فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر537

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر537
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر537

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پنا کو یہ مراحل طے کرنے میں جن کٹھن حالات اور مشکلات کا سامناکرنا پڑا اس کا اندازہ لگانا آسان نہیں ہے۔ پانچ برس کی عمر میں انہوں نے رقص کی باقاعدہ تربیت حاصل کرنی شروع کی تھی۔ اس ہنر میں کچھ حاصل کرنے کے لیے بہت پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں جو کہ پنا نے بھی بیلے بلکہ اپنی عمر کے مقابلے میں کہیں زیادہ پاپڑ بیلے۔ ابھی وہ گیارہ برس کی تھیں جب انہیں بیس پچیس افراد کے کنبے کی کفالت کی ذمے داریاں نبھانی پڑیں۔ ان کا بچپن اور نوعمری کا زمانہ اس جدوجہد کی نظر ہوگیا۔
وہ اکثر تلخ لیکن تفخر آمیز لہجے میں کہا کرتی ہیں’’میں کبھی بچی نہیں رہی، کبھی گڑیوں سے نہیں کھیلی، کبھی گڈے گڑیوں کی شادی نہیں کی۔ کبھی ہم عمر بچیوں کے ساتھ نہیں کھیلی اسی لیے اس زمانے میں کوئی ہم جولی نہیں تھی۔‘‘
لیکن پنا کے ذکر کی تفصیل بیان کرنے سے پہلے ایک اور ایسے واقعے کا تذکرہ کرنا بر محل ہوگا جس پر افسانے کا گمان گزرتا ہے۔ پنا تو اپنے والد سے بچھڑ گئی تھیں مگر اداکارہ دیبا اپنی والدہ سے جیتے جی محروم ہوگئی تھیں۔ وہ اپنی پھوپھی اور پھوپھا کے ساتھ مشرقی پاکستان سے مغربی پاکستان آئیں تو انہیں اپنی والدہ کے بارے میں کچھ علم نہ تھا۔ ایک زمانہ گزر گیا۔ وہ کراچی میں اپنی پھوپھی اور پھوپھا کے پاس پرورش پاتی رہیں مگر انہیں علم ہو چکا تھا کہ ان کی والدہ بقیہ حیات ہیں اور مشرقی پاکستان میں کسی جگہ ہیں۔ والد کے سائے سے وہ محروم ہو چکی تھیں۔ اب ان کی آرزو تھی کہ کسی طرح اپنی والدہ سے ملاقات کریں۔

