ڈاکٹر ذاکر نائیک اور ان کی خدمات
عالم اسلام کی سحرانگیز شخصیت ڈاکٹر ذاکر عبد الکریم نائیک ایک بھارتی مقرر مبلغ ہیں، جو تقابل ادیان اور مناظروں کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں۔ پیشہ کے لحاظ سے ایک ایم بی بی ایس سرجن ڈاکٹر ہیں، تاہم ایم بی بی ایس کرنے کے بعد انہوں نے جسمانی طبیب بننے کی بجائے روحانی طبیب بننا پسند کیا اور داعی اسلام بن گئے اور تقریبا 34 سال سے اسلام کی تبلیغ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔کیوں کہ بھارت میں مختلف مذاہب کے افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے تو آپ نے تقابل ادیان کو پڑھا، عبور حاصل کیا اور پھر ہندو اور مسیحی رہنماؤں سے اسلام کی حقانیت پر کئی مناظرے کئے جس میں اسلام کا جھنڈا سر بلند کیا۔ کہا جاتا ہے کہ آپ کی ان کاوشوں کی بدولت لاکھوں لوگوں نے آپ کے ہاتھ اسلام قبول کیا۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک حاضر جوابی میں دسترس رکھتے ہیں،ان کو عالمگیر شہرت مسیحی مناظر ولیم کیمپبل کے ساتھ مناظرہ سے حاصل ہوئی، اس مشہور زمانہ مناظرے میں آپ نے ولیم کیمپبل کے قرآن پر 80 اعتراضات کو بڑی تحقیق اور اسلامی و سائنسی اصولوں کے ساتھ غلط ثابت کیا اور کہا جاتا ہے کہ اس مناظرے کو دیکھ کر ہزاروں غیر مسلم موقع پر ہی مسلمان ہو گئے تھے۔18 اکتوبر 1965ء کو بھارتی ریاست مہاراشٹر کے شہر بمبئی میں پیدا ہونے والے ڈاکٹرذاکر نائیک پیشے کے لحاظ سے تو ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں لیکن وہ خود کہتے ہیں کہ اگر میں ایک ڈاکٹر ہی رہتا تو شاید ممبئی سے باہر مجھے کوئی نہ جانتا لیکن دین کی بدولت اب پوری دنیا کے مسلمان ان سے محبت کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں مختلف مسالک کے لوگ انہیں اپنے ہاں بلاتے ہیں اور اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ وہ دین کی خدمت کر رہے ہیں۔ یہ دین کا معجزہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب بتلاتے ہیں کہ میں بچپن میں ہکلاتا تھا اور اپنا نام درست طریقے سے نہیں بتا سکتا تھا چہ جائیکہ ہزاروں لاکھوں کے مجمع سے خطاب کرنا یہ زندگی میں،کبھی میں نے سوچا ہی نہیں تھا لیکن دین کی تبلیغ شروع کی تو اللہ تعالیٰ نے زبان کی لکنت دور کر دی۔ ڈاکٹر صاحب 34 سال سے زائد عرصہ سے پوری دنیا میں دعوت و تبلیغ کا کام سر انجام دے رہے ہیں اور آج کل اسی سلسلہ میں پاکستان تشریف لائے ہوئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دعوت دین کے مشن کے لئے وہ عظیم اسلامی مبلغ و محقق احمد دیدات سے متاثر ہوئے تھے جن کے ساتھ ان کی پہلی ملاقات 1987ء میں ہوئی۔اپنے دورہ پاکستان کے دوران انہوں نے بتایا کہ شیخ دیدات نے انہیں دیدات پلس کا لقب دیا تھا۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک معروف اسلامی مبلغ احمد دیدات کے شاگرد بھی رہے ہیں اور تقابل ادیان کا علم بنیادی طور پر ان سے ہی حاصل کیا۔
ادیان کے تقابلی مطالعہ، بالخصوص ہندو مت، بدھ مت، عیسائیت اور یہودیت کے بارے میں ان کے علم نے انہیں اس میدان کا بے تاج بادشاہ بنا دیا ہے اور ڈاکٹر ذاکر نائیک خود کہتے ہیں کہ میرے استاد شیخ احمد دیدات کہا کرتے تھے کہ جو علم اور کام سیکھنے میں مجھے برسوں لگ گئے،ڈاکٹر ذاکر نائیک نے صرف چار برس کے عرصے میں اس پر عبور حاصل کر لیا۔ڈاکٹر ذاکر نائیک نے شیخ احمد دیدات سے دین کا علم حاصل کرنے کے بعد دعوت اسلامی کا آغاز کیا اور انہوں نے 1991ء میں بھارتی شہر ممبئی میں اسلامک ریسرچ فاونڈیشن کی بنیاد رکھی۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے ادارے کے تحت ممبئی میں اسلامک انٹرنیشنل سکول اور رفاہی تنظیم یونائیٹڈ اسلامک ایڈ کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے 2006ء میں پیس ٹی وی انگلش کا آغاز کیا توجلد ہی یہ مسلم دنیا کا سب سے بڑا چینل بن گیا جو دنیا کے 200 سے زائد ملکوں میں دیکھا جا رہا ہے اور اس کے ناظرین کی ایک چوتھائی تعداد کا تعلق اب بھی غیر مسلم افراد سے ہے۔ڈاکٹر ذاکر نائیک ایک ہندو معاشرے میں رہ کر دین کی تبلیغ کا کام انجام دیتے رہے اور انہوں نے پیس ٹی وی کے پلیٹ فارم سے بھارت میں دعوت و تبلیغ کا کام شروع کیا جو جلد ہی پوری دنیا میں پھیل گیا اور پھر ان کی ممبئی میں ہونے والی اسلام کانفرنس میں لاکھوں لوگ شرکت کرنے لگے، ہندو ان کی تقاریر سن کر موج در موج مسلمان ہونے لگے تو مودی سرکار کو ان کی مقبولیت ایک آنکھ نہ بھائی اور ان پر منی لانڈرنگ کا بھونڈا الزام لگا دیا جس کے بعد 2016ء میں ڈاکٹر ذاکر نائیک ملائیشیا منتقل ہو گئے اور وہاں سے دعوت و تبلیغ کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک کی انہی خدمات کے اعزاز میں 29 جولائی 2013ء کو انہیں متحدہ عرب امارات کے نائب صدر اور دوبئی کے حکمران شیخ محمد بن راشد المکتوم کی جانب سے 2013ء کی بہترین مسلم شخصیت قرار دے کر ”بین الاقوامی قرآن ایوارڈ“ دیا گیا جس کے ساتھ انہیں ساڑھے سات لاکھ درہم انعامی رقم ملی جو انہوں نے پیس ٹی وی کے لئے وقف کی اور ایسا شخص اگر دولت کا لالچی ہوتا تو کیا وہ پیسے وقف کرتا اسی سال انہیں ملائیشیاء کے بادشاہ نے ملک کا سب سے بڑا ایوارڈ عطا کیا۔ 2015ء کو سعودی فرماں روا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے ڈاکٹر ذاکر نائیک کو خود مسلم دنیا کا سب سے بڑا تمغہ ”شاہ فیصل ایوارڈ“ عطا کیا جس کے ساتھ ملنے والی ساڑھے سات لاکھ ریال کی انعامی رقم انہوں نے ”اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن“ کو عطیہ کر دی۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک بتاتے ہیں کہ ایک بار انہیں ملائیشیا میں کسی سیاست دان نے دہشت گرد کہا جس پر وہ انہیں کورٹ لے گئے اور وہاں ہتک عزت کا دعوی کر دیا اور تین لاکھ ڈالر ہرجانے کا کیس جیت لیا اور وہ رقم ڈاکٹر صاحب بتاتے ہیں انہوں نے فلسطین کے لئے عطیہ کر دی۔ ڈاکٹر صاحب نے جدید دور کے میڈیم ٹی وی اور ڈیجیٹل میڈیا کو اپنی دعوت و تبلیغ کا مرکز بنا رکھا ہے کیوں کہ وہ کہتے ہیں کہ میڈیا پر اسلام مخالف پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنے کے لئے اس میڈیم کا استعمال کرنا مسلمانوں کے لئے انتہائی ضروری ہے تاکہ اسلام مخالف نظریات اور عقائد کی نفی دلائل کے ساتھ کی جا سکے۔