کاپ۔29 گول میز کانفرنس
پاکستان کی میزبانی میں آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں ”گلیشیرز کے تحفظ“ کے موضوع پر ہونے والی کلائمیٹ فنانس گول میز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے موسمیاتی تبدیلی سے نبٹنے کے لئے اقوامِ متحدہ کے فریم ورک پر عمل کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ ترقی یافتہ ممالک کو اِس مسئلے کے حل کے لئے آگے آنا ہو گا کیونکہ ترقی پذیر ممالک کو اُن کی ضرورت ہے،اِن چیلنجوں سے نبرد آزما ہونے کے لئے ترقی پذیرممالک کو 2030ء تک چھ ہزار 800 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان گلیشیرز کا گھر ہے، یہاں سات ہزار گلیشیرز ہیں جو پینے کے پانی کا بڑا ذریعہ ہیں، 90 فیصد پانی کی ضروریات اِنہی سے پوری ہوتی ہیں،درجہ حرارت بڑھنے سے گلیشیرز کا تیزی سے پگھلنا تشویشناک ہے،انسانیت کی بقاء اِن کے تحفظ سے مشروط ہے، تیزی سے پگھلتے گلیشیرزکے تحفظ کے لئے سنجیدہ، مربوط اور موثر اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کو ماضی قریب میں دو تباہ کن سیلابوں کا سامنا کرنا پڑا جن کے نقصانات سے ملک تاحال نہیں نکل سکا۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ کانفرنس آف پارٹیز 29ویں کلائمیٹ ایکشن (کاپ۔29) کے سربراہی اجلاس کا مقصد پرانے پیچیدہ معاملوں کے حل کے لئے نئی سوچ اور راہیں تلاش کرنا ہے، قرض کی شکل میں سرمائے کی فراہمی ترقی پذیر ممالک کو موت کے جال میں دھکیلتی ہے، ڈونر ممالک کو اپنے ترقیاتی امداد کے وعدے پورے کرنا ہوں گے۔ وزیراعظم نے اِس موقع پر متحدہ عرب امارات، ترکیہ، ازبکستان، تاجکستان اور نیپال کے صدور کے علاوہ برطانیہ اور ازبکستان کے وزرائے اعظم اور بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے چیف ایڈوائزر سمیت متعدد عالمی رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں جن میں ماحولیاتی تبدیلی سمیت تجارت اور دیگر شعبوں میں تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا گیا۔
امریکی مندوب جان پوڈیسٹا نے ڈونلڈ ٹرمپ کی واپسی کے باجود موسمیاتی تبدیلی سے متعلق کام جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا اور کہا کہ ٹرمپ فوسل فیول سے دیگر توانائی ذرائع پر منتقلی آہستہ تو کر سکتے ہیں لیکن روک نہیں سکتے۔ کانفرنس میں اقوامِ متحدہ کے ماحولیاتی چیف نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے مسائل سے نبٹنے کے لئے فنڈنگ عطیہ ہے، موسمیاتی مالیاتی ہدف مکمل طور پر ہر قوم کے مفاد میں ہے۔ یو این ایچ سی آر کے سربراہ فلیپو گرینڈی نے رپورٹ کے پیش لفظ میں کہا کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کے باعث، خشک سالی، سیلاب، جان لیوا گرم اور دیگر سنگین موسمی حالات خوفناک تعداد میں ہنگامی صورتحال پیدا کر رہے ہیں جس کی وجہ سے لوگ اپنے گھروں سے نقل مکانی پر مجبور ہیں کیونکہ وہ اِس سے سب سے زیادہ متاثر ہورہے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ اعداد و شمار کے مطابق مہاجرین کی 75 فیصد آبادی اُن ممالک میں رہتی ہے جہاں موسمیاتی تبدیلی کے خطرات زیادہ ہیں، جیسے جیسے موسمیاتی تبدیلی کی رفتار اور پیمانہ بڑھتا جائے گا، اِس تعداد میں مزید اضافہ ہو گا۔ یو این ایچ سی آر کے جون کے اعداد و شمار کے مطابق ایک کروڑ 20 لاکھ افراد جنگ، کشیدگی اور جارحیت کی وجہ سے جبری طور پر بے گھر ہو کر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ یو این سی آر کے خصوصی مشیر کا کہنا تھا کہ عالمی سطح پر گزشتہ ایک دہائی میں تنازعات کی وجہ سے نقل مکانی کرنے والے افراد کی تعداد میں دوگنا اضافہ ہوا ہے جبکہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے آنے والی آفات نے صرف گزشتہ دہائی کے دوران تقریباً 20کروڑ افراد کو بے گھر کیا ہے جو قریباً روزانہ 60 ہزار افراد کے بے گھر ہونے کے برابر ہے۔انڈونیشیائی مندوب نے کانفرنس کے شرکاء کو بتایا کہ ان کا ملک آئندہ 15 سال میں 75 گیگاواٹ قابل تجدید توانائی پیدا کرے گا۔ غیرملکی میڈیا کے مطابق آذربائیجان نے اجلاس میں کلائمیٹ فنانس ایکشن فنڈ کے قیام کی تجویز پیش کی جس کے تحت 10ممالک سے ایک ارب ڈالر رضاکارانہ فنڈ اکٹھا کیا جائے گا۔