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر536پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
یہ موقع انہیں عرصہ دراز کے بعد اس وقت میسر آیا جب وہ فلم ساز و اداکار رحمن کی فلم میں کام کرنے کے لیے ڈھاکا گئیں۔ اس وقت وہ ایک معروف فلمی ہیروئن بن چکی تھینَ۔ ڈھاکا پہنچتے ہی انہوں نے اپنی کھوئی ہوئی والدہ کی تلاش اور جستجو کا آغاز کر دیا۔ فلمی دنیا کے لوگوں نے ان سے تعاون کیا۔ یہاں تک کہ وہ اپنی والدہ کو تلاش کرنے میں کامیاب ہوگئیں۔ ڈھاکا میں ماں بیٹی کی طویل عرصے کے بعد ملاقات ہوئی تو دونوں گھنٹوں گلے مل کر روتی رہیں۔ دونوں کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں تھا۔ بعد میں دیبا نے اپنی والدہ کو لاہور بھی بلایا اور اپنے سوتیلے بہن بھائی کی بھی پذیرائی کی یہ بھی ایک فلمی کہانی ہی لگتی ہے۔
اس قسم کے واقعات پاکستان کی فلمی دنیا میں اور بھی ہیں۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ یہ افسانہ نما سچی کہانیاں فلمی ہیروئنوں ہی سے وابستہ ہیں۔
اداکارہ ممتاز نے ہیروئن کی حیثیت سے بہت شہرت اور مقبولیت حاصل کی۔ عرصہ دراز کے بعد انہیں معلوم ہوا کہ ان کے حقیقی والد انگلستان میں ہیں۔ ممتاز کے والد نے بیٹی کو اپنے پاس بلا کر رکھا اور انہیں بہت کچھ دیا۔ ایک اور ممتاز ہیروئن انجمن کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی واقعہ پیش آیا۔جب انہیں کافی عرصے کے بعد اپنے گمشدہ والد کا پتا ملا تو ملتان کے ایک بہت بڑے جاگیردار تھے۔ اس قسم کی کہانیاں چاروں طرف بکھری ہوئی ہیں۔
بہت سے کرداروں کا ہیں علم ہو جاتا ہے مگر بے شمار داستانیں عام ہونے سے رہ جاتی ہیں۔ چند فلمی ہیروئنوں کی داستانیں مختصر سنائی جا چکی ہیں۔ ہماری فلمی دنیا میں ایسے اور بھی بہت سے ڈرامائی واقعات موجود ہیں لیکن ان کے بہت سے کردار ان واقعات کو منظر عام پر لانے کے حق میں نہیں ہیں ورنہ حقیقت یہ ہے کہ فلمی کہانیوں میں کام کرنے اور فلم سازی کرنے والی بہت سی ہستیاں بذات خود کسی فلمی کردار سے کم نہیں ہیں۔
لیجئے۔ اب پنا کی کہانی سنئے۔ پنا کا اصلی نام زریں ہے گھریلو پیار کا نام پنا ہے۔ اسی نام سے وہ رقاصہ کی حیثیت سے بھی معروف ہوئیں۔ ہدایت کار، فلم ساز ایس سلیمان کے ساتھ شادی کرنے کے بعد انہوں نے زمانہ عروج میں فلمی صنعت سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ اب وہ زریں سلیمان تھیں۔ گویا جہاں سے انہوں ے سفر شروع کیا تھا دوبارہ وہیں پہنچ گئیں۔
رقص کی باقاعدہ تربیت انہوں نے استاد غلام حسین پٹیالے والے سے حاصل کی۔ استاد غلام حسین نواب آف جونا گڑھ کے خاندان کو بھی رقص سکھایا کرتے تھے۔ وہ گیارہ برس کی تھیں جب ایک اشتہاری مہم کے لیے ان کا انتخاب کیا گیا۔ دلچسپ اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ اسی اشتہاری مہم کے لیے شمیم آرا بھی منتخب کی گئی تھیں۔ اس کام کام عاوضہ پنا کو ایک سو روپے ملا تھا جو کہ بقول ان کے اس زمانے کے اعتبار سے معقول تھا کیونکہ اس وقت سونا اسی روپے تولہ تھا۔
یوں پناکو ایک بڑے گھرانے کی کفالت کی ذمے داریاں سونپ دی گئیں جن کو انہوں نے بہ خوبی نبھایا۔ انہوں نے اسٹیج پر بھی کام کیا۔ کلاسیکی رقص کے علاوہ انہوں نے سندھ کا کلاسیکی رقص بھی سیکھا اور سندھ میں وہ اس رقص کا مظاہرہ کرکے داد و تحسین حاصل کیا کرتی تھیں۔ اس طرح انہوں نے بتدریج رقاصہ کی حیثیت سے ایک مقام بنالیا۔کراچی کے مختلف ہوٹلوں میں اس زمانے میں رقص پیش کیا جاتا تھا۔ اس دور میں ان محفلوں کی نمایاں ہستیاں دو ہی تھیں۔ ایک پنا اور دوسری ایمی مینوالا۔ ایمی کا تعلق ایک معزز پارسی گھرانے سے تھا۔ ہوٹل میٹروپول کے مالک ان کے انکل تھے اور وہ اسی ہوٹل میں رقص کا مظاہرہ بھی کرتی تھیں۔ ایمی نے بھی بعد میں فلمی دنیا میں رقاصہ کی حیثیت سے بہت کامیابی اور شہرت حاصل کی تھی۔ ہدایت کار و فلم ساز حسن طارق سے شادی کرنے کے بعد وہ فلمی دنیا سے ایسی کنارہ کش ہوئیں کہ پھرکسی فلمی تقریب میں بھی ان کی جھلک نظر نہ آئی۔
پنا اور ایمی مینوالا کی داستان اس سے پہلے تفصیل سے بیان کی جا چکی ہے۔ دیکھا جائے تو ان دونوں میں بہت سی باتیں، خوبیاں اور مسائل مشترک ہیں۔
مثلاً دونوں نے کراچی میں رقص کی تربیت حاصل کی اور پھر رقص کے حوالے سے بہت نام پیدا کیا۔ دونوں نے رقص کی باقاعدہ تربیت حاصل کی۔ رقاصاؤں کی حیثیت سے دونوں نے بہت نام پیدا کیا۔ غیر ملکی سربراہوں کے سامنے بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور پاکستان کی مختلف بیرونی ممالک میں نمائندگی کی۔ پی آئی اے نے اس زمانے میں ایک ثقافتی طائفہ تربیت دیا تھا جن کے ناظم غالباً ضیاء محی الدین تھے۔ اس ادارے کے زیر اہتمام بہت سے ممالک میں ثقافتی مظاہرے کیے گئے۔ ناہید صدیقی بھی اس ادارے سے وابستہ رہ چکی ہیں جو بعد میں ضیاء محی الدین کی بیگم بن گئی تھیں۔ کافی عرصہ قبل ان دونوں کی بھی طلاق ہوچکی ہے۔
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)