حکومت اور آئی ایم ایف مذاکرات
عالمی مالیاتی فنڈ کے مشن اور وزارتِ خزانہ کے درمیان منی بجٹ نہ لانے کے ساتھ ساتھ کسی قسم کا اضافی ٹیکس عائد نہ کرنے پر اتفاق ہو گیا۔ یہ بھی طے پایا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کا ٹیکس ہدف 12ہزار 970 ارب برقرار رہے گا اور اِس پر نظر ثانی نہیں کی جائے گی جبکہ پیٹرولیم مصنوعات پر بھی جنرل سیلز ٹیکس عائد نہیں کیا جائے گا۔ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) مشن اورمعاشی ٹیم کے دررمیان بدھ کو دو مذاکراتی دور ہوئے جن میں آئی ایم ایف مشن کوگراس فنانسنگ اور ڈیبٹ میچورٹی، حکومتی سطح پرڈیجٹلائزیشن، آرٹیفیشل انٹیلی جنس اقدامات کے بعد ریونیو وصولیوں میں بہتری پر بریفنگ دی گئی۔
پاکستانی حکام نے مشن کو بتایا کہ ٹیکس ٹوجی ڈی پی کی شرح 8.8 سے بڑھ کر 10.3 فیصد ہو گئی ہے جس پر آئی ایم ایف نے اطمینان کا اظہار کیا۔ مشن کو حکام کی طرف سے سے یہ یقین دہانی بھی کرائی گئی ہے کہ زرعی شعبے سے ٹیکس وصولی آئندہ سال سے شروع ہو جائے گی۔ مشن کو بتایا گیا کہ مستحکم شرح تبادلہ اور کم پالیسی ریٹ کے مد ِ نظر دسمبر میں معاشی سرگرمیوں کو بہتر بنایا جائے گا جس سے رواں مالی سال کی دوسری سہ ماہی میں ریونیو شارٹ فال پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ وزارتِ خزانہ کے مطابق آئی ایم ایف کے ساتھ تاجردوست سکیم میں کچھ تبدیلیوں پربات چیت متوقع ہے، تین ماہ میں ریٹیلرز سے 12 ارب روپے ٹیکس جمع کیا گیا اور رجسٹرڈ تاجروں کی تعداد دو سے بڑھ کرچھ لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔ ایف بی آر نے آئی ایم ایف ٹیم کو آگاہ کیا کہ30لاکھ چھوٹے دکانداروں کے بجائے پانچ لاکھ ممکنہ خوردہ فروش ایف بی آر کا اہم ہدف ہیں۔ حکام نے عالمی مالیاتی ادارے کے مشن کو بریف کیا کہ کسٹمز انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن سے انفورسمنٹ واپس لے لی گئی ہے البتہ کسٹمز انٹیلی جنس ڈیپارٹمنٹ برقرار ہے، ٹیکس قوانین ترمیمی آرڈیننس 2024ء کا مسودہ منظوری کے لئے وزیراعظم کو پیش کر دیا گیا ہے جس میں ایک نیا فیملی انکم ٹیکس ریٹرن شامل ہے جس میں نان فائلرز اور لیٹ فائلرز کے تصورات کو ختم کر دیا گیا ہے جبکہ اِس سے بڑی تعداد میں زیرو ٹیکس کے ساتھ جمع کروائی گئی انکم ٹیکس ریٹرنیں ختم کرنے میں بھی مدد ملے گی کیونکہ اِن میں سے زیادہ لوگ وہ ہیں جو ٹیکس اہلیت کے زمرے میں آتے ہی نہیں ہیں۔ مذاکرات کے دوران مقامی قرض پربھی تفصیلی بات چیت کی گئی، حکومت نہ صرف مقامی قرض بتدریج کم کر رہی ہے بلکہ اِن کی ادائیگیوں کی مدت بھی بڑھا رہی ہے جس پر آئی ایم ایف نے کوئی اعتراض نہیں اُٹھایا اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی کارکردگی پر بھی اطمینان کا اظہار کیا۔
ٹیکس محصولات کے ہدف میں کمی ہی دراصل وہ مسئلہ تھا جس کی وجہ سے آئی ایم ایف کا مشن پاکستان آیا کیونکہ محصولات کے ہدف کا حصول ہی عالمی مالیاتی ادارے کے سات ارب ڈالر کے ایکسٹینڈڈ فنڈ فسیلٹی پروگرام کی پیشگی شرط تھی جس کی باقاعدہ منظوری ایگزیکٹو بورڈ آف ڈائریکٹرز نے 27 ستمبر کو دی تھی۔ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ رواں مالی سال کی دوسری سہ ماہی کے محصولات میں 230 ارب روپے کا شارٹ فال ہو سکتا ہے۔ معاشی ماہرین پہلے ہی کہہ چکے تھے کہ آمدن میں 40 فیصد اضافے کا تصور غیر حقیقی ہے خاص طور پر جب ملکی معیشت کی حالت ٹھیک نہ ہو، موجودہ نازک صورتحال میں تمام تر اقدامات یقینی بنانے پر 20 فیصد اضافہ حاصل کرنا ہی ممکن تھا اور وہ کر بھی لیا گیا ہے۔ معاشی ماہرین یہی تنقید کر رہے تھے کہ جون میں پیش کیے گئے رواں مالی سال کے بجٹ میں ٹیکسوں کے ذریعے آمدن بڑھانے کا انحصار اُس تنخواہ دار طبقے پر کیا گیا ہے جو پہلے ہی مہنگائی کے ہاتھوں پریشان ہے، اُس کی معیارِ زندگی برقرار رکھنے کی صلاحیت پہلے ہی کم ہو چکی ہے جس کے نتیجے میں ضروریاتِ زندگی پوری کرنے کے لئے درکار اشیاء کی کھپت میں کمی آ چکی ہے، ایسے میں بالواسطہ ٹیکسوں سے آمدن میں اضافہ شاید ممکن نہ ہو،اِس کی نسبت اُس طبقے پر ٹیکس عائد کیا جاتا جو اِسے دینے کی اہلیت رکھتا ہے تو شاید متوقع شارٹ فال پر قابو پا لیا جاتا یا یہ نظر انداز کرنے کی حد تک کم ہوتا۔
حکومت نقصان میں چلنے والے اُن اداروں کی نجکاری کرنے میں بھی تاحال ناکام ہے جو سالانہ سینکڑوں ارب کا نقصان کر رہے ہیں، حال ہی میں منظر عام پر آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ دہائی کے دوران اِن اداروں نے 55کھرب روپے سے زائد کا نقصان کیا، سالانہ پانچ کھرب سے زائد نقصان ہونے سے ملکی خزانے پر جو بوجھ پڑ رہا ہے اس کے ہوتے ہوئے معیشت کیسے سنبھل سکتی ہے۔در حقیقت یہ ادارے اور قرض، دو بہت بڑے مسائل ہیں جن کا حل ضروری ہے، اب کوشش تو کی جا رہی ہے لیکن یہ سمجھنا لازم ہے کہ مزید کسی غلطی کی گنجائش نہیں ہے۔
کسی بھی معیشت کا بنیادی مسئلہ آمدن اور اخراجات میں توازن کا نہ ہونا ہے، اس طرح تو گھر چلنا مشکل ہو جاتا ہے کجا کہ ملک چلایا جائے، یہ توازن قائم کرنا ازحد ضروری ہے۔ حکومت اپنے تئیں کوشش تو کر رہی ہے، بین الاقوامی سرمایہ کاری کی خبریں بھی آ رہی ہیں لیکن سب سے پہلے اپنی صفیں درست کرنا لازم ہے۔ حکومت کو سمارٹ گورننس اپنانی چاہئے،صرف باتیں کرنے سے کام نہیں چلتا، عملی اقدامات بھی نظر آنا چاہئیں۔یہاں تو اُلٹا حکومتی اخراجات میں اضافے کی خبریں سننے کو مل رہی ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اِس سال حکومتی اخراجات میں 21 فیصد کا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور اِس کی کوئی وضاحت یا وجہ بھی سامنے نہیں آئی۔حکومت کو غور کرنا چاہئے کہ پہلی سہ ماہی میں اگر شارٹ فال ہے تو دوسری سہ ماہی میں ہدف کیسے پورا ہو گا۔
آج ہم جس جگہ کھڑے ہیں وہاں تک پہنچانے میں ناقص حکومتی پالیسیوں کا بہت بڑا ہاتھ ہے،برسر اقتدار آتے ہی جانے والے کی برائیاں کرنا ایک عام سا رواج بن گیا ہے،زیادہ تر توانائی خود کو صحیح اور دوسرے کو غلط ثابت کرنے میں صرف کی جاتی ہے۔اصولی طور پر کسی بھی نئی آنے والی حکومت کو پوری توجہ اپنی کارکردگی پر مرکوز رکھنی چاہئے، عوام کو ریلیف دینے کے بارے میں سوچنا چاہئے۔اگر عوام سکون میں ہوں گے تو ان کا اعتماد حکومت اور اداروں پر بڑھے گا، حکومت کا کام بولے گا اور پھر کسی یقین دہانی یا نعرے کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