں میرا دماغ مت خراب کرو۔ میں نے سارا غصہ تم پر نکال دینا ہے۔‘‘
’’بہرحال جو کچھ بھی کرنا ہے کھانا ٹھیک طرح سے کھا لو پھر کرنا۔‘‘ عنبر نے کہا۔
عمارہ کا لیپ ٹاپ آن ہی تھا۔ اسامہ نام کے اشخاص کی لسٹ سامنے ڈیسک ٹاپ پر تھی۔ عمارہ نے لنچ سے فارغ ہوتے ہی ایک PTCL کا نمبر ملایا جو رینجرز کلب کے چیف میجر اسامہ کا تھا۔
کلب کے اسٹوڈنٹ نے کال ریسیو کی۔’’جی! ہمارے چیف میجر اسامہ ہیں۔ جی آپ کی معلومات درست ہیں۔ ان کا ایک ہاتھ کٹا ہوا ہے۔‘‘
’’آپ مجھے ذرا سمجھا دیں کہ یہ کلب کدھر ہے۔‘‘ عمارہ نے کہا۔
اسٹوڈنٹ نے عمارہ کو کلب کا ایڈریس سمجھایا’’آپ کے چیف اس وقت کلب میں موجود ہیں۔‘‘ عمارہ نے پوچھا۔
’’جی نہیں۔۔۔اس وقت تو وہ باہر گئے ہیں شام کو پانچ بجے وہ کلب میں ہی ہوں گے کیونکہ شام کو ہمارا Campitionہے۔‘‘ اسٹوڈنٹ نے بتایا۔
’’آپ مجھے ان کا موبائل نمبر دے سکتے ہیں؟‘‘ عمارہ نے پوچھا۔
’’سوری میڈم! ہم ان کی اجازت کے بغیر کسی کو بھی ان کا موبائل نمبر نہیں دے سکتے۔‘‘ اسٹوڈنٹ نے کہا۔
’’اچھا۔۔۔ٹھیک ہے۔ آپ کا بہت بہت شکریہ‘‘
یہ کہہ کر عمارہ نے فون بند کر دیا۔ عنبر نے جلدی سے پوچھا۔ ’’کیا بات بن گئی؟‘‘
ایک امید نے عمارہ کے لہجے میں تازگی بھر دی’’لگتا ہے کہ بات بن جائے گی۔ خدا کے فضل سے ہمیں مایوسی نہیں ہوگی۔‘‘
’’میں چلوں گی تمہارے ساتھ۔۔۔‘‘ عنبر نے کہا۔ عمارہ نے نفی کے انداز میں ہاتھ ہلایا۔
’’نہیں۔۔۔میں وہاں اکیلی جاؤں گی۔ جب تمہارے ضرورت ہوگی تو بتا دوں گی۔‘‘
عنبر نے کھانے کے برتن سمیٹے اور اٹھا کے آفس سے باہر لے گئی۔ عنبر واپس آئی تو میز پر بکھری ہوئی فائلز سمیٹنے لگی عمارہ بھی اس کی مدد کرنے لگی اور فائلز اٹھا کے بک شیلف میں رکھنے لگی۔
***
ساڑھے پانچ بجے کے قریب عمارہ نے رینجرز کلب کے قریب گاڑی پارک کی۔ وہ گیٹ کی طرف بڑھی۔ اس نے لیمن کلر کی لانگ شرٹ کے ساتھ بلیو جینز پہن رکھی تھی۔
اس نے اپنے براؤن گلاسز اپنے سر کی طرف ٹکا لیے۔ وہ گیٹ کیپر سے مخاطب ہوئی۔’’اسامہ صاحب ہیں اندر۔۔۔؟‘‘
’’جی ! سر اندر موجود ہیں مگر اس وقت آپ اندر نہیں جا سکتی کیونکہ دو ٹیموں کے درمیان campititionچل رہا ہے۔ اس وقت وہ بہت مصروف ہیں۔‘‘ چوکیدار نے معذرت سے کہا۔
عمارہ نے اپنے ہینڈ بیگ سے اپنا کارڈ نکالا اور چوکیدار کی طرف بڑھایا۔’’تم یہ کارڈ سر کو دکھاؤ اور بتاؤ کہ میں ان سے ملنا چاہتی ہوں۔‘‘
’’کوشش کرکے دیکھ لیتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر چوکیدار نے عمارہ کے ہاتھ سے کارڈ لے لیا اور اسامہ کے پاس چلا گیا۔
تھوڑی دیر کے بعد وہ واپس آیا۔’’آپ اندر آجائیں۔‘‘ اس نے عمارہ سے کہا۔
عمارہ گیٹ سے اندر داخل ہوگئی۔’’آپ میرے ساتھ آئیں۔‘‘ چوکیدار نے کہا۔
عمارہ چوکیدار کے پیچھے پیچھے چل پڑی۔ گیٹ کے قریب سے ہی سامنے گراؤنڈ میں فنکشن کا نظارہ دکھائی دے رہا تھا۔
گراؤنڈ میں دو ٹیموں کے درمیان مقابلہ جاری تھا۔ ٹیموں کے چیف اپنی کرسیوں پر براجمان تھے۔ چوکیدار عمارہ کو جم ہال میں لے گیا۔ آپ یہاں بیٹھیں۔ اسامہ صاحب تھوڑی دیر میں آجائیں گے۔ چوکیدار نے صوفے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
عمارہ بلیک کلر کے صوفے پر بیٹھ گئی۔ یہ صوفہ سیون سیٹر تھا۔ جم کا یہ حصہ آفس کی طرح ہی ڈیزائن کیا گیا تھا۔ جس کا دوسرا حصہ ایک وسیع ہال پر مشتمل تھا۔ جس میں ایکسر سائز کی مشینیں نصب تھیں۔ عمارہ کو اس قدر بڑے ہال میں اس طرح تنہا بیٹھنا بہت عجیب لگ رہا تھا۔
’’شاید مجھے آج یہاں ہیں آنا چاہئے تھا۔۔۔‘‘ اس نے خود کلامی کی۔
وہ کافی دیر بیٹھی رہی۔ اسامہ کا تقریب سے نکلنا مشکل تھا۔ عمارہ نے ٹیبل سے کچھ میگزین اٹھائے اور پڑھنے لگی اس کا خاصا دھیان بدل گیا۔
وہ مطالعہ میں اس قدر مگن ہوگئی کہ اسے علم ہی نہ ہوا کہ کوئی اس کے قریب کھڑا ہے۔ کسی کے کھنگھور نے کی آواز سے اس نے چونک کر اوپر دیکھا تو ایک دراز قد اور چوڑی قامت والا خوبرو جوان اس کے سامنے کھڑا تھا۔ وہ جلدی سے اتھی تو رسالے اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئے۔
وہ جھک کے رسالے اٹھانے لگی۔ وہ جوان بھی جھک کے اس کی مدد کرنے لگا۔ عمارہ نے دیکھا کہ وہ ایک ہاتھ سے اس کی مدد کر رہا ہے اس کا دوسرا ہاتھ نہیں ہے۔ عمارہ نے رسالے سمیٹ کر میز پر رکھ دیئے۔
’’میں اسامہ ہوں۔۔۔آپ کو مجھ سے کیا کام ہے۔‘‘ اسامہ نے صوفے پر براجمان ہوتے ہوئے کہا۔
عمارہ نے مسکراتے ہوئے اسامہ کی طرف دیکھا’’مجھے اپنا تعارف کرانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ میں آپ کو اپنا کارڈ بھیج چکی ہوں۔‘‘
اسامہ نے اپنائیت سے بھرپور نظروں سے عمارہ کی طرف دیکھا۔’’اگر آپ مجھے اپنا کارڈ نہ بھی بھیجتیں تو بھی آپ کو دیکھ کر میں بتا دیتا کہ آپ عمارہ ہیں سائیکاٹرسٹ اور exorcistلیکن اتنی بہادر نہیں ہیں جتنی باتیں کرتی ہیں۔‘‘
’’آپ کیا آنکھوں سے ذہن پڑھنے کا علم جانتے ہیں۔‘‘ عمارہ نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
’’یہی سمجھ لیں کیونکہ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ آپ مجھ سے کس سلسلے میں ملنا چاہتی تھیں۔‘‘
اسامہ ابھی اپنی بات پوری نہیں کر پایا تھا کہ ملازم ٹی ٹرالی میں چائے اور فاسٹ فوڈز لے آیا اسامہ نے چائے بنائی اور عمارہ کو پیش کی۔
’’کیا جانتے ہیں آپ کہ میں آپ سے کس سلسلے میں ملنا چاہتی تھی۔‘‘ عمارہ نے چائے کا کپ لیتے ہوئے کہا۔
’’وشاء حوریہ اور فواد کے بارے میں بات کرنا چاہتی تھیں آپ۔‘‘ اسامہ نے اپنے کپ میں چینی ڈالتے ہوئے کہا۔
عمارہ کے پورے جسم میں جھرجھری دوڑ گئی، کپ اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر گر گیا۔ ’’سوری۔۔۔‘‘ وہ اپنے کپڑے سمیٹتے ہوئے کھڑی ہوگئی۔
’’کوئی بات نہیں میں ملازم سے صاف کروا دیتا ہوں آپ کے کپڑے تو خراب نہیں ہوئے۔‘‘ اسامہ بھی کھڑا ہوگیا۔
’’نہیں۔۔۔میرے کپڑوں پر کوئی داغ نہیں لگا۔‘‘ عمارہ نے کہا۔
اسامہ نے ملازم کو آواز دی۔ تھوڑی دیر کے بعد ملازم آگیا۔ ملازم نے فرش صاف کیا اور کپ کے ٹکڑے بھی اٹھا لئے۔(جاری ہے )
وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 52ویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں