میں 4 جہازوں کی فور میشن لے کر آگرہ پر حملہ آ ور ہوا، رن وے کی چھوٹی لائیٹس جل رہی تھیں، پھر یہ اڈا ہمارے بموں کے رحم و کرم پرتھا

میں 4 جہازوں کی فور میشن لے کر آگرہ پر حملہ آ ور ہوا، رن وے کی چھوٹی لائیٹس جل ...
میں 4 جہازوں کی فور میشن لے کر آگرہ پر حملہ آ ور ہوا، رن وے کی چھوٹی لائیٹس جل رہی تھیں، پھر یہ اڈا ہمارے بموں کے رحم و کرم پرتھا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:46
 جنگ 65؛
ہم شورکوٹ ہی تھے جب 65 کی پاک بھارت لڑائی ہوئی۔ جان فروشوں نے جان پر کھیل کر وطن کی حفاظت کی۔ میرے 2پھوپھی زاد بھائی(بھائی جان آفتاب(بی 57 بمبار اڑاتے تھے جبکہ بھائی جان قیس فائیٹر پائلٹ تھے) اس جنگ میں حصہ لیا۔ دشمن کے ہوائی اڈے تباہ کئے اور جہاز بھی گرائے۔میرے والد کے خالہ زاد بھائی اور رشتہ میں میرے چچا انکل محمد یونس نے بھی اس جنگ میں حصہ لیا اور آگرہ پر حملہ کرنے والی فارمیشن کے لیڈر تھے۔بعد میں وہ کمانڈر نادرن ائیر کمانڈ بھی رہے۔ انہوں نے 1958؁ ء میں عید والے دن راولپنڈی کی فضاؤں میں انڈیا کا جاسوسی کے لئے آ یا جہاز مار گرایا تھا۔ 65ء کی جنگ کے بعد یہاں رفیقی بیس شور کوٹ میں تعمیرا ہوا اور یہ بیس پاکستان ائیر فورس کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔
65ء کی جنگ کی بھی میری یادوں کا حصہ ہے۔ جنگ شروع ہوئی تو صدر پاکستان ایوب خاں صاحب کی کمال جذباتی تقریر نے ہر پاکستانی کے دل کو گرما دیا تھا۔ ”اے میرے ہموطنو! ہمارے دشمن نے ہمیں للکارا ہے۔“ باقی ذھن سے محو ہو گئی ہے۔ انہوں نے ہر پاکستانی سے ”جنگی فنڈ“ میں چندہ دینے کی اپیل کی تھی۔ ہمارے سکول میں جنگی فنڈ کا ڈبہ آ گیا۔ میں روزانہ ایک آنہ اس ڈبے میں ڈالتا اور باقی بچے بھی اپنی اپنی استطاعت کے مطابق اپنا حصہ ڈالتے۔ شاید ہی کوئی بچہ ہو جو روزانہ اس ڈبے میں پیسے نہ ڈالتا ہو۔ سکول ہیڈ ماسٹر روز اسمبلی میں بات دھراتے ”ہمارے ایک آنہ سے ایک ٹینک خریدا جائے گا اور ہم دشمن کے پرخچے اڑا دیں گے۔“ بہرحال اس جنگ کا جذبہ تھا ہی بے مثل۔ ہر بچہ تفریح کے لئے ملنے والے پیسے جنگی فنڈ میں دے کر دفاع وطن میں اپنا حصہ ڈال رہا تھا۔ اس جنگ نے قوم کو ایسا متحد کیا جس کی مثال دوبارہ دیکھنے کو نہ ملی۔ سارا وطن جاگ اٹھا تھا۔ لوگ خون دینے اور اپنے فوجی بھائیوں کے شانہ بشانہ محاذ جنگ پر جانے کو بے چین تھے۔ ملک کے نامور گلو کاروں نے دل میں اتر جانی والی پر سوز آوازوں میں ملی نغمے گا کر جنگ کے ماحول اور پاکستانیوں کے خون کو گرما دیا تھا۔ یہ نغمے سن کر آج بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور جسم میں جھر جھری دوڑ جاتی ہے۔ اس جنگ میں قوم کا کوئی بھی طبقہ ایسا نہ تھا جس نے اپنا کردار ادا نہ کیا ہو۔ کیا بچے، کیا بوڑھے، کیا جوان، کیا عورتیں، کیا مائیں، کیا شاعر، کیا گلوکار۔ لگتا تھا سارا پاکستان ہی جاگ اٹھا تھا۔ مجھے میرے رشتے کے چچا انکل یونس(انکل ائیر فورس سے ائیر وائس مارشل ریٹائر ہوئے۔ 65 ء اور 71ء کی جنگیں لڑیں۔) نے بتایا تھا ”بیٹا! میں 4 جہازوں کی فور میشن لے کر آگرہ پر حملہ آ ور ہوا تھا۔ رات کو آ گرہ ائیر بیس کے رن وے کی چھوٹی لائیٹس جل رہی تھیں۔ میں نے اپنے سیکنڈ ان کمانڈ سے کہا؛”Indians bastards think we cann"t reach here 
 پھر یہ اڈا ہمارے بموں کے رحم و کرم پر تھا۔ بیٹا!جنگ71ء میں بھی اسی قوم نے لڑی تھی پر نا جانے 65ء والا جذبہ اور اتحاد کہاں کھو گیا تھا۔“
تمھاری قدر امریکی جانتے ہیں؛  
والد کے باس مسٹر ریکسن اور پاکستان میں کمپنی چیف ابا جی کے کام اور صلاحیتوں کے بڑے مداح تھے۔ مسٹر ریکسن تو اکثر کہتے تھے کہ ”حمید تم جیسا بندہ امریکہ میں ہونا چاہیے۔ ہم ہی تمھاری قدر جانتے ہیں۔“ اس کمپنی کاا گلا پراجیکٹ سپین میں تھا۔ ابا جی کو آفر کی گئی؛ ”حمید! تم ہمارے مستقل سٹاف کا حصہ بن کرسپین جاؤ۔ تمھاری امریکن نیشنیلٹی کی ذمہ داری ہماری رہی۔“ ابا جی نے انکار کر دیا تھا۔ بات میری آنکھ کے آپریشن سے ہوتی کہاں پہنچ گئی ہے۔ آئیں! ادھوری بات مکمل کر یں۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -