سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے 

  سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے 
  سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

  

پبلک ٹرانسپورٹ پر لاہور سے اسلام آباد تک سفر تو کر لیا مگر بسوں میں درج جو ہدایات پڑھتے پڑھتے  بچپن کی مسافت کٹی تھی اُن کی کمی شدت سے محسوس ہوئی۔ یہی کہ سر اور بازو باہر مت نکالیں، شیشے احتیاط سے چلائیں،  فرنٹ سیٹ پر سونا منع ہے۔ جنرل ایوب  کے مارشل لا میں سیاسی گفتگو سے پرہیز کا حکم، پھر سقوطِ ڈھاکہ کے بعد یہ بے ثباتی کہ بس کا مالک مَیں نہیں، مالک خدا ہے، صدر ضیا کے عہد میں  ڈرائیور کے عین سامنے لکھا دیکھا کہ ”مسلمانو، نماز قائم کرو۔ حد رفتار چالیس میل فی گھنٹہ‘‘۔ ڈائیوو گولڈ پر بیٹھ کے پچھلی صدی کی وہ ڈرئیں ڈرئیں ڈرئیں لاری خاص طور پر یاد آئی جس میں ایک مرتبہ سیالکوٹ سے  ظفر وال جاتے ہوئے انسان اور بکری کو ایک گھاٹ پہ سفر کرتے دیکھا تھا۔ خیریت ہوئی کہ بس پہ سوار بکریاں  کوئی خلافِ تہذیب حرکت کیے بغیر مسلسل سبز چارہ کھاتی رہِیں۔

یہ بھی یاد آیا کہ ماضی کی نندہ بس سروس میں، جو آزادی کے وقت ڈسٹرلٹ ٹرانسپورٹ کمپنی کے نام سے مشرف بہ اسلام ہوئی،  انسان اور جانور کی باہمی انسیت کی طرح مسافروں کی یکجائی کے انداز بھی نرالے تھے۔ ”بھائی جی، ذرا میری جگہ کا خیال رکھیے۔“ ساتھ والے مسافر نے اتنا کہا اور تھکن دُور کرنے کے لیے رومال سِیٹ پہ چھوڑ کر چائے پینے اتر گئے۔ کسی سواری کی آواز آتی ”امروز لے کر ذرا نوائے وقت مجھے دے دیجیے‘‘۔ زیادہ بے تکلفی کی راہیں پشاور سے چھتیس گھنٹوں میں کراچی پہنچنے والی آدم بو ٹرینوں میں کھُلتیں جن کے ڈبوں میں لاہور سے  پانی کے گلاس اور ناشتہ دان سے نکلنے والا شراکت داری کا جذبہ ملتان پہنچتے پہنچتے اُس جیون سمبندھ میں بدلنے لگتا جس کا اشارہ سید ضمیر جعفری نے یہ کہہ کر دیا تھا: 

کسی نے یوں  گھریلو گفتگو پر زور ڈالا ہے 

 کہ جیسے اگلے اسٹیشن پہ رشتہ ہونے والا ہے 

 ’بڑے لمڈے کو مولا بخش جی کتنا پڑھاؤ گے؟

 اُسے بی اے پہ روکو گے کہ ایل ایل بی کراؤ گے؟‘

’وہ بی اے ہے مگر بی اے کی خُو آئی نہیں اُس کو

 ابھی ماں باپ کے کپڑوں سے بُو آئی نہیں اس کو‘

 پبلک ٹرانسپورٹ کے مقابلے میں ذاتی کار کو بہتر سمجھنا، تخت پوشی درزیوں کی جگہ برانڈڈ ملبوسات، لنچ ڈنر کے لیے پرانی انارکلی کی جگہ ایم ایم عالم روڈ پر ہفتہ بھر کی کمائی کا خون۔ اِس کے پیچھے انفرادیت اجاگر کرنے کا جذبہ ہے یا جسمانی عیش و آرام کی خواہش؟پیچھے نظر دوڑاؤں تو میرا لاہور سے راولپنڈی بلکہ بیس میل آگے تک ’نجی سیکٹر‘ کا پہلا آزاد سفر محض ایک من مانی کارروائی تھی۔ یہ کہ طالب علمی کا دَور گزر چکا، اب اپنے پاؤں پر کھڑے ہیں، ایک سے دوسرے شہر جانے کے لیے ریل کار یا گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس کی محتاجی کیوں ہو؟ ’نجی سیکٹر‘ سے مراد مانگے تانگے کی موٹرکار نہیں بلکہ یہ واقعہ ہے کہ آج سے چھیالیس سال پہلے  جی ٹی روڈ سے تین سو کلومیٹر کی یہ مسافت جون کے اِسی گرم خُو مہینے میں ایل ای ایس0330  نمبر کی موٹر سائیکل پر طے کی گئی تھی۔ 

