امیر المومنین خلیفہ چہارم سیدنا  حضرت علیؓ شیر خدا کا بچپن!

  امیر المومنین خلیفہ چہارم سیدنا  حضرت علیؓ شیر خدا کا بچپن!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 رحمت دو عالم ؐ نے ارشاد فرمایا کہ میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں ان روشن ستاروں کے جھرمٹ میں امیر المومنین،امام المتقین، قاتل المشرکین۔اشجع الاشعجین،وارث علوم نبی،ساقی کوثر،فاتح خیبر، والد شبیر و شبر،قاتل مرحب و عنتر،منبع رشد و ہدایت، تاجدار الاولیاء، محرم اسرار خفی و جلی، شیرخدا، داماد مصطفی، حیدر کرار،صاحب ذولفقار،میدان خطابت کے شہسوار،خلیفہ چہارم سیدنا حضرت علی ؓابن ابی طالب کا مقام و مرتبہ منفرد و جدا ہے آپ کی کنیت ابو الحسن،ابو تراب ہے جو آپ کو رسول پاکؐ نے خود عطا فرمائی یہی وجہ ہے کہ جب آپ کو ابو تراب (یعنی مٹی کا باپ)کہہ کر پکارا جاتا تو آپ بہت خوش ہوتے آپ کے والد حضرت ابو طالب اور دادا حضرت عبدالمطلب ہیں حضرت علیؓ کی والدہ حضرت فاطمہ بنت اسد ہاشمی خاندان کی وہ پہلی خاتون ہیں جنہوں نے اسلام قبول کیا اور ہجرت فرمائی سیدنا حضرت مولا علیؓ کا شمار عشرہ مبشرہ میں سے ہے آپ رشتہ مواخات میں نبی پاک ؐ کے بھائی ہیں اور دنیا اور آخرت میں بھی بھائی ہیں آپ کی ولادت باسعادت ۱۳رجب ۳۰عام الفیل کو خانہ کعبہ میں ہوئی ولادت کے تین دن تک آپ نے اپنی آنکھیں نہیں کھولیں لوگ کہنے لگے کہ شاہد آپ دیکھنے سے قاصر ہیں لیکن جب نبی پاکؐ حضرت علی ؓ کو اپنی آغوش رحمت میں لیا تو آپ نے اپنی آنکھیں کھو لیں گویا آپ پیدا ہوتے ہی سرکار کے عاشق تھے اور دنیا میں سب سے پہلے جس مقدس ہستی کا آپ پہلی بار دیدار کرنا چاہتے تھے وہ رسول خداؐ کی بابرکت ذات ہے آپ نے رخ مصطفی کی زیارت کے لئے تین دن تک آنکھ ہی نہ کھولی آپ نے حضور پاک ؐ کے سایہ رحمت میں اپنی پرورش پائی انہی کی گو دمیں ہوش سنبھالااور زبان رسالت کو چوس چوس کر پروان چھڑے اور علم الہیٰ کے لامحدود خزانے سینہ نبوت سے حاصل کئے آپ کی پہلی تربیت گاہ ہی گود نبوت و رسالت تھی آپ نے سرکار کی باتیں سنیں آپ کی عادتیں سیکھیں اسی لئے تو بتوں کی پوجا کی نجاست سے آپ کا دامن کبھی آلود نہ ہوا یعنی آپ نے کبھی بت پرستی نہ کی اورآپ کو وجہہ اللہ کا لقب عطاہوا نو عمر لوگوں میں آپ سب سے پہلے اسلام لائے اس وقت آپ کی عمر مبارک ۱۰سال تھی بعض نے ۹سال اور کچھ نے ۸ برس یا اس سے بھی کم روایت کی ہے۔۹ ہجری میں حضرت علیؓ نے جوار کعبہ میں کھڑے ہو کر سورۃ برآت کی تلاوت کی جس سے زمانہ جا ہلیت کی رسوم سے خانہ کعبہ پاک ہو گیا ۱۰ ہجری میں سرکار کے حکم سے آپ یمن کے سفیر بن کر اہل یمن کو دعوت اسلام دینے گئے جس پر کثیر تعداد نے مذہب حق قبول کیا قدرت نے آپ کو بہت سی خصوصیات عطا فرمائیں آپ فن کتابت کے بھی ماہر تھے آپ کے ہاتھ کا لکھاہوا قرآن پاک امام رضا ؓ کے عجائب گھر میں موجود ہے آپ مسند قضاء پر بہترین قاضی تھے آپ کے فیصلے آج بھی دنیا کی عدالتوں میں اتھارٹی کے طور پر استعمال ہوتے ہیں آپ نے لوگوں کو قرآن کے ساتھ باقی سابقہ کتب آسمانی اور صحیفوں کا علم بھی پڑھایا آپ نے علم قرات،علم الاعداد،علم الفرائض، علم کلام،علم خطابت،علم معانی و بیان،علم منطق،علم صرف و نحو،علم لغت،علم فقہ،علم نجوم،علم رمل،علم جفر،علم نفسیات،علم فروض،علم بدہیات اور علم حکومت رانی میں وہ انمول موتی سپرد انسانیت کئے کہ رہتی دنیاتک جادہ حق و صداقت پر چلنے والوں کے لئے مشعل راہ کے طور پر راہنمائی کرتے رہیں گے سرکار مدینہ ؐ کے ظاہری وصال کے بعد حضرت علی ؓ نے مسلمانوں کی خدمت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی آپ نے خلفائے ثلاثہ کے دور میں ہمیشہ انھیں مفید مشورے دئیے سڑکوں کی تعمیر سے لے کرجنگ کے آداب تک میں مدد فرماتے رہے مسند خلافت پر بیٹھنے کے بعد کسی سے انتقام لینے کی بجائے اسلام کے تحفظ کے لئے کوشاں رہے آپ وہ صحابی رسول ؐ ہیں جن کے بارے میں لسان نبوت نے فرمایا کہ علی ؓ تم میرے لئے ایسے ہو جیسے موسیٰ کے لئے حضرت ہارون تھے مگر ہارون بنی تھے تم نبی نہیں ہو آپ سے حضور پرنورؐ کی ۱۸۶ احادیث مروی ہیں اور جو احادیث آپ کی فضلیت میں وارد ہو ئیں اور کسی صحابی کی شان میں وارد نہیں ہوئیں آپ کی شان میں ۳۰۰قرآنی آیات نازل ہوئیں چونکہ فرمان رسولؐ ہے علی قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علی کے ساتھ ہے یہ دونوں مجھ سے جداہو کر کوثر پر مل جائیں گے آپ کی ولایت پر قرآن خودگواہی دے جودوسخا پر قرآن گواہی دے فضل و عطا و بخشش پر قرآن گواہ ہے قرآن آپ کی عبادت و ریاضت،زہد و اتقاء،کا گواہ ہے آپ کی ذات جامع کمالات ہے آپ پروردہ رسالت،شہنشاہ اقلیم ولایت، اور مرکز عقیدت ہیں آپ کی خداداد شجاعت تاریخ اسلام میں ضرب المثل بن چکی ہے آپ کے بارے سرکار پر نور ؐ نے فرمایا جس کا میں صاحب (مولیٰ) ہوں علی بھی اسکا صاحب (مولیٰ) ہے پھر فرمایا الہیٰ جو شخص علی سے محبت رکھے تو بھی اس سے محبت رکھ اور جو علی سے بغض رکھے تو بھی اس سے بغض رکھ پھر فرمایا کہ علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں آپ کی محبت مومن کی علامت ہے کیونکہ سرکار ؐ نے فرمایا کے مومن علی سے محبت کرے گا اور منافق بغض رکھے گا بلکہ ترمذی میں ابو سعید سے روایت ہے کی ہم منافق کو بغض علی سے پہچانتے تھے۔ آپ ہی کے بارے میں نبی پاکؐ نے فرمایا تمام لوگ مختلف درختوں کی شاخیں ہیں جبکہ علی اور میں ایک درخت سے ہیں پھر فرمایا کہ علی کے چہرے کو دیکھنا عبادت ہے حضرت علی ؓ سرکار کے سچے غلام اور عاشق رسول تھے محبت رسول کا یہ عالم تھا کہ سرکار دوعالم جب کبھی حالت جلال کی کیفیت میں ہوتے تو سوائے حضرت علیؓ کے کسی کی مجال نہ تھی کہ سرکار سے گفتگو کر سکے آپ میں ۱۸ ایسی صفات تھیں جو کسی صحابی میں نہیں سرکار ؐ نے فرمایا جس نے علی کو تکلیف دی اس نے خود مجھے تکلیف دی دوسرے روایت میں ہے کہ جس نے علی کو محبوب رکھا اس نے مجھے محبوب رکھا جس نے علی سے دشمنی کی اس نے مجھ سے دشمنی کی اور جس نے مجھ سے دشمنی کی گویا اس نے اللہ سے دشمنی کی ایک اور روایت میں آتا ہے کہ جس نے علی کو برا کہا اس نے مجھے برا کہا جو فضیلت آپ کو ملی وہ کسی کو نہ ملی۔آپ کا سب سے بڑ ایہ اعزاز ہے کہ آپ کی شادی سیدہ،طیبہ،طاہرہ،زاہدہ،کاملہ،عابدہ۔خاتون جنت جگر گوشۂ رسول کریم ؐ حضرت بی بی فاطمہ سے ہوئی در حقیقت جو آپ کی ولایت کا منکر ہے وہ نبوت کو منکر ہے جو فیض علی کا منکر ہے وہ فیض رسول کا منکر ہے جو حب علی کا منکر ہے وہ حب رسول کا منکر ہے اور جو حب رسول کا منکر ہے وہ حب خدا کا منکر ہے چنانچہ سرکار مدینہ نے ارشاد فرمایا کہ جو مجھ پر ایمان لایا میری نبوت کی تصدیق کی میں اس کو وصیت کرتا ہو ں کہ وہ ولایت علی کو مانے جس نے علی کی ولایت کو مانا اس نے میری نبوت کو ماناسیدہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے مروی ہے کہ جب ان کے سامنے حضرت علیؓ کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا علی سے زیادہ علم سنت کے جاننے والا کوئی نہیں ہے حضرت علیؓ میں علم کی قوت ارادے کی پختگی،مضبوطی،اور استقلال موجود تھا آپ احکام فقہ و سنت میں ماہر تھے آپ جسم کے فربہ تھے اکژ خود استعمال کرتے جس کی وجہ سے آپکے سر اقدس کے بال مبارک کم ہو گئے تھے نہایت قوی میانہ قد مائل بہ پستی تھے دنگ گندمی تھا آپ کی ریش مبارک گھنی اور دراز تھی جو آج کل کے(مومنین) جو ان کی محبت کا ہر پل دم بھرتے ہیں ان کیلئے نمونہ ہے آپ فرماتے کہ مجھے نبی پاک ؐ سے علم ایسے ملا جیسے پرندہ اپنے بچے کو غذا دیتا ہے کسی نے کہا حضرت علیؓ کیا یہ مثال درست نہیں کہ جیسے ما ں اپنے بچے کو دودھ پلاتی ہے تو حضرت علیؓ نے فرمایا ہر گز نہیں وہ اسلئے کہ ماں کھاتی کچھ ہے پلاتی کچھ ہے یعنی اناج کھا کر دودھ پلانے سے چیز کی اصلیت میں تغیر و تبدل واقع ہو جاتا ہے جبکہ پرندہ جو خود کھاتا ہے وہی دانہ من و عن بچے کے منہ میں ڈال دیتا ہے آپ بہت کامل و اکمل تھے۔

٭٭٭

مزید :

ایڈیشن 1 -