ہنزہ میں جرائم کی شرح نہ ہونے کے برا بر ہے، کسی غیر ہنزائی کو یہاں زمین یا جائیداد خریدنے کی اجازت نہیں دی جاتی
مصنف : عمران الحق چوہان
قسط:160
محل کے دائیں جانب ایک کمرے میں میز کے پیچھے میر صا حب بیٹھے تھے۔ نیلی آنکھیں، سرخ و سفید رنگ پر سرخ ٹی شرٹ اور نیلی جینز کی پنٹ۔ عمر کو ئی ساٹھ کے لگ بھگ۔ ہاتھ میں ایک سگار۔ کمرے کی فضا ءمیں اعلیٰ تمباکو کی خوشگوار بوجھل بو تھی۔ انہوں نے اٹھ کر ہمارا استقبال کیا اور بہت تپاک سے ملے۔ اپنی جوانی میں وہ بہت وجیہ اورہارٹ تھروب رہے ہوں گے۔ کمرہ اور اور اس کے متعلقات تاریخی پس منظر کا ثبوت تھے۔ الماریوں میں کتب ترتیب سے رکھی تھیں جن میں زیادہ تر انگریزی کی تھیں۔ ان کے والد میر محمد جمال خان ہنزہ کے آخری حکمران تھے۔ کبھی وہ ہنزہ کے تھم کہلاتے تھے (پنجابی میں تھم کا معنیٰ”ستون“ ہے جو بہت حد تک ان کے مرتبے کا حقیقی مرادف تھا)۔ بدلتے وقت اور سیاسی عروج و زوال نے سات آٹھ سو سال پر محیط قدیم حکمرانی کا وہ طنطنہ اور دبدبہ تو باقی نہیں چھو ڑا تھا لیکن پرانے کرّوفر کے آثار ابھی باقی تھے۔
ان سے بہت دیر تک باتیں ہوئیں۔ وقت بدل چکا تھا کہ اس کا کام ہی بدلنا ہے۔ ہنزہ یا کنجوت کی حیثیت صدیوںسے ایک نیم مختار ریاست کی تھی اور خود کو سکندر ِ اعظم کی اولاد کہنے والے ”میر“اور ”تھم“ کے نام سے اس پر حکم رانی کرتے تھے۔ 1892 سے 1947 تک اس ریاست کا برطانوی ہند سے ذیلی اتحاد (subsidiary alliance) رہا۔قیام ِ پاکستان کے بعد ہنزہ نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کرنے میں 3 ماہ لگائے ۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے بانیوں میں سے ایک اور پہلے مستقل صدر سرسلطان محمد شاہ آغا خان سوَم نے تقسیم ِ ہندکے موقع پر تاج ِ برطانیہ سے ایک علیحدہ خطّہ آزاد ریاست کی درخواست کی تھی ۔ نومبر 1947 سے لے کر 1974 تک پاکستان میں ہنزہ کی ریاستی حیثیت کو تسلیم کیا جاتا رہا۔ 25 ستمبر1974 میں ذوالفقار علی بھٹو نے ریاست ہنزہ کی آزاد حیثیت کو ختم کیا تو صدیوں سے چلا آتا ”میر“ کا منصب بھی علامتی رہ گیا۔ لوگ طاقت کو مانتے ہیں علامت کو نہیں۔ جمہوریت نے عوام کو دربار سے آزاد اور اپنے فیصلوں میں خود مختار کر دیا تھا اس لیے میر غضنفر الیکشن میں اپنی نشست ہار گئے لیکن میر صا حب کا کہنا تھا کہ اب بھی مقامی لوگ اپنے جھگڑوں، قضیوں کے فیصلے کےلئے انہی سے رجوع کرتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ ہنزہ کے میر مقامی جھگڑوں میں سزاکے طور پر ظالم کو حکم دیتے تھے کہ وہ مظلوم کو بیلوں کی صورت میں ہر جانہ ادا کرے۔ بیلوں کی تعداد کا تعیّن میر صاحب ظلم اور جرم کی نوعیت کو دیکھ کر کرتے تھے۔ کسی کو عمر قید کی سزا ہوتی تو اسے شمشال ”ڈی پورٹ“ کر دیا جاتا۔جہاں سے واپسی تقریبا ً نا ممکن ہو تی تھی۔ پتا نہیں اب میر صا حب رجوع کرنے والے لوگوںکے جھگڑوں کے کیا فیصلے کرتے ہوں گے ، قصور وار کوکیا سزا سناتے ہو ں گے اور اس سزا پر کیسے عمل در آمد کرواتے ہوں گے ؟
میں نے ہنزہ کے پر امن ما حول کی تعریف کی تو میر صا حب نے بتا یا کہ یہاں جرائم کی شرح نہ ہونے کے برا بر ہے۔ اپنے ما حول کو خارجی اثرات سے محفوظ رکھنے کا آسان طریقہ یہ وضع کیا گیا تھا کہ کسی غیر ہنزائی کو یہاں زمین یا جائیداد خریدنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ لیکن بیرونی اثرات صرف جائیداد کی فروخت ہی سے تو نہیں آ تے۔ آج کل جب انٹر نیٹ ہر آدمی کی جیب میں ہے تو اثرات بھی بلا اجازت آتے چلے جارہے ہیں۔ سادہ لوح بزرگ اس پر سیخ پا، پریشان اور حواس با ختہ ہیں لیکن وقت کسی کے روکے کب رکا ہے۔ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں۔ جس نے وقت کے بہاو¿ کے ساتھ تیرنا سیکھ لیا وہ کسی کنارے جا لگا۔ جو بہاؤ کے خلاف زور لگاتا رہا اس کے ہاتھ جھنجھلاہٹ، شرمندگی، تھکاوٹ اور شکست کے سوا کچھ نہیں آیا۔ (جاری ہے )
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