کھانے کا نیا بیٹنگ آرڈر
عمران خان کی سیاست پر آپ جو چاہیں کہیں، اُن کی اولین تصنیف ’آل راؤنڈ ویو‘ بہرطور میری پسندیدہ کتابوں میں شامل ہے۔ سبب ہے مصنف کا مشورہ کہ جب بھی بیٹنگ کرنے نکلیں تو یہ مت سوچیں کہ آپ کو سنچری یا ڈبل سنچری کا ہدف ضرور پورا کرنا ہے۔ اس کے برعکس، سوچ بس یہ ہونی چاہئے کہ توجہ سے بیٹنگ کی جائے، رنز اپنے آپ بنتے چلے جائیں گے۔ 1988 ء میں اِس کتاب کے اجراء کی رپورٹ مصنف کے انٹرویو کے ہمراہ لندن سے پی ٹی وی کو روانہ کی تو لحظے بھر کو لگا کہ صحافت کا پیشہ بھی کرکٹر کے کام کے مشابہہ ہے۔ اکثر ہم عصر صحافیوں کی عمر افکار و حقائق کو کاغذ یا اسکرین پر اتارتے ہوئے گزری۔ پھر بھی مسلسل سوچنے اور لکھتے رہنے کے عمل میں کبھی کبھار ایسے چوکے چھکے بھی لگ گئے جن پر بعد ازاں حیرت ہوئی کہ یا الٰہی، یہ شاٹ مَیں نے ہی کھیلا تھا۔
منجمد سمندر میں ’آئیس بریکنگ شِپ‘ کے لیے برف شِکن جہاز، ’ٹیررِسٹ‘ کی جگہ دہشت پسند اور پھر دہشت گرد کی اصطلاح، ’پولیٹکل ایمیچیورش نیس‘ کے بجائے سیاسی اناڑی پن، یہ اور کئی دیگر مقبول اصطلاحات بی بی سی کے ساتھیوں نے مشترکہ طور پر وضع کیں۔البتہ ’غذائی دہشت گردی‘ کی منفرد ترکیب کے جملہ حقوق مَیں نے موقع پر اپنے نام کرا لیے تھے۔ اصطلاح ’پیٹنٹ‘ کرا نے کا خیال یوں آیا کہ اِس کا نزول رمضان کے متبرک مہینے میں ہوا، دوسرے اِس کمانڈو ایکشن میں موجودہ ڈان نیوز کے ذیشان صدیق کے ساتھ میری شمولیت صحافتی ذرائع سے نہیں، اپنی جیب سے روزہ کشائی کے ارادے سے تھی۔ نیت میں فتور تھا تو اتنا کہ ہم نے ایم ایم عا لم روڈ کے فُوڈ آؤٹ لیٹ کا چناؤ بارعائت افطاری کا اشتہار پڑھ کر کیا۔ ہمارا روزہ کیسے کھُلا اور کِس حد تک کھُلا؟ اِس بارے میں روایات میں اختلاف ہے۔ ہاں، اِس پر کوئی اختلاف نہیں کہ مجھے ’غذائی دہشت گردی‘ کی اچھوتی اور برمحل ترکیب روزہ داروں کی آنیاں جانیاں دیکھ کر ہی سُوجھی تھی۔
میری ترکیب ہر اُس شخص نے پسند کی جو سرکاری دعوتوں، پریس کانفرنسوں اور بیاہ شادی کی تقریبات سے یہ کہہ کر لوٹنے کا تجربہ رکھتا تھا کہ ’کھایا پیا کچھ نہیں، گلاس توڑا بارہ آنے‘۔ ڈیجیٹل دَور کا ٹِک ٹاکر اور یو ٹیوبر، جس کا خود اپنی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، ’زورِ کلام‘ کی بنا پر جتنا مقبول ہے، ’سرعتِ طعام‘ میں بھی اُتنا ہی معروف ہے۔لہٰذا پرانے وقتوں کے دیومالائی اخبار نویس نثار عثمانی کی یہ نصیحت اب رپورٹر کی نالائقی شمار ہو گی کہ کسی سرکاری، سیاسی یا سماجی تقریب میں جاؤ تو خالی چائے کی پیالی کے سوا کسی چیز کو ہاتھ نہ لگانا، وگرنہ آپ کی پوزیشن کمپرومائیز ہو جائے گی۔ کچھ دانشوروں کے نزدیک ذاتی اخلاقیات سے ہٹ کر یہ غذائی دہشت گردی شاید پنجاب میں خوراک کی اُس محرومی سے جُُڑی ہوئی ہو جو ساٹھ پینسٹھ سال پہلے بچوں کا جھولا جھلانے والی بڑی بوڑھیوں کی لوری تھی:
اللہ بھائی قادرا
روپئیے مانی باجرا
دھیلی مانی کنگنی
اساں غریباں منگنی
اتے منگدیاں ای رہناں
ہو سکتا ہے کہ ہمارے غذائی رویوں کو قبل از نہری نظام خوراک کی قلت سے منسوب کرنے کی توہین آمیز تھیوری کو وطن عزیز کے بڑے صوبے کے خلاف سازش سمجھ لیا جائے۔ معترضین کہہ سکتے ہیں کہ ہم اہل پنجاب ’کھُلے ڈُلے‘ لوگ ہیں، چنانچہ خوشی غمی کے ہر موقع پر شوق سے کھلاتے ہیں اور خود بھی ڈٹ کر کھاتے ہیں۔ ممکن ہے غذائی قلت والی تھیوری بالکل غلط ہو۔ پھر بھی آپ نے شمالی علاقوں اور آزاد جموں و کشمیر سمیت جگہ جگہ لوگوں کو مل جل کر کھاتے دیکھا۔ سچ سچ بتائیں وقتِ طعام سماج دشمنی بلکہ اناج دشمنی کا جو جذبہ لاہور سے سو، سوا سو کلومیٹر نصف قطر کے دائرے میں نظر آیا، کہِیں اور دیکھنے کو ملا؟ میرے صوبائی دارالحکومت اور نواحی شہروں میں تو روٹی کھُلتے ہی گویا غیب سے یہ آواز آنے لگتی ہے کہ کھانے والے، جی بھر کے کھا لے شاید یہ تیری زندگی کا آخری کھانا ہو۔
اب اگر محرومیوں کی تاریخ والی بات کو سچ مان لیں تو سوال اُٹھے گا کہ بسیار خوری کے انتقامی عمل کا آغاز پاکستان بنتے ہی کیوں نہ ہو ا؟ ایک جواب تو یہ ہے کہ اس وقت ہم فوری طور پہ ایسے مسائل میں گھِرے ہوئے تھے کہ غذا کی انتقامی جبلت کو ظاہر کرنے کے لیے وسائل بہم نہ ہو سکے۔ دوسرے، اُس زمانے میں فرشی ضیافت یا شادی بیاہ کے موقع پر ہر شہر یا قصبے میں مدینہ ٹینٹ سروس کی ہلکی پھلکی کرسیوں پر بیٹھ کر کھانا کھا نے کا چلن عام تھا۔ بیٹھ کر کھانا کھانے سے طبیعت میں جارحیت کا جذبہ کم پیدا ہوتا ہے۔ پھر ’زردہ، سلونا اور شوربہ‘ ایسا سیدھا سادہ مینو تھا کہ طرح طرح کے آئیٹم اٹھانے کے لیے کسی جامع قسم کی ’چالاکی‘ کی ضرورت نہ پڑتی، اور ہر چھوٹی بڑی بارات یکساں اطمینان سے بھگت جاتی۔
آزاد پاکستان کی تاریخ میں کھانے پینے کی دہشت گردی 1970 ء کے عشرے میں اُسی ترتیب سے شروع ہوئی جس طرح راولپنڈی سے لاہور جانے والی ریل کار چناب پار کر کے اپنی ’لیٹ‘ نکالتی ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے جب ہمارے محنت کشوں نے افرادی قوت بر آمد کرنے کی حکومتی پالیسی کی بدولت مشر ق وسطی کے ممالک سے نقد رقوم کے علاوہ کیسٹ ریکارڈر، رنگین ٹیلی ویژن اور ’پانی والی ٹینکیاں‘ گھروں کو بھیجنا شروع کیں۔ اب ہمارے تمدن میں ایسا تنوع تو تھا نہیں کہ گھر والے تفنن طبع کی خاطر دنیا کی سیرکو نکل جاتے، کتابیں یا نوادرات جمع کرتے یا تھیٹر، سرکس اور اوپیرا سے دل بہلاتے۔ یہاں آپشن یہی تھی کہ پیسہ موقع بے موقع کھانے پکا پکا کر عزیز و اقارب کی مت مارنے پہ خرچ کر دیں اور جو بچ جائے وہ امراضِ قلب کے ڈاکٹروں کا نصیب۔
ذاتی حوالے سے بات کروں تو مار دھاڑ کی اس نئی فضا میں میرا المیہ نا رسائی کی کبھی نہ ختم ہونے والی کیفیت تھی۔ اکثر یہ ہوا کہ کھانے کا وقت پلیٹ ڈھونڈنے ہی میں گزر گیا یا چھری کانٹا ہاتھ میں ہے اور اس کے بعد، بقول ضمیر جعفری:
نہ آئی پر نہ آئی میری باری
پلاؤ تک بہت آیا گیا ہوں
ہر ’کھڑی‘ ضیافت میں پے در پے زیرو پہ آؤٹ ہو جانے کے خفت آمیز تجربے کے پیشِ نظر اب تحریک انصاف کے انقلابی پروگرام کی طرح کچھ سوچ رہاہوں۔یہی کہ غذا کا ٹونٹی ٹونٹی جیتنے کے لیے اپنے کھانے کا بیٹنگ آرڈر بدل لیا جائے۔ شروع کیا جائے میٹھے سے جس پر ابتدا میں بڑے سے بڑا کھاؤ بھی نہیں جھپٹتا۔ پھر جب اور لوگ چاول کھا کر فارغ ہو رہے ہوں تو آپ پلاؤ کی طرف رجوع کرنے کی سو چیں۔اِس لیے کہ آئی ایم ایف کی قسط کی طرح چاول شوربے کی سپلائی کو بھی وقفے وقفے سے بحال ہونا ہی ہوتا ہے۔