وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 34ویں قسط
توقیر نے حوریہ کو ٹوکا۔ ’’حوریہ نظریں نیچے کرو بزرگوں کو اس طرح دیکھتے ہیں۔‘‘
سائیں رحمان مسکراتے ہوئے تحمل سے بیٹھ گئے’’اسے کچھ مت کہیں یہ آپ کی تابع ہے۔‘‘ظفر نے اور رخسانہ نے سائیں کو سلام کیا اور پھر اپنے آپ کو موقف بیان کیا۔ بزرگ نے انہیں اشارہ کیا کہ حوریہ کے سامنے مزید کچھ اور نہ بتائیں۔ پھر انہوں نے حوریہ کی آنکھیں دیکھیں۔ اس کی نبض چیک کی اور رخسانہ سے مخاطب ہوا۔ ’’آپ بیٹی کو حویلی دکھائیں۔‘‘
رخسانہ سمجھ گئی کہ سائیں ظفر اور توقیر سے اکیلے میں بات کرنا چاہتے ہیں۔ وہ حوریہ کو لے کر باہر چلی گئی۔ سائیں، توقیر سے مخاطب ہوا ’’اب آپ مجھے سب تفصیل سے بتائیں۔‘‘
توقیر نے سب کچھ سائیں کو بتایا۔ سائیں ساری صورت حال جان کر پریشان ہوگئے’’میں حوریہ کو دیکھ کر کچھ باتیں تو جان گیا ہوں لیکن ابھی میں آپ سے کچھ نہیں کہوں گا آپ مجھے حوریہ کی تاریخ پیدائش لکھوا دیں۔ میں اس کا حساب نکال لوں تو پھر میں خود آپ لوگوں سے رابطہ کروں گا آپ سب بہت بڑی مصیبت میں گھر گئے ہیں۔ بہت اچھا کیا جو میرے پاس آگئے مجھ سے جو کچھ ہوسکا میں کروں گا۔‘‘
وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 33ویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
یہ کہہ کر اس نے مٹی کی ہانڈی سے کچھ تعویذ نکالے اور وہ تعویذ ظفر کے ہاتھ میں دے دیئے۔
’’میں آپ کو ایک مشورہ دوں آپ سب دوست اپنی فیملیز سمیت ایک ہی جگہ ٹھہر جائیں۔ یہ تعویذ پانی میں بھگو کر گھر کے سارے کونوں میں چھڑک دیں۔ خدا کے فضل سے جو بھی ملا ہے وہ اس گھر میں آپ کو نقصان نہیں پہنچائے گی جب تک کوئی واضح حقیقت سامنے نہیں آجاتی آپ لوگوں کو ایک ہی جگہ رہنا چاہئے آج رات حوریہ کا حساب نکال کر میں کل خود آپ کے گھر آؤں گا۔ آپ مجھے اپنا گھر سمجھا دیں۔‘‘
ظفر نے بزرگ کو اپنا گھر سمجھا دیا اور پھر وہ لوگ وہاں سے روانہ ہوگئے۔
***
اگلے روز توقیر اور رخسانہ ، حوریہ کے ساتھ ظفر کے گھر پر ہی تھے۔ حوریہ اندر لیونگ روم میں بیٹھی تھی۔ ظفر نے توقیر اور رخسانہ کو باہر لان میں بیٹھنے کے لیے کہا، ابھی صبح کے نو بج رہے تھے۔ باہر بیٹھنے کے بعد رخسانہ نے پیچھے کی طرف دیکھا کہ کہیں حوریہ ان کے پیچھے باہر تو نہیں آرہی پھر اس نے ظفر سے بات شروع کی’’ظفر بھائی رات توہم آپ کے گھر اس لیے ٹھہر گئے تھے کہ سفر میں دیر ہوگئی تھی مگر اب ہمیں چلنا چاہئے۔۔۔بزرگ کی یہ بات ہمارے لیے ناممکن ہے کہ ہم سب اپنے گھر چھوڑ کر ایک ہی جگہ پر رہیں۔‘‘
’’مگر بھابی اس بزرگ نے کوئی ایسی بات محسوس کی ہوگی تب ہی تو ایسا کہا ہے یہ ضروری ہے کہ ہم کسی بڑی مصیبت میں گرفتار ہوں تو ہی ہوں۔۔۔ہم احتیاط تو کر سکتے ہیں۔‘‘
توقیر جو خاموشی سے ظفر کی بات سن رہا تھا رخسانہ کی طرف متوجہ ہوا۔’’ہم یہ بھی کر سکتے ہیں کہ ظفر اور ہم لوگ اور زبیر اور وقار احمد کی فیملی ایک ساتھ رہ لیں۔‘‘
رخسانہ نے نفی کے اندازمیں سر ہلایا۔’’کوئی تمہاری بات نہیں مانے گی، کس بنا پر کوئی یہ فیصلہ لے گا صرف ایک وہم کی بنیاد پر۔‘‘
ظفر نے ہاتھ سے بحث کو ختم کرنے کا اشارہ کیا’’یہ فیصلہ ہم بعد میں کر لیں گے ابھی تو میں سائیں رحمان کو اپنے گھر آنے کے لیے کہہ چکا ہوں جب تک وہ نہیں آتے آپ لوگ یہیں ٹھہریں دوپہر تک باقی سب بھی آرہے ہیں ایک بار بزرگ کی بات سن لیں پھر آگے کا سوچیں گے۔‘‘
رخسانہ کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی’’وہ بزرگ میری حوریہ کو کوئی نقصان تو نہیں پہنچائیں گے۔‘‘ ظفر نے اسے تسلی دی’’وہ صرف حوریہ سے بات کریں گے، ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
توقیر خاموشی کی گہری سوچ میں گم تھا’’تم کیا سوچ رہے ہو؟‘‘ ظفر نے توقیر سے پوچھا۔
’’ویسے یہ عجیب بات ہے ، سائیں نے یہ کیوں کہا کہ فواد اور خیام کے گھر والے بھی موجود ہوں، عامل تو ایسے کاموں میں تنہائی چاہتے ہیں اور حوریہ بھی شاید پسند نہ کرے۔’’توقیر نے کہا۔
’’اس میں اتنا سوچنے والی کیا بات ہے۔ وہ جو کچھ پوچھنا چاہتے ہوں گے اس کا تعلق وشاء، فواد اور خیام سے بھی ہوگا شاید ان کے بارے میں ہمیں علم ہو جائے گا۔ ویسے بھی جب بزرگ چاہیں گے تو ہی ہم ان کے پاس جائیں گے۔‘‘
توقیر جلدی سے بولا’’رخسانہ اور میں حوریہ کے پاس ہی رہیں گے۔‘‘
’’ہاں۔۔۔تم لوگ حوریہ کے پاس ہی رہنا۔‘‘ ظفر نے توقیر کو تسلی دی۔
دوپہر تک ان کے دوسرے دوست اور ان کی فیملیز بھی آگئیں۔ تقریباً چار بجے تک قرآن خوانی ہوتی رہی۔ پانچ بجے کے قریب سائیں جی کے خاص بندے کا فون آیا کہ سائیں جی تقریباً سات بجے کے قریب آپ کے گھر پہنچ جائیں گے۔
ظفرکو یہ جان کر تسلی ہوگئی کہ سائیں جی کے آنے تک خاص دوستوں کے علاوہ باقی سب لوگ جا چکے ہوں گے۔ ظفر کے گھر ایک بڑا سانحہ ہوا تھا وہ خود ابھی تک اس صدمے سے باہر نہیں آسکا تھا مگر ان کی چھٹی حس انہیں اشارہ کر رہی تھی کہ خطرہ ان کے سروں پر منڈلا رہا ہے اس لیے وہ اس خطرے سے نبرد آزما ہونے کی تیاری کرنے لگے تھے۔
سورہ یاسین الماری میں رکھنے کے بعد رخسانہ بجھی بجھی سی توقیر کے پاس آبیٹھی۔’’حوریہ نے صبح سے کچھ نہیں کھایا بس گم صم سی بیٹھی ہے ۔۔۔یہی کہتی ہے کہ مجھے بھوک نہیں ہے۔ نہ ہاتھ منہ دھویا ہے نہ بال سنوارے ہیں عجیب سی حالت بنائی ہوئی ہے۔‘‘
’’کوئی جوس وغیرہ دے دو یا پھل دے دو۔‘‘ توقیر نے کہا۔
’’جوس بھی لے گئی تھی اور پھل بھی کمرے میں رکھ دیئے ہیں مگر وہ کچھ نہیں لے رہی۔۔۔آپ جائیں شاید وہ آپ کی بات مان لے۔‘‘
توقیر اندر کمرے میں حوریہ کے پاس گیا۔ وہ واقعی عجیب سی حالت میں دیوار سے سر ٹکائے بیٹھی تھی۔ توقیر اس کے قریب بیٹھ گیا۔ ’’کیا بات ہے حوریہ اپنا کیا حال بنا رکھا ہے۔‘‘
حوریہ نے غصیلی نظروں سے توقیر کی طرف دیکھا’’آپ لوگ مجھ سے جھوٹی ہمدردیاں نہ کیا کریں۔‘‘
’’بیٹی پر تم کیسی بات کر رہی ہو۔ تمہارے اندر تو ہماری جان پھنسی ہے۔‘‘
’’جھوٹ بولتے ہیں آپ اگر مجھ سے پیار کرتے ہیں تو سائیں کو کیوں بلا رہے ہیں۔ وہ مجھے اذیتیں دے گا۔‘‘
’’وہ تمہیں بھلا کیوں اذیتیں دے گا۔ میں اور تمہاری امی تمہارے پاس ہوں گے۔ وہ بس تم سے ملنا چاہتے ہیں۔‘‘ رخسانہ اورنج جوس لے کر کمرے میں داخل ہوئی۔
’’یہ لیں اپنی بیٹی کو خود اپنے ہاتھ سے جوس پلائیں۔’’توقیر نے جوس کا گلاس لیا اور حوریہ کی طرف بڑھایا۔ حوریہ نے آرام سے جوس پی لیا۔
توقیر نے اس کے سر پر پیار دیا۔ ’’گڈ گرل‘‘ رخسانہ کو بھی کچھ تسلی ہوگئی۔ توقیر اور رخسانہ سب کے ساتھ باہر لان میں بیٹھ گئے۔ لان میں فواد کے والدین وقار احمد اور ایمن اور خیام کے والدین زبیر اور ماہین سب موجود تھے۔ اتنے لوگوں کی موجودگی میں بھی خوف کا سناٹا محو گشت تھا۔(جاری ہے )
وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 35ویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں