آئی ایم ایف کا نیا قرض پروگرام
عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کے آئندہ قرض پروگرام کے لیے ایگزیکٹو بورڈ کا اجلاس 25 ستمبر کو طلب کر لیا ہے، پاکستان کے لیے سات ارب ڈالرز کے نئے قرض پروگرام کی منظوری کی اُمید نظر آ رہی ہے۔ واشنگٹن میں ڈائریکٹر کمیونیکیشن آئی ایم ایف جولی کوزیک نے پریس بریفنگ میں بتایا کہ پاکستان نے ترقیاتی شراکت داروں سے درکار ضروری مالی یقین دہانیاں حاصل کرلی ہیں اِس لیے اب ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس میں پاکستان کے لیے قرض پروگرام کی منظوری کا جائزہ لیا جائے گا۔ اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان نے 9 ماہ کا سٹینڈ بائے معاہدہ گزشتہ برس کامیابی سے مکمل کیا، 37ماہ کے قرض پروگرام کی شرائط پر عملدرآمد جاری ہے۔ پاکستانی حکام تسلیم کرتے ہیں معیشت کو کامیابی سے مستحکم کرنے اور پائیدار ترقی کی راہ ہموار کرنے کے لیے نئے ای ایف ایف کا مستقل نفاذ ضروری ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق اِس طرح روزگار اور معیارِ زندگی کو بہتر کرنے کے مواقع پیدا ہوں گے اور یہی پروگرام کا مقصد ہے،2023ء پروگرام کا تجربہ پاکستانی حکام کے عزم کو ظاہر کرتا ہے،پاکستانی حکام ایسی پالیسیوں پر عملدرآمد کرنے کے قابل تھے جو معیشت کو بحال کرنے میں مدد دے سکیں، نئے پروگرام کا مقصد اِسی عزم کو آگے بڑھانا،مضبوط ترقی اور ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے کے لیے پائیدار ماحول پیدا کرنا ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان اور عالمی مالیاتی ادارے کے درمیان جولائی 2024ء میں سٹاف سطح کا معاہدہ طے پایا تھا اور اب بورڈ اجلاس میں پروگرام کو حتمی شکل دیے جانے کا قوی امکان ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کے مطابق آئی ایم ایف کے ساتھ تمام معاملات خوش اسلوبی سے طے پاگئے ہیں اور رواں ماہ ہونے والے بورڈ کے اجلاس میں نئے پروگرام کو حتمی شکل دے دی جائے گی۔اُنہوں نے مزید کہا کہ ملکی معیشت مستحکم ہونے کے بعد اب ترقی کی جانب گامزن ہے،پالیسی ریٹ میں کمی سے ملک میں سرمایہ کاری اور کاروباری سرگرمیوں میں اضافہ ہو گا اور معاشی سرگرمیاں بڑھنے سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے جبکہ مہنگائی کی شرح میں مسلسل کمی کے رجحان سے عام آدمی کو ریلیف ملنا شروع ہو چکا ہے۔ آئی ایم ایف معاہدے سے متعلق خبر آنے سے قبل گورنرسٹیٹ بینک نے بتایا تھا کہ آئی ایم ایف کے علاوہ بین الاقوامی نجی شعبے سے دو ارب ڈالرز قرض کی یقین دہانی حاصل کر لی گئی ہے،اب آئی ایم ایف پروگرام کے حصول میں مزید کوئی رکاوٹ نہیں،پاکستان کو رواں مالی سال 26 ارب ڈالر سے زائد کی ادائیگیاں کرنی ہیں جبکہ رواں مالی سال کی 16 ارب ڈالر سے زائد کی ادائیگیاں رول اوور ہو جائیں گی، آئندہ سال مارچ تک 14ارب ڈالر سے زائد واجب الادا ہیں جس میں 8.3 ارب ڈالر رول اوور ہوں گے جبکہ بقیہ 5.8 ارب ڈالر ماہانہ 80 کروڑ سے ایک ارب ڈالر ماہانہ ادا کر دیے جائیں گے۔ سٹیٹ بینک کے مطابق جولائی سے ستمبر تک چار ارب ڈالر کی ادائیگیاں سیٹل کی جا چکی ہیں، 1.7 ارب ڈالر ادا جبکہ 2.3 ارب ڈالر رول اوور کیے گئے ہیں۔
دوسری جانب جمعرات ہی کو سٹیٹ بینک آف پاکستان کی مانیٹری پالیسی کمیٹی (ایم پی ایس) نے اپریل 2020ء کے بعد سب سے زیادہ کمی کرتے ہوئے اہم پالیسی ریٹ کو 200 بیسس پوائنٹس (بی پی ایس) یعنی دو فیصد کم کرکے 17.5 فیصد کردیا جس کا اطلاق 13 ستمبر 2024ء سے ہو چکا ہے۔ مرکزی بینک کی طرف سے جاری کیے گئے بیان کے مطابق گزشتہ مالی سال جون میں 150 اور جولائی کے آخر میں مزید 100 بی پی ایس کی کمی کے بعد سٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود میں یہ مسلسل تیسری کمی ہے۔ اپریل 2020ء میں بھی وبائی امراض کے دوران سٹیٹ بینک نے شرح سود میں 200 بی پی ایس کی کمی کی تھی،اُس وقت بنیادی شرح سود 11 فیصد تھی جسے کم کر کے نو فیصد کیا گیا تھا۔ کمیٹی کا کہنا تھا کہ معیشت کو اب بھی ایک فطری غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے جو محتاط مانیٹری پالیسی کا جواز فراہم کرتی ہے۔ کمیٹی نے مثبت پیشرفت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حقیقی شرح سود اب بھی کافی حد تک مثبت ہے،افراطِ زر کو درمیانی مدت کے ہدف کے تحت پانچ سے سات فیصد تک لانا ہے جس میکرو اکنامک استحکام کو یقینی بنانے میں مدد مل سکتی ہے اور یہ اقتصادی ترقی کے حصول کے لیے ضروری ہے۔ کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مجموعی طور پر جی ڈی پی کی حقیقی شرح نمو بھی آئندہ مالی سال کے 2.5 سے 3.5 فیصد کے تخمینے کے مطابق ہے، بین الاقوامی منڈی میں خام تیل کی قیمتو ں میں خاطر خواہ کمی اور عالمی مالیاتی حالات میں نسبتاً نرمی کی وجہ سے عالمی میکرو اکنامک ماحول سازگار ہو گیا ہے،آئندہ برآمدات کے حجم میں اضافے کی تو قع ہے جو موجودہ ملکی معاشی بحالی کے مطابق ہے، ملکی تجارتی حالات میں بہتری کے علاوہ خام تیل کی بین الاقوامی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے آئندہ مالی سال میں مجموعی تجارتی خسارے پر قابو پانے میں مدد ملنے کا امکان ہے، بیرون ممالک سے ترسیلاتِ زر میں اضافے کی بھی توقع ہے جبکہ آئندہ مالی سال کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جی ڈی پی زیادہ سے زیادہ ایک فیصد رہنے کی توقع ہے، کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کمی اور آئی ایم ایف پروگرام کے تحت موصول ہونے والی رقوم سے سٹیٹ بینک کے غیر ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر کو مزید مضبوط کرنے میں مدد ملے گی جبکہ سالانہ بنیادوں پر افراطِ زر کی شرح 11.5 سے 13.5 فیصد یا اِس سے بھی سے کم رہ سکتی ہے۔
پاکستانی معیشت درست سمت میں آگے بڑھ رہی ہے، تمام اشاریے مثبت ہیں جس کے اثرات بھی سامنے آ رہے ہیں تاہم آئی ایم ایف کی طرف سے مکمل کیے گئے پروگرام اور اب نئے معاہدے کے تحت کیے جانے والے سخت فیصلوں کے باعث ملکی معاشی سرگرمیوں کی رفتار میں کمی آئی ہے۔ اِس میں کوئی دو رائے نہیں کہ معیشت کو ڈیفالٹ کی سطح سے واپس لانے اور پھر درست سمت میں ڈالنے کے لیے سخت فیصلے ناگزیر تھے، عالمی بینک اور آئی ایم ایف سمیت دیگر عالمی مالیاتی اداروں نے پاکستان کی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے جو تجاویز دی تھیں اُن پر عملدرآمد کر کے ہی ملکی معیشت کو ترقی کی راہ پر ڈالا جا سکتا ہے تاہم حکومت کی کامیابی یہ ہو گی کہ اِن تمام تجاویز پر عمل کرتے ہوئے بین الاقوامی منڈیوں میں تیل کی قیمتوں میں کمی سمیت دیگر رعایتوں سے بھر پور فائدہ اٹھائے،اپنی توجہ دنیا میں متعارف کرائی جانے والی نئی جہتوں پر مرکوز کرے اور عام آدمی کو ہر صورت ریلیف دے۔