 واضح رہے کہ تب تک فوج سے رعایتی قیمت پر خریدے گئے دوسری عالمی جنگ کی یادگار ٹرائمف یا بی ایس اے کے اڑھائی تین ہارس پاور والے بمبو کاٹ سڑکوں پر دوڑتے دکھائی دے جاتے تھے۔ اِس پر کبھی بیٹھنے کا اتفاق ہوتا تو جی سی یو کا منحنی سا لیکچرر موت کے کنویں والا ’سینڈو‘ دکھائی دینے لگتا اور پچھلی  سواری موٹر سائیکل سے اتر کر بھی پندرہ منٹ تک ہلتی رہتی۔ اِن بیگمات ِ اودھ کے مقابلے میں ہماری گڑیا جاپانی تو سو سی سی کی نازک اندام سوزوکی تھی۔ تعطیلات ِ گرما میں موٹر سائیکل ساتھ لے جانے کا  باعزت طریقہ یہ ہو سکتا تھا کہ اِسے ٹرین کی بریک یعنی مال بردار حصہ میں رکھوا دیتے۔ لیکن حفاظتی ضوابط کے تحت سفر سے پہلے پٹرول کا آخری قطرہ تک نکال لینا ضروری ہوتا ہے۔ آخری مرحلے میں راولپنڈی سے آگے ٹیکسلا جنکشن پہ اتر کر واہ والے راستے پر قریبی پٹرول پمپ سرائے کالا سے پہلے تھا ہی نہیں۔ 

 چنانچہ یہی سوچا کہ موٹر سائیکل کو کِک لگائی جائے۔ آغاز لاہور کی یونیورسٹی آف انجنئیرنگ اینڈ ٹکنالوجی کے ممتاز ہال سے کِیا اور رات بھر دوستوں سے گپ ہانکنے کے بعد  فائنل ایئر کے طالب علم اور ہم سفر شوکت  ضیا  کے مشورے سے صبح ساڑھے چار بجے نکل کھڑے ہوئے۔ شریکِ سفر بننے کے لیے شوکت کی یہ شرط بھی پوری کی کہ اُن کا بستر بند ہماری بائیک کے کیرئیر پہ تیسری سواری کے طور پر جلوہ افروز ہوگا۔ آج کی نو دولتیا کاروں والے شاید اسے بڑی کامیابی نہ سمجھیں مگر لاہور سے روانگی کے پونے دو گھنٹے کے اندر دونوں خوش و خرم نوجوان وزیر آباد میں حلوہ پوری اور لسی کا ناشتہ فرما رہے تھے۔ اگلی کہانی کوئی خاص دردناک تو نہیں، بس لالہ موسی سے ذرا آگے جا کر موٹر سائیکل کا انجن بند ہو گیا۔ تو پھر کیا کِیا؟ وہی جو درمیانی سوجھ بوجھ کے لوگ ایسے موقعوں پر کیا کرتے ہیں۔ 

   انجنئیرنگ کا طالب علم ہونے کے ناتے سے شوکت ضیا نے مجھ سے کئی گنا سائینس زیادہ پڑھ رکھی تھی، اس لیے سمجھ گئے کہ موبل آئل پمپ نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔ دیسی مسائل کا حل مقامی جڑی بوٹیاں نکالتی ہیں۔ ایک کاغذ سے کولڈ ڈرنک والا ’سٹرا‘بنا کر تھوڑا سا موبل آئل  پٹرول کی ٹنکی میں ڈالا اور موٹر سائیکل کو یو ں ہلایا جیسے ہاسٹل کے لڑکے اپنی شاموں کو خنک بنانے کے لیے دودھ میں سیون اپ ملا لیتے تھے۔ کھاریاں کینٹ پہنچ کر ایک انقلابی اسٹاپ اوور کا فیصلہ کیا اور اپنے انٹرمیڈیٹ کے استاد اور بعد ازاں ایف جی کالج کوئٹہ کے پرنسپل، پروفیسر اجمل صدیقی کی میزبانی سے فیض یاب ہو ئے۔ دوپہر کو آرام کے سبب ٹائم ٹیبل تو آگے پیچھے ہوا مگر عزم میں کوئی کمی نہ آئی۔ پہلی بار احساس ہوا کہ دینہ سے سوہاوہ تک کی مسافت ذرا پُرپیچ ہے، باقی تو ڈبل سڑک کے بغیر بھی راستہ سیدھا تھا۔  

 اے پی پی کے راولپنڈی مال والے دفتر میں زمان ملک سے چائے پی کر جب شوکت ضیا کو انوار چوک واہ میں اتارا تو لاہور سے ہماری روانگی کو پورے سترہ گھنٹے ہو چکے تھے۔ ماں کے سوال پر کہہ دیا کہ موٹر سائیکل ٹرین پہ لاد کر لایا ہوں، حالانکہ گرد میں اٹی میری پینٹ شرٹ اِس دعوے کی نفی کر رہی تھیں۔ اب آپ پوچھیں گے کہ تم نے اپنے سفر میں کیا کھویا، کیا پایا۔ کھویا تو پچھلی جیب میں سنبھالا ہوا ایک چھوٹا  سا تمباکو پینے کا پائپ جو ایک دوست کا بھائی کینیڈا سے لے کر آیا تھا۔ سیکھا  تو زندگی بھر کے  لیے یہ سبق سیکھا کہ سواری اپنی ہو یا پبلک ٹرانسپورٹ، سفر کی رونق گاڑی کی بدولت نہیں، ہمسفروں کے دم سے ہوتی ہے۔ اگر آپ کو شوکت ضیا کا ساتھ میسر آ جائے اور پڑاؤ ہو پروفیسر اجمل صدیقی اور زمان ملک کے ہاں تو جون کی گرمی اور سو سی سی سوزوکی کچھ نہیں کہتی۔بقول حیدر علی آتش:

سفر ہے شرط، مسافر نواز بہتیرے

 ہزار ہا شجر ِ سایہ دار راہ میں ہے 

مزید :

رائے -کالم -