دادا کہا کرتے تھے”بیٹا! عزت غریبوں سے بنتی ہے، وہ تمھارے پاس ”آس“لے کر آتے ہیں۔ ان کی آس کبھی ٹوٹنے مت دینا، اللہ بھی تمھارا مدد گار ہو گا“

 دادا کہا کرتے تھے”بیٹا! عزت غریبوں سے بنتی ہے، وہ تمھارے پاس ”آس“لے کر آتے ...
 دادا کہا کرتے تھے”بیٹا! عزت غریبوں سے بنتی ہے، وہ تمھارے پاس ”آس“لے کر آتے ہیں۔ ان کی آس کبھی ٹوٹنے مت دینا، اللہ بھی تمھارا مدد گار ہو گا“

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:21
میرے دادااپنی تعلیم مکمل کرکے واپس سجان پور آئے توقصبہ اور ارد گرد کے لوگ انہیں ”رشید نہیں صاحب رشید“ کہہ کر بلانے لگے تھے۔ وہ سر پر”سولہ ہیٹ“(کپڑے اور ٹھوس ربر کا بنا ہوتا تھا۔ اس دور میں یہ ہیٹ اکثر پڑھے لکھے لوگ پہنتے تھے۔ قائد اعظم بھی ایسا ہیٹ پہنتے تھا۔) سجان پور کے رشید کا سفر صاحب رشید پر ختم نہیں ہوا بلکہ قدرت نے ابھی ان سے اور بہت سے کام لینے تھے۔
محکمہ انہار کا صاحب رشید؛
وطن واپس آکر میرے دادا نے محکمہ انہار میں بطور اسٹنٹ انجینئر ملازمت کر لی۔ جلد ہی ان کا شمار محکمے کے ہر دلعزیز افسروں میں ہونے لگا۔ بااصول، رحم دل صاحب رشید سب کے کام آتے تھے۔ سبھی ملازمین کے دکھ درد میں شریک ہوتے اور مسلمان ملازمین تو اپنے حقوق کے لئے انہیں اپنا نجات دہندہ گردانتے تھے۔ وہ غریبوں سے محبت کرتے، نچلے طبقے کے لوگوں سے رحم دلی سے پیش آتے اور ان کی فلاح کے لئے آگے آگے رہتے تھے۔وہ کہا کرتے تھے؛”بیٹا! عزت غریبوں سے بنتی ہے۔ وہ تمھارے پاس ”آس“لے کر آتے ہیں۔ ان کی آس کبھی ٹوٹنے مت دینا۔ ان کے کام کے لئے اللہ بھی تمھارا مدد گار ہو گا۔“بے شک مستحق اور افلاس میں گھرے لوگوں کی مدد اللہ کی خوشنودی کا ذریعہ اور دین وردنیا کی بھلائی بھی ہے۔اللہ فرماتا ہے؛”میرے بندوں سے پیار کر میں (اللہ) تم سے پیار کروں گا۔“ابا جی نے ایک بار مجھے بتایا تھا؛”ایک دن ایک ہندو پٹواری جس کی چھ بیٹیاں تھیں تمھارے دادا کے پاس اپنا تبادلے رکوانے کی سفارش لے کر آیا۔ دادا نے حامی بھر لی کہ کوشش کروں گا۔ وہ بولا؛ ”صاحب پہلے بھی دو لوگ کوشش کر چکے ہیں لیکن صاحب بہادر نہیں مانا۔“ دادا بولے؛”کرم چند جو اللہ کو منظور۔“وہ چلا گیا تو میری دادی جو ساری بات سن چکی تھیں کہنے لگیں؛”بلقیس کے ابا!یہ تو ہندو ہے آپ نے اس کے کام کی بھی حامی بھر لی۔“ جواب دیا؛”او بھلیا لوکے! کبھی تمھارا کوئی کام رکا ہے جو اس کا رکے گا۔سولہ ہاتھ اٹھیں گے میرے لئے دعا کے واسطے(چھ بیٹیوں کے اور دو ان میاں بیوی کے)۔ انشا اللہ میں کامیاب ہوں گا۔ نیکی کے کاموں سے مجھے مت روکا کر۔ نیکی کے بدلے اللہ میرے کام سنوارے گا۔“دادا کی سفارش سے کرم چند پٹواری کا تبادلہ منسوخ ہو گیا۔ وہ اور کے گھر والے ساری عمر انہیں دعائیں دیتے رہے۔
 دوسروں کی مدد کرنا ہمارے خاندان کی جینز میں شامل ہو گیا۔ میرے والد، چچا، پھوپھا، میرے والد، میرے کزن، خود میں اور اب میرے بیٹے عمر بھر اسی کوشش میں رہے کہ کسی کی آس نہ ٹوٹنے پائے اور اکثر اللہ کے کرم سے کامیابی ملی اور بہت سی ان دیکھی دعائیں بھی۔ مجھے مولا علی ؓ کو قول یاد آ گیا۔ آپ نے فرمایا؛”اللہ نیکی کا موقع ہر شخص کو نہیں دیتا۔“ آپ ؓ  کا قول غلط ہو ہی نہیں سکتا۔اس کی چند مثالیں آنے والے صفحوں میں بھی ملیں گی۔
 میرے دادا کی پوسٹنگ جہاں بھی رہی ان کے اصولوں اور خوش اخلاقی کی وجہ سے بڑے بڑے لوگ ان کے گرویدہ ہوجاتے اور یہ تعلقات کسی لالچ کے بغیر دیرپا رہے بلکہ ان کی زندگی کے بعد بھی والد مرحوم کے کام آئے۔ چند ایک شخصیات کے نام مجھے یاد رہ گئے ہیں۔ ان میں ملک عمر حیات ٹوانہ(جو شاید دنیا کہ واحد شخصیت تھے جن کے پاس حکومت برطانیہ کے سبھی اعزازات تھے) اختر حسین ملک(تقسیم ہند کے بعد سٹیل منٹ کمشنر پنجاب مقرر ہوئے) نواب بوسال آف جہانیاں،(یہ خود کو نواب آف بوسال کہتے تھے، منڈی بہاؤالدین کے گاؤں بوسال کا رہنے والا مشہور زمانہ رسہ گیر تھا۔ دادا کا بڑا معتقد اور ان سے ڈرتا تھا۔) لالہ گنپت رائے،(مالک کراؤن بس سروس پٹھانکوٹ)، سرگودھا کے نواب قریشی(ان کا پورا نام میرے ذھن سے نکل گیا ہے)علامہ محمد اقبال ؒ وغیرہ شامل ہیں۔ علامہ سے تو ان کی خوب نیاز مندی تھی۔ لاہور جب بھی آنا ہوتا تو اکثر و بیشتر ان کی علامہ سے ملاقات ہوتی اور بعض دفعہ تو وہ ان کا پسندیدہ تمباکو بھی ان کی خدمت میں پیش کرتے تھے۔ ملک عمر حیات گورنر سے کم کسی افسر سے نہیں ملتے تھے۔ انگریز کمشنر وغیرہ سے تو ان کے فارم منیجر ملتے تھے۔ لیکن وہ میری دو پھوپھیوں (پھوپھی انور اور پھوپھی محمودہ) کی برات کی ریسپشن پر موجود تھے۔ ابا جی نے ایک روز مجھ سے پوچھا؛”بیٹا تم نے کبھی سوچا کہاں انگلستان کے بادشاہ کا اے ڈی، سی، پنجاب کا سب سے بڑا زمیندار اور کہاں تمھارا دادا سب سے چھوٹے رینک کا گزٹیڈ افسر۔“ میں نے جواب دیا؛”ابا جی! دوستی؟“ کہنے لگے؛”بیٹا! یہ تمھارے دادا کے اصول تھے، خودداری تھی کہ اتنا بڑا آدمی دوست ہی نہیں تھا بلکہ عزت و تکریم سے پیش آتا تھا۔“ اصول کی بات کرنا، خودداری، عزت کرنا اور کرانا، غریب اور مستحق کے ساتھ رحم دلی سے پیش آنا، یہ باتیں بعد کی زندگی میں میرے بڑے کام آئیں۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -