فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر538
پنا اور ایمی منیوالا دونوں نے فلمی دنیا سے وابستگی اختیار کی اور رقص کے حوالے سے بہت نام اور اونچا مقام حاصل کیا۔ ان دونوں نے اپنے عہد کے معروف ہدایت کاروں سے شادی کی اور شادی کے بعد عہد عروج ہی میں فلمی دنیا سے علیحدگی اختیار کرلی۔ ان دونوں کی ازدواجی زندگی مثالی کہی جا سکتی ہے۔ ہمارے نہ صرف پنا اور ایمی سے بلکہ حسن طارق اور ایس سلیمان سے بھی قریبی تعلقات رہ چکے ہیں۔ شادی سے پہلے بھی اور شادی کے بعد بھی ان دونوں گھروں میں ہمارا آنا جانا اور گھریلو معاملات میں مشورے دینے کا سلسلہ بھی جاری رہا ان دونوں نے بڑے خلوص اور ایثار کا مظاہرہ کیا اور گھریلو زندگی میں اس طرح خود کو ضم کر دیا کہ ہم غیر فلمی بیگمات کو ان کی مثالیں دیا کرتے تھے۔ دونوں ہی کے ازدواجی تعلقات ایک زمانے میں تلخیوں اور مشکلات سے دوچار ہوئے یہاں تک کہ طلاق کی نوبت آگئی۔
ایمی منیوالا نے طلاق کے بعد بھی فلمی زندگی سے رشتہ نہیں جوڑا۔ وہ فلم والوں کے لیے ایک گمشدہ ہستی بن کر رہ گئی تھیں یہاں تک کہ ایک بار پھر وہ حسن طارق کی بیگم بن گئیں۔
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر537پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
پنا نے طلاق کے بعد بہت سے کام کیے۔ بیوٹی پارلر کھولا۔ ڈیزائننگ کی۔ رقص کی اکیڈمی قائم کرنے کے منصوبے بنائے لیکن فلموں سے وہ دور ہی رہیں۔ ایمی اور طارق صاحب تو دوبارہ یکجا ہوگئے تھے۔ اس بار ان کی زندگی انتہائی پرسکون اور خوش و خرم تھی۔ طارق صاحب دل کے عارضے میں مبتلا تھے۔ انہوں نے کچھ عرصہ بعد پھر ہدایت کاری شروع کر دی تھی لیکن سجاد گل کی فلم ’’سنگ دل‘‘ کے سوا کسی اور فلم ساز نے انہیں زحمت دینے کی ضرورت نہ سمجھی۔ وہ ایک ناکام ہدایت کار قرار دیئے جاتے تھے۔ مالی حالات بھی دگرگوں تھے۔ گلبرگ میں کرائے کے ایک چھوٹے سے مکان میں رہتے تھے مگر غالباً پہلی بار حقیقی گھریلو زندگی اور مسرتوں سے آگاہ ہوئے تھے۔ اپنی بیٹی کوکی اور بیوی ایمی کے ساتھ وہ انتہائی مطمئن اور خوش تھے ۔ سنگدل ریلیز ہوئی اور سپرہٹ ہوگئی۔ فلم سازوں کی دوبارہ قطاریں لگ گئیں۔ طارق صاحب کی صحت بھی بہت بہتر ہوگئی تھی۔ وہ کئی فلم سازوں کے لیے فلم بنانے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔ ہمارے ساتھ ایک ذاتی فلم بنانے کا بھی ارادہ تھا لیکن اچانک دل کا دورہ پڑا اور سب کچھ چھوڑ کر رخصت ہوگئے ایمی اور ان کی بیٹی ایک بار پھر خوشیوں سے محروم ہوگئیں۔ بہرحال یہ ایک علیحدہ کہانی ہے جو پہلے سنائی جا چکی ہے۔
زریں سلیمان کو شادی کے بعد ہم نے ہمیشہ بھابی کہا۔ دونوں میں علیحدگی کے بعد بھی عادتاً کئی بار انہیں بھابی کہہ دیا۔ جیسے میڈم نور جہاں اور اعجاز درانی کی علیحدگی کے بعد ہم بعض اوقات میڈم کو بھابھی کہہ دیا کرتے تھے اور وہ مسکرا کر خاموش رہتی تھیں لیکن شادی کے بعد بھی زرین نے اپنا یہ پرانا نام ترک نہیں کیا۔
زریں(پنا) کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے ایک ایرانی اور ایک اطالوی فلم میں بھی رقص کیا ہے۔ اطالوی فلم کے مصنف اشفاق احمد تھے۔ اس میں زریں نے دیوداسی کا کردار ادا کیا تھا اور اس حوالے سے کلاسیکی رقص پیش کیا تھا۔ اس رقص میں ان کی ہمراہی کے لیے دو ہزار لڑکیاں بھی تھیں۔
زریں نے سلیمان کے ساتھ پہلی بار فلم باجی میں کام کیا تھا جسے پاکستان میں ایک یادگار کلاسیکی فلم کی حیثیت حاصل ہے۔ اس فلم میں زریں کے ساتھ ایمی منیوالانے بھی رقص کیا تھا۔ استاد اللہ رکھا نے اس فلم میں ان دونوں سے کتھک ڈانس کرایا تھا اور اس کو فلمانے سے پہلے طویل عرصہ ریہرسل کرائی تھی۔ زریں کا کہنا ہے کہ ریہرسلز کے دوران میں ان کے اور ایمی منیوالا کے پیروں سے خون نکلنے لگتا تھامگر فن کی لگن میں ان دونوں نے اس کی پروا نہیں کی۔ ’’باجی‘‘ کو زریں بھی ایک یادگار فلم قرار دیتی ہیں۔
جب وہ پنا تھیں اور ابھی فلموں میں نہیں آئی تھیں تو انہیں فلموں میں کام کرنے کا بہت شوق بلکہ ارمان تھا۔ فلم اس زمانے میں ایک باعزت اور باتوقیر میڈیم سمجھی جاتی تھی اور فلموں سے وابستگی کسی اعزاز سے کم نہ تھی۔
سب سے پہلے فلم کے لیے فلم ساز و ہدایت کار ہمایوں مرزا نے کراچی میں پنا کا ٹیسٹ لیا اور انہیں فیل کر دیا ان کے خیال میں وہ فلموں میں کام کرنے کے لائق نہیں تھیں۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ اس کے تین سال بعد ۱۹۵۹ء میں ہمایوں مرزا ہی نے انہیں اپنی فلم کے لیے سائن کرلیا۔ اس فلم میں رقص پیش کرنے کا انہیں پانچ سو روپے معاوضہ دیا گیا تھا مگر پنا کو پیسوں کی پروانہ تھی کیونکہ رقاصہ کی حیثیت سے وہ بہت نامور تھیں اور خوب پیسے کما رہی تھیں اس لیے فلم میں کام کرنے کے لیے وہ کم معاوضہ بھی بقول کرنے پر آمادہ تھیں۔
ایس سلیمان کے ساتھ زریں کی شادی محبت کی شادی ہے۔ پہلے وہ سلیمان کی ہدایت کاری سے متاثر ہوئیں جو رقص کو فلمانے میں ماہر ہیں پھر وہ ان کی دلکش اور بے تکلف شخصیت سے متاثر ہوگئیں۔یہ محبت ہمارے خیال میں بڑھ کر عشق کے درجے تک پہنچ گئی۔ زریں بھابی کو سلیمان سے عشق تھا۔ محبت کا یہ جذبہ دو طرفہ تھا۔ سلیمان نے بھی ان سے شادی کی خاطر خاندان کی مخالفت کا سامنا کیا اور انہیں اپنا لیا۔ ۱۹۶۳ء میں ان دونوں کی شادی ہوگئی۔ آغا طالش نے زریں کو منہ بولی بیٹی بنایا تھا اور وہ آخر دم تک اس رشتے کو نبھاتے رہے۔ اس شادی میں بھی نیر سلطانہ کے علاوہ آغاز طالش کا بہت نمایاں حصہ تھا۔
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)