قبائلی علاقوں میں فاٹا اصلاحات فوری نافذاور مردم شماری کرائی جائے،قبائیلیوں کے شناختی کارڈز کا مسئلہ حل نہ ہوا تو ملک بھر میں نادرا دفاتر کے باہر دھرنے دیں گے :سراج الحق
پشاور(نیوز ڈیسک)امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹرسراج الحق نے مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ قبائلی علاقوں میں فاٹا اصلاحات فوری نافذکی جائیں ،فاٹا کے عوام اصلاحات کو عملی جامہ پہنانے کیلئے مقررہ دس سال پر مطمئن نہیں،فاٹا میں فوری طور پر مردم شماری کا عمل شروع کیا جائے کیونکہ مردم شماری نہ ہونے کی وجہ سے فاٹا میں ترقی کا پہیہ رکا ہوا ہے ،پرمٹ اور راہداری سسٹم کرپشن کی جڑہے جس کا فوری خاتمہ ضروری ہے،2018کے الیکشن سے قبل فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کیا جائے تاکہ صوبائی اسمبلی میں فاٹا کو نمائندگی مل سکے ،ملک بھر کے کالجز اور یونیورسٹیوں میں فاٹا کے طلبا ء کے لئے کوٹہ بڑھایا جائے اور قبائلی علاقوں میں خواتین یونیورسٹیاں اور میڈیکل کالجز بنائے جائیں۔
مرکز اسلامی پشاور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سینیٹر سراج الحق کا کہنا تھا کہ ہم اعتراف کرتے ہیں کہ گذشتہ 70 سالوں میں قبائل نے پاکستان کا دفاع کیا ہے اور اس سے پہلے ان لوگوں نے متحدہ ہندوستان کو محفوظ رکھنے کیلئے اپنا کردار ادا کیا تھالیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ گذشتہ دوسو سالوں میں اس دفاعی حصار کا کسی نے خیال نہیں رکھا یہی وجہ ہے کہ یہاں معاشی ،سیاسی اور نفسیاتی مسائل کا سامنا ہے۔انہوں نے کہا کہ اسلا م آباد میں قبائلی علاقوں کی تمام سیاسی جماعتوں کی کانفرنس میں سب نے مرکزی حکومت کے سامنے ایک مشترکہ ایجنڈا رکھا کہ قبائل مزید ایف سی آر کے کالے قانون کو برداشت نہیں کرینگے ایف سی آر ظلم، غلامی اور نفرت کی ایک علامت ہے،ہمیں خوشی ہے کہ انہی سفارشات کی روشنی میں حکومت نے ایک کمیٹی قائم کی،جس نے قبائلی علاقوں میں جاکر زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے ملاقاتیں کیں ، لہٰذا بحیثیت مجموعی قبائلی عوام اور انکے یہ نمائندے اس رپور ٹ کو سپورٹ کرتے ہیں جس کو سرتاج عزیز نے قومی اسمبلی میں پیش کیا ہے۔سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ قومی اسمبلی میں پیش کی جانے والی رپورٹ میں کبھی قبائل آبادی کی تعداد پچاس لاکھ بتائی جاتی ہے اور کبھی 48لاکھ، لیکن یہ تعداد انتہائی کم ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ اگرقبائلی علاقوں کی مردم شماری ہوجاتی ہے تو یہ تعداد دو کروڑ سے زیادہ بنتی ہے، اس رپورٹ میں نہ خواتین کی علیحدہ یونیورسٹیوں کا ذکر ہے نہ میڈیکل کالج نہ انجینئرنگ یونیورسٹی کا ذکر ہے تو ظاہر ہے تعلیم کے بغیر ترقی تو ایک افسانہ ہی لگتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اٹھارہ نکاتی ایجنڈے میں پاکستان بھر میں قبائلی طلباء کیلئے کوٹہ بڑھانے کے ساتھ ساتھ قبائلی علاقوں میں اپنا میڈیکل کالج،انجینئرنگ یونیورسٹی،اور خواتین یونیورسٹیاں قائم کیں جائیں تاکہ قبائلی خطہ ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے۔
انہوں نے کہا کہ اصلاحات کیلئے جو پانچ سے دس سال کا وقت رکھا گیا ہے اس سے خطرہ یہ ہے کہ حکومتوں کے بدلنے کے ساتھ ساتھ یہ منصوبہ بھی نہ بدل جائے اس لئے ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں اور عوام کا بھی یہی مطالبہ ہے کہ اس اہم معاملے کو جنگی بنیادوں پر حل کیا جائے ، 2018ء کے الیکشن سے قبل قبائلی خطے میں مردم شماری کرائی جائے اور فاٹا کو صوبے میں ضم کیا جائے تاکہ 2018ء کے انتخابات میں قبائل کو صوبائی اسمبلی میں نمائندگی مل سکے،این ایف سی ایوارڈ میں تین فیصد کی بات ہوئی ہے لیکن وہ بعد کی بات ہے فوری طور پر پانچ سو بلین روپے کا پیکج اناؤس کیا جائے، قبائلی علاقے معدنیات سے مالا مال ہیں یہ پاکستان پر بوجھ نہیں پاکستان کیلئے سہارا ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس وقت قبائلی عوام کے لاکھوں شناختی کارڈ بلاک ہیں اور اس وجہ سے شہری اذیت سے دوچار ہیں انکی تنخواہیں بند ہیں ،نہ سفر کرسکتے ہیں نہ ملازمتوں کیلئے درخواست دے سکتے ہیں ہم یہ چاہتے ہیں کہ نادراجانچ پڑتال کرے لیکن یہ تو ظلم ہے کہ باپ کا شناختی کارڈ ہے اور وہ پولٹیکل ایجنٹ کے جرگوں میں شرکت کرتے ہیں لیکن اسکے بیٹے کا شناختی کارڈ بلاک ہے ،انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ پورے پاکستان میں ہے سالوں سے لوگ اسلام آباد اور پشاور میں نادرا کے دفاتر کے طواف کرتے چلے آرہے ہیں اور شناختی کارڈ بحال نہیں ہوسکے اس لئے میں نے اعلان کیا ہے کہ چودہ دن کے اندراندر نادرا یہ مسئلہ حل کردے اگر نادرا نے یکم اکتوبر تک یہ مسئلہ حل نہ کیا تو پھر ہم یکم اکتوبر کو تمام صوبائی ہیڈکوارٹر کے سامنے دھرنے دیں گے، ہم اپنے شہریوں کو مزید اس اذیت میں مبتلاء نہیں دیکھ سکتے۔