گورنر ہاؤس سندھ میں گورنرز کانفرنس کا پہلی بار انعقاد، گورنر ٹیسوری نے مہارت سے عوامی مفاد کا ذکر کیا، مقبول ہوئے

     گورنر ہاؤس سندھ میں گورنرز کانفرنس کا پہلی بار انعقاد، گورنر ٹیسوری نے ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

قیام پاکستان کے بعد کراچی شہر بہت ہی عجیب ڈھنگ سے پھیلتا چلا گیا، سینکڑوں کچی بستیاں بھی آباد ہوگئیں۔ گذشتہ کئی سالوں سے اس شہر کی ٹاؤن پلاننگ کو درست کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں لیکن اسٹیک ہولڈرز کسی ایک نقطہ پر کم ہی متفق ہوتے ہیں۔ لیاری ایکسپریس وے پر بہت تاخیر ہوئی لیکن ابھی وہ شہر کا بڑا ٹریفک کم کرنے میں کردار ادا نہیں کرسکی۔اسی طرح ناردرن بائی پاس اس معیار کا نہیں کہ کراچی پورٹ کا ہیوی ٹریفک اسے اپنی گذرگاہ بنا سکے۔اب ملیر ایکسپریس وے کا آغاز ہوا ہے جس کے پہلے سیکشن کا افتتاح بلاول بھٹو زرداری نے کیا اور اس 9 کلومیٹر سڑک کا نام ذوالفقار علی بھٹو ایکسپریس وے رکھ دیاگیا۔ اس موقع پر بلاول بھٹو زرداری نے کراچی کے ترقیاتی کاموں میں اسے اہم ترین قرار دیا۔ 

یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مواصلات میں سڑکیں، ریل، ایئرلائنز، شپنگ اور ٹیلی مواصلات میں انٹرنیٹ،سبھی اہمیت کے حامل شعبے ہیں، سب اپنی جگہ اہم ہیں، کوئی کم تر نہیں۔ تیز ردفتار ترقی کیلئے ان سب کو جدید ترین نظام سے منسلک کرنا ضروری ہے۔  کراچی کے ملتوی شدہ منصوبوں میں سرکلر ریلوے بہت اہم ہے، اس کو شروع کرنے کیلئے وفاق اور صوبے کے ساتھ ساتھ کراچی کی شہری حکومت کو بھی کوششیں تیز کرنا چاہئیں۔ اب تو یوں دکھائی دیتا ہے کہ کراچی، حیدرآباد موٹروے پر ایک ریلوے ٹریک بھی ہونا چاہیے کیونکہ یہاں نئے شہر آباد ہورہے ہیں۔ مستقبل قریب میں کراچی کی کثیر آبادی یہاں منتقل ہوجائے گی اس کیلئے پسنجر ٹرین ہی سستا سفر مہیا کرسکتی ہے۔ اگر حکومت دلچسپی لے تو موٹر وے پر آباد ہونے والی نئی ہاؤسنگ اسکیموں کا کنسورشیم ترتیب دیا جاسکتا ہے جو وفاق اور صوبے سے مل کر ریلوے ٹریک بچھا سکتا ہے، یہ مستقبل کا ایک شاندار منصوبہ بن سکتا ہے۔  

گورنر ہاؤس سندھ میں پہلی گورنرز کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں گورنر کے آئینی کردار کو موثر بنانے کی اہمیت پر زور دیا گیا۔ ملک میں پارلیمانی نظام ہے اس میں وفاق میں صدر اور صوبوں میں گورنر ریاست کے نمائندے کی حیثیت سے فرائض انجام دیتے ہیں۔ پاکستان کی معاشی حالت کو دیکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم ایک بڑے انتظامی نظام کو چلانے کے متحمل نہیں ہوسکتے، اس کے لیے  ملک کو انتظامی شعبے میں بے پناہ وسائل صرف کرنے پڑتے ہیں، اس سے نجات دلائی جائے۔ اس وقت یہ عہدے اکثر سیاسی پارٹیوں کے درمیان اقتدار میں توازن کیلئے نہیں بلکہ مفادات پہنچانے کے لئے دیئے گئے ہیں۔ گورنر کا عہدہ بظاہر اضافی دکھائی دیتا ہے، گورنر سندھ نے اپنی مہارت سے اسے عوامی مفاد میں استعمال کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے، جس پر انہیں عوامی پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔

پاکستان کو نئے صوبے بنانا چاہئیں اور صرف منتخب صوبائی چیف ایگزیکٹو ہونا چاہیے، جبکہ ملک کو ایک موثر بلدیاتی نظام کی زیادہ ضرورت ہے۔ سیاسی جماعتوں کو عوام کو شریک اقتدار کرنے کیلئے شہری حکومت کو موثر بنانے پر سنجیدہ کوششیں کرنی چاہئیں۔             

وزیراعظم شہباز شریف نے کراچی کا دورہ کیا اور اسٹاک ایکسچینج کی کارکردگی کو سراہا۔ وزیراعظم کی آمد پر مارکیٹ منفی رحجان دکھا رہی تھی لیکن اس پورے سال میں انڈیکس کا ایک لاکھ کی نفسیاتی حد عبور کرنا ایک سنگ میل ہے، لیکن مارکیٹ کا حجم ابھی بہت کم ہے کیونکہ ملکی کرنسی کی قدر ڈالر کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ لیکن بازارحصص کا فعال اور متحرک ہونا خوش آئند ہے۔

وزیراعظم کو یقینا اس بات کا ادراک ہوگا کہ بجلی اور گیس کے نرخ کی وجہ سے انڈسٹری پر بہت برا وقت ہے جبکہ گھریلو صارفین کی کمر مہنگائی نے توڑ دی ہے۔ اگرچہ شرح سود میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن تعمیرات اور رئیل اسٹیٹ ابھی مکمل طور پر فعال نہیں ہوئی۔ پاکستان کو ایک مربوط معاشی پلان کی ضرورت ہے لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام ہو اور تمام سیاسی جماعتیں مل کر میثاق معیشت کریں۔ ابھی تک حکومت اور اپوزیشن کے مذاکرات اتار چڑھاؤ کا شکار ہیں۔ جمہوریت اسی وقت پروان چڑھے گی جب اپوزیشن کی اہمیت کو تسلیم کیا جائے گا اور عوامی رائے کا احترام کیا جائے گا۔ 

شاہراہ ذوالفقار علی بھٹو کے افتتاح کے موقع پر اگرچہ بلاول بھٹو زرداری نے وفاق پر تنقید کی اور کہا کہ سندھ کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک ہورہا ہے۔ پیپلز پارٹی کینال پروجیکٹ پر وفاق سے استفسار کررہی ہے لیکن سندھ کی قوم پرست جماعتیں پیپلز پارٹی کی طرف سے شکوک و شبہات کا شکار ہیں اور کھلی تنقید کررہی ہیں کہ پیپلز پارٹی، چولستان کینا ل کے حوالے سے بظاہر وفاق پر تنقید کررہی ہے لیکن حقیقت میں اس نے وفاق کو اپنی درپردہ رضامندی دے رکھی ہے۔ شاہ محمود قریشی نے بھی جیل سے پیپلز پارٹی کو مخاطب کیا ہے کہ اگر کینال پروجیکٹ پر اعتراض ہے تو آپ کو حکومتی اتحاد سے علیحدہ ہونا چاہیے۔

پیپلز پارٹی کو اس طرز سیاست میں کامیابی حاصل کرنا بہت مشکل ہے۔ سندھ میں اسے ہر صورت حکومت میں رہنا ہے اس لیے وہ دوستانہ اپوزیشن ہی کرسکتی ہے لیکن وزیراعظم انہی کے ووٹ سے اپنی پوزیشن پر موجود ہیں، حقیقت میں کوئی خطرہ ان دونوں پارٹیوں کو تحریک انصاف سے ہے، آپس میں دوستانہ میچ ہی کھیل رہے ہیں۔ 

بلاول بھٹو زرداری کو اس بات کا ادراک ضرور ہے کہ کراچی کا اولین مسئلہ صاف پانی کا حصول ہے۔ پانی کی فراہمی کے جتنے دعوے کیے گئے ہیں وہ درست ثابت نہیں ہوئے۔ ٹینکر مافیا کو بااثر سیاسی افراد کی حمایت حاصل ہے، حکومت سندھ جب تک اس کی تطہیر نہیں کرتی، اس کو عوامی پذیرائی نہیں ملے گی۔ پانی کی تقسیم کے نظام کو درست کرنے کیلئے انصاف سے کام لینا ہوگا اگر کسی خاص علاقے اور گروپ کو میرٹ سے بالا ہو کر سہولت فراہم کی جارہی ہے تو یہ نظام کبھی بھی درست نہیں ہوگا۔

بلاول بھٹو زرداری کو اگر کراچی والوں کے دل جیتنے ہیں تو پانی کے مسئلے کو حل کرنے میں کردار ادا کریں، ورنہ ان کے بیانات کے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ شہر کراچی میں پانی ایک منافع بخش کاروبار ہے، لیکن یہ واٹر بورڈ کے کچھ افراد کی سرپرستی میں ہی چلایا جاسکتا ہے۔ ایسے لوگوں کا نیٹ ورک توڑنے کی کوشش کرنی چاہیے، اسی سے عوام کو حقیقی فوائد حاصل ہونگے۔

مزید :

ایڈیشن 1 -