افغان طالبان حکام بھی کاپ۔29 کے اجلاس میں شریک تھے، افغان موسمیاتی ایجنسی کو بطور مبصر اجلاس میں مدعو کیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ کانفرنس آف پارٹیز (کاپ) اقوام متحدہ کی طرف سے حکومتی سطح پر ہونے والے سالانہ عالمی اجتماعات میں سے ایک ہے جس میں موسمیاتی تبدیلی کے خلاف اقدامات پر غور کیا جاتا ہے،اسے موسمیاتی تبدیلی پر اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن کے فریقین (یو این ایف سی سی سی) کی کانفرنس کی مناسبت سے ”سی او پی“ یا ”کاپ“ کہا جاتا ہے۔”یو این ایف سی سی سی“ کنونشن 21 مارچ 1994ء کو منظور کیا گیا تھا اور اِس کا مقصد موسمیاتی نظام میں انسانوں کی ”خطرناک“ مداخلت کو روکنا تھا۔ دنیا کے 198 ممالک اِس کے فریق ہیں اور اِس طرح تقریباً پوری دنیا کے پاس اِس کی رُکنیت ہے۔ 2015ء میں منظور کیا جانے والا پیرس موسمیاتی معاہدہ بھی اِسی کنونشن کا توسیعی حصہ ہے اور اِس کے بعد ہونے والی ایسی کانفرنسوں میں دنیا کی توجہ اِس معاہدے کے اہم ترین ہدف پر عملدرآمد پر رہی ہے، جو کہ عالمی حدت میں اوسط اضافے کو دو ڈگری سیلسیئس سے نیچے رکھنا اور مستقبل میں اسے صنعتی دور سے پہلے کے مقابلے میں 1.5 ڈگری سیلسیئس تک محدود کرنا ہے۔ پیرس میں ہونے والی کاپ۔21 میں یہ معاہدہ طے پایا تھا، کیٹووائس میں کاپ۔24 اور گلاسگو میں منعقدہ کاپ۔26 میں اِس معاہدے پر عمل کی منصوبہ بندی کی گئی اور پھر شرم الشیخ میں ہونے والی کاپ۔27 میں دنیا نے اِس پر عملدرآمد کا فیصلہ کیا۔ گزشتہ سال دبئی میں ہونے والی کاپ۔28 کانفرنس میں ایک دن کی توسیع کرنی پڑی تاکہ شرکا میں معاہدہ طے پا جائے، اُس وقت سب سے اہم یہ تھا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اصل محرک کا تعین کی جا سکے، دہائیوں کے کوشش کے بعد تاریخ میں پہلی بار معدنی ایندھن یعنی فوسل فیول (تیل اور گیس) کو نہ صرف موسمیاتی تبدیلی کا اصل محرک تسلیم کر لیا گیا بلکہ توانائی کے قابل تجدید ذرائع کی جانب مرحلہ وار منتقلی کی منظوری بھی دے دی گئی تھی۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک نے اگرچہ اِس معاہدے کو ضرورت سے کم قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ کانفرنس میں اِس سے بہت زیادہ طے کیے جانے کی ضرورت تھی۔ اس موقع پر لگ بھگ 100 سے زائد ممالک نے لابنگ کی کہ کاپ۔28 معاہدے میں تیل، گیس اور کوئلے کے استعمال کو ”مرحلہ وار ختم“ کرنے کی سخت الفاظ استعمال میں تائید کی جائے تاہم تیل پیدا کرنے والے گروپ ”اوپیک“نے اِس کی شدید مخالفت کرتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ معدنی ایندھن کو استعمال کرتے ہوئے بھی گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج کم کیا جا سکتا ہے۔ کاپ 28 میں ہونے والے معاہدے میں 2050ء تک گرین ہاؤس گیسوں کے خالص اخراج اور درجہ حرارت کو طے شدہ سطح تک رکھنے کے عہد کو دہرایا گیاتھا اور دنیا سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ 2030ء تک گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں 43 فیصد کمی کرے گی۔
گزشتہ کانفرنسوں میں ہونے والے فیصلوں کامقصد پیرس معاہدے کو نتیجہ خیز بنانا تھا، موسمیاتی تبدیلیوں کے اصل محرک کا تعین ہو گیا اور اِس سے مرحلہ وار چھٹکارا پانا بھی طے پا گیا تھا لیکن ابھی تک اس حوالے سے کئے گئے وعدے پورے نہیں ہوئے، گزشتہ دو کاپ کانفرنسوں (27,28) کے دوران جو مالیاتی وعدے کیے گئے تھے اُنہیں بھی ایفاء نہیں کیا جا سکا،وزیراعظم کاپ۔29 کے دوران اِسی کا شکوہ کرتے نظر آئے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ وہ ممالک جو مالی استطاعت نہیں رکھتے اور دنیا کے کیے دھرے کی سزا بھگت رہے ہیں اُنہیں قرض نہیں بلکہ امداد دی جانی چاہئے، موسمیاتی تبدیلیوں کا باعث بننے والے ممالک کو اپنے کیے کا مداوا کرنا چاہئے۔ یہ بات خوش آئندہ ضرور ہے کہ مستقبل کے خطرات کا احاطہ کیا جا رہا ہے، اُنہیں سمجھا جا رہا ہے، اِس لئے اُمید پیدا ہو رہی ہے کہ اِن خطرات سے نبٹنے کے لئے موسمیاتی تبدیلیوں کے ذمہ دار ممالک بھی سنجیدہ ہوجائیں گے کیونکہ یہ اُن کی اپنی بقاء کا مسئلہ بھی ہے۔صرف بات کرنا،معاہدے کر لینا کافی نہیں ہے، عملدرآمد کرنا سب سے زیادہ ضروری ہے۔
٭٭٭٭٭