اسوان جھیل کئی یادگاروں کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اپنے اندر سموتی گئی، دور جدید کے ”فرعون کاریگروں“ نے مندروں اور مجسموں کو دنیا کے سامنے پیش کر دیا تھا
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:94
یہ کام 1964ء میں شروع ہوا اور پھر 1970ء کے اوائل میں یہ مندر اور مجسمے اپنے نئے مقام تنصیب پر سیاحوں کیلئے کھول دیئے گئے۔ اس دوران اسوان جھیل آہستہ آہستہ بھرتی رہی اور پیچھے رہ جانے والی چھوٹی بڑی کئی یادگاروں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنے اندر سموتی گئی۔ تاہم ماہرین آثار قدیمہ اور سائنس دان اپنے اس منصوبے کی کامیابی پر بے حد شادمان تھے کیونکہ وہ اپنی انتھک محنت کی بدولت عظیم فرعون رعمیسس ثانی اور اس کی ملکہ نفرتاری کے دیو ہیکل مندر اور مجسمے نہ صرف بچانے میں کامیاب ہوگئے بلکہ ان کی نئے سرے سے اس طرح تنصیب کی گئی کہ ان کی شکل و شباہت میں ذرا بھی فرق نہ آیا۔
اور اب میں یہی عظیم یادگاریں دیکھنے کیلئے ابو سمبل جا رہا تھا۔ کچھ تاریخ میں نے پیشگی اس لئے بیان کر دی ہے کہ وہاں جب ہم ان مندروں اور مجسموں میں بھٹکتے پھر رہے ہوں گے تو کم از کم یہ ادراک تو ہوگا کہ دور جدید کے ”فرعون کاریگروں“ نے کس طرح ان سب کو ایک بار پھر اصلی حالت میں لا کر دنیا کے سامنے پیش کر دیا تھا۔
مجھے صبح 6 بجے اسوان کے چھوٹے سے ایئرپورٹ سے ابوسمبل کے لئے پرواز بھرنا تھی۔ اس پرواز میں چند ہی مسافر تھے جو سب کے سب غیر ملکی سیاح تھے اور اسوان میں ایک اچھا وقت گزار کر اب ابو سمبل کے لئے نکلے تھے۔ میں نے اس سفر کا ٹکٹ قاہرہ سے ہی لے لیا تھا کیونکہ میں سیٹ نہ ملنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا تھا۔ کاؤنٹر پر میرا ٹکٹ دیکھ کر ایئر لائین کے عملے نے میرا یک طرفہ ٹکٹ پھاڑ کر بورڈنگ کارڈ اور واپسی کا ٹکٹ مجھے تھما دیا اور ایک دروازہ کی طرف جانے کا اشارہ کیا۔ میں نے یہ کاغذات اپنی قمیض کی بالائی جیب میں رکھے اور وہاں سے ہال میں آگیا،جس میں سے باہر نکلنے کا ایک دروازہ تھا جو رن وے کی طرف کھلتا تھا۔ باہر جھانک کر دیکھا تو ایک چھوٹا سا جہاز کافی دور رن وے پر کھڑا مسافروں کا منتظر تھا۔میرے ایک ہاتھ میں بیگ اور دوسرے میں کیمرہ تھا۔حالانکہ سہ پہر کو مجھے اسی پرواز سے واپس اسوان آ جانا تھا، پھر بھی میں نے احتیاطاً کچھ ضروری اشیاء اپنے ساتھ رکھ لی تھیں، تاکہ اگر کسی ناگہانی وجہ سے وہاں رکنا پڑ جائے تو کوئی مسئلہ نہ بنے۔
مائل بہ پرواز ٹکٹ
غرض کچھ دیر بعد بورڈنگ شروع ہوئی اور مسافر جہاز کی طرف روانہ ہوئے۔ باہر تیز ہوا چل رہی تھی۔ جو آندھی سے ذرا ہی کم تھی اور رن وے پر گرد چھائی ہوئی تھی۔ میں طیارے میں اندر جانے والے مسافروں کی قطار میں سب سے پیچھے کھڑا ہوا تھا۔ بالآخر سیڑھیاں چڑھ کر جہاز کے دروازے پر پہنچا تو وہاں کھڑے ہوئے ایک موٹے سے سٹیورڈ نے مجھ سے بورڈنگ کارڈ مانگا۔ میرے چونکہ دونوں ہاتھ خالی نہیں تھے، میں نے اسے اشارے سے بتایا کہ وہ قمیض کی جیب سے بورڈنگ کارڈ نکال لے۔ وہ تھوڑا مسکرایا، اور غالباً یہ اس کی آخری مسکراہٹ ثابت ہونے والی تھی۔ پھر اس نے ماہر جیب تراش کی طرح دو انگلیوں سے میرا بورڈنگ کارڈ باہر کھینچ لیا۔ اس کے ساتھ ہی میرا واپسی کا ٹکٹ بھی چپک کر باہر نکل آیا۔ ہوا کے ایک تھپیڑے سے یہ ٹکٹ اس کے ہاتھ سے نکل کر مائل بہ پرواز ہوا۔ میں نے اور اس موٹے سٹیورڈ نے اس کو تھامنے کی بڑی کوشش کی،مگر وہ تو اُڑ گیا اور ہاتھ نہ آیا۔ اب وہ کسی کٹی پتنگ کی طرح ہوا کے دوش پر کسی نامعلوم منزل کی طرف روانہ ہوگیا۔ ہم دونوں تیزی سے سیڑھیاں اتر کر اس کے پیچھے بھاگے، لیکن جیسے ہی ہم اس کے قریب پہنچتے وہ کسی شرارتی تتلی کی طرح وہاں سے اڑ کر کچھ قدم اور دور ہو جاتا۔ اب صورت حال یہ تھی کہ ہم دونوں اس کے پیچھے بھاگ رہے تھے اور جہاز کے اندر بیٹھے ہوئے لوگ کھڑکیوں میں سے یہ نظارہ دیکھ کر دھیمی آنچ میں مسکرا رہے تھے۔ ہم دونوں بھاگتے ہوئے رن وے پر کافی دور نکل تک آئے تھے۔ وہاں سیکیورٹی پر مامور ایک سپاہی نے جب ہماری بے بسی دیکھی تو اس نے بھی حسب استطاعت اپنا حصہ ڈال کر ہمارے ساتھ بھاگنے کی کوشش کی،پھر شائد وہ بھاگ نہ سکا یا اسے خیال آگیا تھاکہ وہ تو سیکیورٹی کا بندہ ہے اپنی جگہ نہیں چھوڑ سکتا، لہٰذا وہ وہیں رک گیا اور بڑبڑاتا ہوا اپنے ڈیوٹی کے مقام پر واپس چلا گیا۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں