عمران خان کے لئے عمران خان درکار
شیخ رشید کے بعد اب عمران خان کو مارو یا مرجاؤ کی کال دینے کا شوق چرایا ہے اور ان کا خیال ہے کہ ان کی اس کال پر پنجاب کے لوگ گھروں سے دیوانہ وار نکل آئیں گے اور وہ انقلاب برپا کردیں گے جس کی خواہش انہوں نے 9مئی سے قبل پال رکھی تھی۔ ایسی ہی بے سروپا باتیں کرنے کے سبب آج کل شیخ رشید گوشہ گمنامی میں پڑے ہوئے ہیں اور اب لگتا ہے کہ عمران خان کا بھی وہی انجام ہونے والا ہے۔
دراصل ٹرمپ کی کامیابی نے پی ٹی آئی کے حلقوں میں نئی روح پھونک دی ہے اور وہ انہیں دکھانا چاہتے ہیں کہ خالی امریکی کانگریس کے بکاؤ اراکین ہی نہیں پاکستان کے عوام بھی ان کے ساتھ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر گزشتہ بارہ کالوں کی طرح یہ تیرھویں کال بھی ناکام ثابت ہوئی تو کیا عمران خان جیل کی سلاخوں سے سر کو پھوڑیں گے یا پھر جلاوطنی اختیار کرلیں گے؟
ایک موقر روزنامے کے مطابق پی ٹی آئی کے ذرائع نے بتایا ہے کہ پارٹی کے بیشتر سینئر رہنما (جو ارکان پارلیمنٹ ہیں یا پھر کے پی حکومت کا حصہ ہیں) بھرپور احتجاج کے حامی نہیں۔ حتیٰ کہ شعلہ بیاں رہنماؤں کو بھی ڈر ہے کہ بھرپور احتجاج کارگر ثابت نہیں ہوگا جس سے پارٹی اور اس کے مقصد کو نقصان ہوگا۔ پی ٹی آئی کے تقریباً تمام سرکردہ ارکان صوبائی اسمبلی ان لوگوں میں شامل ہیں جو ڈُو آر ڈائی (Do or Die) احتجاج کے مخالف ہیں اور انہیں یقین ہے کہ اس سے عمران خان کی رہائی میں مدد ملے گی اور نہ پارٹی کو فائدہ ہوگا۔ اس کے برعکس، ان ارکان نے خبردار کیا ہے کہ اس اقدام سے پارٹی کیلئے مزید مسائل پیدا ہوں گے۔
پی ٹی آئی کے ان احتیاط پسند حلقوں کا خیال ہے کہ اول تو حکومت ماضی کی طرح ایسے احتجاج کی اجازت نہیں دے گی۔مزید پارٹی رہنما اور کارکنان گرفتار ہوں گے اور ان پر مقدمات بنائے جائیں گے۔ دوسرا یہ کہ اگر حکومت تحریک انصاف کو احتجاج کیلئے فری ہینڈ دے بھی دے تو اس صورت میں بھی مظاہرین یا احتجاج کی قیادت کرنے والے رہنما عمران خان کو جیل سے نہیں نکال سکتے۔ اس کے لئے پارٹی کو 2014ء جیسے دھرنے کیلئے وسائل کی ضرورت ہے۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ پی ٹی آئی کو جنرل فیض حمید کی ترتیب کردہ منصوبہ بندی اور وسائل کی دستیابی جیسا ہتھیار میسر نہ ہوگا جن کی عدم موجودگی میں 2014جیسا دھرنا ممکن نہیں ہوسکتا۔ ویسے بھی یہ بات طے ہے کہ عمران خان کی جیل سے رہائی قانونی اور آئینی طریقوں سے ہی ممکن ہے۔
دوسری جانب پی ٹی آئی کی روپوش قیادت کاپرتشدد احتجاج پر زور ہے۔یہ لوگ اسلام آباد کی طرف احتجاجی مارچ اور ڈی چوک پر دھرنے کی تاریخ کا فوری اعلان چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ احتجاج کی حتمی کال دینے کے معاملے پر پارٹی میں دو آراء موجود ہیں۔ خیال یہ کیا جارہا ہے کہ عمران خان جب احتجاج کی تاریخ دیں گے تو ہر کوئی تیاری کی پرواہ کیے بغیر اس پر عمل کرے گا۔
پی ٹی آئی کے رہنما شیر افضل مروت کا کہنا ہے کہ دو، تین لاکھ پاکستانی کسی بھی علاقے سے نکل آئیں تو کافی ہیں اوردوسرے علاقوں کی دیکھا دیکھی، پنجاب سے بھی لوگ نکلیں گے۔ وہ اس بات کو بھی تسلیم کرتے ہیں اگر حتمی احتجاج میں ہم ناکام ہوئے تو چھ ماہ تک دوبارہ مومنٹم نہیں بن سکے گا۔
حکومت کے وتیرے تو پہلے ہی نظر آنا شروع ہو گئے ہیں عدالتی فیصلوں کے باوجود بانی پی ٹی آئی سے ملاقات نہیں ہونے دی جا رہی ہے۔ جیل میں دفعہ 144 کا جواز بنا کر جو ڈرامہ رچایا گیا، کیا اس کے بعد پارٹی کا عام ورکر اور ووٹر سپورٹر ایسی گہری سموگ میں اپنی جان عذاب میں ڈالنے کوترجیح دے گا؟ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اگر 24نومبر کو پنجاب حکومت نے موٹروے اور جی ٹی روڈ کو بند کردیا اور نیم سمارٹ لاک ڈاؤن نافذ کردیا تو پی ٹی آئی کے ورکر اپنے دروازوں پر ہی نعرے لگا کر اپنے اندر کا غصہ نکالنے کی کوشش کریں گے۔ شیر افضل مروت درست کہتے ہیں کہ اگر وہ ڈر جاتے ہیں تو حکومت کامیاب، اور اگر نہ ڈریں اور بڑی تعداد میں نکل آئے تو حکومت ڈر جائے گی۔ اب پی ٹی آئی کے ورکرز اور عوام کے ذہن میں بٹھانا ہے کہ یہ احتجاج حتمی ہے۔ لوگوں کے ذہن میں پہلے سے موجود ہے کہ اگر نکلنا ہے تو پھر گرفتاری بھی ہے آنسوگیس کی شیلنگ بھی ہوگی۔ ایسے میں پنجاب بھر سے دو تین لاکھ افراد کس علاقے سے نکلیں گے۔
دوسری جانب جناب عرفان صدیقی نے خوب پھبتی کسی ہے کہ عدم اعتماد کے ذریعے حکومت سے نکلنے کے بعد بانی پی ٹی آئی کی یہ انقلاب لانے کی 13ویں فائنل کال ہے اوراس فائنل کال کا انجام بھی پچھلی 12 فائنل کالوں سے مختلف نہیں ہوگا۔
درج بالا صورت حال بتاتی ہے کہ سوشل میڈیا نے پی ٹی آئی حلقوں میں پراپیگنڈے کے ذریعے ایک مخصوص ذہن سازی تو کرلی ہے لیکن ان حلقوں کو میدان عمل میں نکل آنے پر اکسا نہیں سکا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں ٹیکنالوجی فیل ہو جاتی ہے اور خدا کا بنایا ہوا انسان کامیاب نظر آتا ہے کہ لوگ تب تک گھروں سے نہیں نکلتے جب تک انہیں کوئی نکالنے والا مرد میدان سامنے نہ ہو۔ لوگ لیڈر کو مانتے ہیں، سوشل میڈیا پر ذہنی بونے تو تیار ہو سکتے ہیں، جیالے اور متوالے تیار نہیں ہو سکتے جو کوڑے کھاتے ہوں اور گولیوں لاٹھیوں کا مردانہ وار سامنا کرتے ہوں۔ سوشل میڈیا شعور تو دیتا ہے عبدالشکور نہیں دیتا جو جان ہتھیلی پر رکھ کر میدان عمل میں کود پڑے۔ اس لئے عمران خان کو جیل سے نکالنے کے لئے بھی پی ٹی آئی کو عمران خان کی ضرورت ہے، جو دستیاب نہیں ہیں۔