جی ٹونٹی: قرض اور الیکشن مرض

 جی ٹونٹی: قرض اور الیکشن مرض
 جی ٹونٹی: قرض اور الیکشن مرض

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 پاکستان کے پڑوس میں جی ٹونٹی کانفرنس ہوئی۔اس کے بطن سے چین کے سی پیک کی مخالفت زہریلے ناگ کی مانند نکلی۔بھارت سی پیک کی شدید مخالفت کرتا آیاہے۔ امریکہ کو بھی اس کے خلاف بیان بازی پر آمادہ کیا۔جی ٹونٹی اجلاس میں ایک اور ”سی پیک“ بنانے کافیصلہ کیا گیا جو ایشیا یورپ اور افریقی براعظموں کو شاہراہوں کے ذریعے مربوط کرے گا، چین کے سی پیک کے مقابلے میں امریکہ انڈین سی پیک۔  اس  سربراہی کانفرنس میں چینی اور روسی صدور شریک نہ ہوئے۔بائیڈن کو دُلہے کا سہرا سجانے کا موقع مل گیا۔ سعودی ولی عہد کانفرنس کے خاتمے کے بعد بھی بھارت میں رہے۔ مودی، محمد بن سلمان ملاقات میں ایک سو ارب ڈالر کے 50معاہدے طے ہوئے۔ دونوں لیڈروں نے ایک دوسرے کے لئے والہانہ پن کا اظہار کیا۔ بھارت دنیا کے لئے ڈیڑھ ارب لوگوں کی مارکیٹ ہے۔ اس کی اکانومی اب دنیا میں چوتھے نمبر پر آ گئی ہے۔ برطانیہ چوتھے سے پانچویں نمبر پر چلا گیا۔ بھارتی زرمبادلہ کے ذخائر 600 ارب ڈالر، ہمارے دو سال میں 17سے تین ارب پر آ گئے۔ اب دس 12ارب ڈالر تک پہنچے ہیں۔ بھارت  بڑی مارکیٹ، پیچھے والا پَلّو،ہم سامنے کا دامن اور نیچے والا ہاتھ ہیں۔  ہمارے برادر مسلم ممالک منظر نامے کو اخوت کے جذبے کی رو میں بہہ کر نہیں حقیقت کی نظر سے اپنے مفادات کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ محمد بن سلمان جاتے اور آتے ہوئے ہماری فضاؤں سے گزرے۔ ہم دیدہ و دل فراش راہ کئے رہے۔امارات کے صدر محمد بن زید ہمیں ہماری اہمیت جنوری میں باور کرا گئے تھے جب وہ رحیم یار خان میں موجود تھے۔ اسلام آباد آنے کاعندیہ دیا۔“امپورٹڈ حکومت“ نے اسلام آباد کو اس قدر سجایا اور سیکورٹی کے انتظامات کئے، جس کی نقل مودی سرکار نے جی ٹونٹی کانفرنس کے موقع پر دہلی کو سنواراور حصار میں لے کر کی۔ اسلام آباد میں چھٹی کا اعلان کیا گیا، مگر امارات کے صدر کو اسلام آباد میں ”اکھیاں اڈیکتی“ ہی رہ گئیں۔


جی-20 میں امریکہ، روس، چین، انڈیا، ارجنٹینا، آسٹریلیا، برازیل، کینیڈا، فرانس، جرمنی، اندونیشیا، اٹلی، جاپان، جنوبی کوریا، میکسیکو، سعودی عرب، جنوبی افریقہ، ترکی، برطانیہ اور یورپی یونین شامل ہیں مودی کی خصوصی دعوت پر کانفرنس میں بنگلہ دیش، مصر، نائیجیریا، متحدہ عرب امارات، عمان، سنگاپور، نیدر لینڈز، سپین اور ماریشیئس نے مہمان اور مبصر کے طور پر اس شرکت کی۔میاں نواز شریف کی حکمرانی کا تسلسل رہتا تو پاکستان یقینی طور پر مبصر تو ضرور ہوتا۔ پاکستان بھارت تعلقات اس نہج پر بھی جا سکتے تھے کہ مودی اپنی باری میں محمد نواز شریف کے پاکستان کو دے دیتے۔


 میاں نوا ز شریف کو اقتدار سے الگ کرنے کی ایک وجہ ان کا بھارت کی طرف جھکاؤ بھی تھا۔یہ جنرل راحیل شریف کو پسند نہ آیا تو ان کی لٹیا ڈبونے کی کوششوں کا آغاز کر دیا گیا جو جنرل باجوہ کے دور میں انجام پذیر ہوا۔ بھارت کے بارے میں جنرل باجوہ کی سوچ بھی جب وہی ہو گئی،جو میاں صاحب کی تھی تو انہوں نے”سائڈ بدل لی“۔ پھراوپر والے نیچے اور نیچے والے اوپر ہی نہیں،بلکہ اندر والے باہر اور باہر والے اندر ہو گئے۔  آج الیکشن کی تاریخ کا اعلان قوم کا سب سے بڑا مسئلہ بن گیا۔ نوے روز میں الیکشن کی کل مخالفت کرنے والے آج آئین کھول کر بلندآہنگ ہیں۔ نوے روز کو ڈیڑھ دو سو روز تک لے جانے والے بھی آئین اور ”روایت“ کا سہارا لے رہے ہیں۔ کچھ کو مسائل کا حل دو تین سال کے عبوری سیٹ اپ کی تشکیل میں نظر آتا ہے۔ اعلان کس نے کرنا ہے۔ کوئی نئے قانون کا حوالہ اور کسی  کو پرانے قانون میں قوی دلیل نظر آ تی ہے۔ کوئی نئے قانون کو عدالتوں سمیت قانون ہی نہیں مانتا۔عدالت کا بر سرسبیل تذکرہ آ گیا۔ عدالتوں کی کون مانتا ہے؟  صدر عارف علوی اپنی مدت پوری کر چکے۔انتخابی کالج مکمل ہونے اور نئے صدر کے انتخاب تک وہ صدر ہیں۔ سرِ دست تو صدر ہیں،بھلے عبوری ہی سہی۔ الیکشن کی تاریخ کا اعلان کرنے کے حوالے سے ان پر کہیں سے دباؤ ڈالا جا رہا تھا اور کہیں سے خبردار کیا جا رہا ہے۔ نگران حکومت وزیراعظم اور وزیر قانون سمیت ان کو اپنے اعلان کے اختیار سے تہی  قرار دیتے ہیں۔ الیکشن کمیشن بھی یہی سمجھتا ہے۔ مسلم لیگ(ن) صدر علوی کو پی ٹی آئی کا ورکر جبکہ پی ٹی آئی نے اعلان نہ کرنے پر آئین شکنی کا مرتکب قرار دیا تھا۔صدرنے عواقب و نتائج کے جائز لیتے ہوئے ”معتدل“ سا بیان جاری کر دیا۔ الیکشن 8نومبر کو ہونے چاہئیں۔یہ حکم نامہ نہیں تجویز ہے۔ اگر حکم جاری کرتے تو کیا گارنٹی تھی کہ اس حکم نامے کی آتما یکم اپریل کو الیکشن کے انعقاد کے حکم نامے کی طرح نہ  رُلتی۔اب تجویز کی بھی  دھول اُڑائی جا رہی ہے۔

لاہور ہائیکورٹ کے11ججوں کو 36کروڑ کا ہاؤس فنانسنگ سکیم کے تحت بلا سود قرض دیا جارہا ہے۔ اس پر اعتراض، احتجاج اوررٹیں ہو رہی ہیں۔ علمائے کرام سودی کاروبار کو حرام قرار دیتے ہیں۔ یہ قرضہ بلا سود ہے۔ چلیں یہاں تو اللہ کے ساتھ جنگ سے پَرے رہے ہیں۔آئی ایم ایف سے ملنے والے قرض سے ترقیاتی کاموں کے لئے کل تک کے ارکان قومی اسمبلی کو ایک ایک ارب روپے دیئے گئے، ناقابل واپسی۔ ججوں نے یہ پیسے قسطوں میں لوٹانے ہیں۔ دس گیارہ یا بارہ سال میں ڈھائی لاکھ  ماہانہ قسط ہے۔ ججوں کی بڑی بڑی تنخواہیں اور پنشن ہے۔ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی قسطیں ادا کرتے رہیں گے۔ ان کی دیانت پر شک نہیں کیا جا سکتا، بلکہ یہ اور دیگر بھی کئی جج دیانتداری کے اعلیٰ معیار پر پورا اترتے ہیں۔ ججوں کی دس لاکھ سے زاید تنخواہ اور دیگر مراعات اس لئے ہیں کہ وہ دو نمبری پر مائل نہ ہوں۔ کسی بھی جج کے لئے ارب پتی بن جانا  بڑا آسان ہے۔ ایسی مثالیں موجود ہیں۔ یہ11جج صاحبان ایک ایک کیس سے کئی گھروں کی تعمیر جتنی رقم بٹور سکتے ہیں۔ انہوں نے جائز راستہ چنا۔ قرض لے رہے ہیں۔ ایسا باقی اداروں کے ملازموں کے لئے بھی ہو جائے تو بہتر ہے۔اگر نہیں تو ان کو بھی محروم رکھنا ان کو کوئی اور راستہ دکھانے والی بات ہے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ ایسے راستے پر پختہ کار اور پکے کردار کے مالک نہیں چلتے۔
٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -