ناصِر زیدی: بقلم خود!
میرے کرایے کے مکان میں ، جہاں صرف مَیں یعنی منکہ مسمی ناصِر زیدی اپنی یادوں اور کتابوں کے ساتھ رہتا ہوں، گزشتہ ہفتے سے وائٹ واش، ڈسٹمپر، رنگ، روغن اور پوشش کا کام جاری ہے۔ مستری راج مزدور جو مالک مکان کے ایما پر اندر داخل ہو چکے ہیں، اب اپنی مرضی سے ہی باہر نکلیں گے، بہرحال ان کی وجہ سے اگرچہ میرا غیر تخلیقی کام، کاج خاصا بڑھا ہوا ہے، تاہم ایک بڑا فائدہ بھی ہو رہا ہے۔ بہت سی کتابیں، اور پرانی ڈائریاں وغیرہ اوپر نیچے یعنی اُتھل پتھل ہو رہی ہیں تو بعض دلچسپ چیزیں بھی سامنے آ رہی ہیں۔ ایک ڈائری کا ورق اچانک منہ کھولے میری طرف تک رہا ہے۔ یہ 13جولائی 2013ء کی یعنی آج سے ٹھیک چار سال پہلے کی تحریر ہے۔ لکھا ہوا ہے:’’ آج کوئی صاحب غلام نبی اعوان نامی میرے موبائل فون پر وارد ہوئے ،دعا نہ سلام، حال نہ احوال۔ حکم صادر ہوا۔ غالب کا ایک مصرع ہے:
اُلٹے پھر آئے درِ کعبہ اگر وا نہ ہُوا
اس کا پہلا یا دوسرا مصرع درکار ہے۔عرض کیا ’’دیوانِ غالب‘‘ میں ’’ا‘‘ کی پٹی میں مذکورہ مصرعے والی غزل دیکھ لیجئے گوہرِ مُراد مل جائے گا‘‘۔۔۔ کہنے لگے ’’ا‘‘ کی ردیف والی اس غزل میں تو یہ شعر ہی نہیں ہے یعنی:
مَیں نہ اچھا ہُوا بُرا نہ ہُوا
پھرعرض کیا، یہ غزل دوسری ہے، متذکرہ مصرعے والی بحر میں نہیں ہے۔ صحیح غزل دیکھئے! مَیں اس وقت اخبار’’پاکستان‘‘ کے لئے اپنا کالم ’’بادِ شمال‘‘ لکھ رہا ہوں، آپ کا مطلوبہ مصرع ذہن میں پھر رہا ہے، صحیح یاد نہیں آ رہا غلط سلط نہ ہو جائے، آپ ’’دیوانِ غالب‘‘ ایک بار پھر دیکھ لیجئے۔۔۔!ارشاد ہوا: ’’ہمیں تو کہا جاتا ہے، آپ اشعار کی ڈکشنری ہیں، شعروں اور شاعروں کے انسائیکلو پیڈیا ہیں‘‘۔۔۔بڑے تحمل سے پھر عرض کیا: ’’یہ ہوائی کسی دشمن نے اُڑائی ہوگی‘‘۔۔۔ کہنے لگے ’’ڈاکٹر گوہر نوشاہی نے بتایا تھا‘‘۔ مَیں نے کہا ’’پھر انہیں پکڑیئے، مَیں تو ادب کا ایک ادنیٰ طالب علم ہوں اور بس۔۔۔پیٹ پر پتھر باندھ کے کتابیں خریدتا ہوں، پڑھتا ہوں، جمع کرتا ہوں ور حسب المقدور اَوروں کے کام بھی آ جاتا ہوں۔!
شدید بُرا مناتے ہوئے فیصلہ صادر کیا ’’آئندہ کبھی آپ کو زحمت نہیں دوں گا‘‘۔ اور فون بند کر دیا۔میرا تلازمہ ء خیال ٹوٹ چکا تھا:
گیا ہو جب اپنا ہی جیوڑا نکل
کہاں کی رباعی کہاں کی غزل
کالم ادھورا ہی دَھرا رہ گیا۔ وہ کالم دراصل اب شروع ہو رہا ہے۔ ’’بقلمِ خود‘‘ قارئین سے مخاطب ہوں۔ خدا لگتی کہیے۔ مَیں کہاں پر غلط تھا؟ مَیں نے آج تک کب اپنے کسی کالم میں یا کسی بھی تحریر میں بقلم خود یہ دعویٰ کیاکہ ’’ہمچوما دیگرے نیست‘‘ میں عقلِ کُل ہوں نہ بزعم خویش اشعار کی ڈکشنری ہوں، نہ ہی مَیں برخود غلط شخص ہوں کہ شاعروں اور اشعار کا انسائیکلو پیڈیا کہلاؤں۔ یہ کام کرنے کے لئے اور بہت سے ’’علامے‘‘ موجود ہیں۔ پھر کسی اَن ہوئی، اِن کہی بات کا مُوردِ الزام میں کیوں؟ دوسرے جو مرضی کہتے پھریں اُس کا ذمہ دار میں کیسے؟
ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری کے بقول ’’دیوانِ غالب‘‘ ہندوستان کی ایک الہامی کتاب ہے۔ اس الہام کو پڑھنے سمجھنے کے لئے بھی تو کوئی اہل بندہ ہونا چاہیے۔ غالب ہر کس و ناکس کی پکڑ میں نہیں آتا۔ اس کے اشعار کا ایک لفظ بھی کوئی اِدھر سے اُدھر کرنے کی کوشش کرے تو اس کی کم از کم سزا ’’پاگل پن‘‘ ہے خواہ وہ یاس یگانہ چنگیزی ہو یا احمد ظفر۔یا پھر بزعمِ خود کوئی بھی غالب شکن۔ ہر عہد پر غالب، میرزا اسد اللہ خان غالب نے بجا طور پر یہ دعویٰ بھی کر رکھا ہے کہ:
گنجینہء معنی کا طلسم اس کو سمجھئے
جو لفظ کہ غالب مرے اشعار میں آوے
اس پس منظر میں سوال یہ ہے کہ آخر ہر شخص کو غالب پڑھنے کی ضرورت کیا ہے؟[وہ جمیل یوسف کو کیوں نہ پڑھ لے۔] خصوصاً کسی ایسے شخص کو جس کو ’’دیوانِ غالب‘‘ کھول کر دیکھنے کے باوجود یہ بھی سمجھ بوجھ نہ ہو کہ قافیہ، ردیف یکساں ہونے کے باوصف بحر بدل بھی سکتی ہے۔ غالب کی غزل کا مذکورہ مصرعے والا مطلع ہے:
درد منت کشِ دَوا نہ ہُوا
میں نہ اچھا ہُوا بُرا نہ ہُوا
کچھ تو پڑھیے کہ لوگ کہتے ہیں
آج غالب غزل سرا نہ ہُوا
یہ غزل چھوٹی بحر میں ہے اور ’’کرم فرمائے من‘‘ کا مطلوبہ مصرعے والا شعر قافیہ، ردیف ایک ہونے کے باوجود لمبی بحر میں اس طرح ہے:
بندگی میں بھی وہ آزادہ و خُود بیں ہیں کہ ہم
اُلٹے پھر آئے درِ کعبہ اگر وا نہ ہُوا
اور غالب کی اسی غزل کا مقطع بھی بہت مشہور ہے:
تھی خبر گرم کہ غالب کے اُڑیں گے پُرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشا نہ ہُوا
قصۂ زمین برسرِ زمین ایک مختصر سا حقیقی واقعہ یہاں تمام ہُوا، اب دوسرا ’’ایپی سوڈ‘‘ ملاحظہ ہو۔۔۔! موبائل فون کھڑکا، جی! السلام علیکم‘‘ کہہ کر مخاطب ہُوا۔ وہی سلام نہ دعا، حال نہ احوال ، تعارف نہ اتا پتا فوری ارشاد ہوا۔ ’’مَِیں صدرِ آزادکشمیر کی تقریر لکھ رہا ہوں‘‘۔۔۔وہ جو شعر ہے ’’شہید کی جو موت ہے، وہ قوم کی حیات ہے‘‘ اس کا پہلا یا دوسرا مصرع کیا ہے؟ اور شاعر کون ہے؟ بتایا کہ شاعر تو ہیں ’’مولانا عبدالمجید سالک ان کا مطبوعہ مجموعہِ کلام ہے‘‘ راہ و رسمِ منزل ہا‘‘ اگرچہ کم یاب ہے مگر کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی لائبریری سے مل جائے گا۔ مکمل نظم جس کا یہ ایک مصرع ’’ضرب المثل‘‘ بن چکا ہے، اس مجموعے میں دیکھ لیجئے!
کہنے لگے،’’آپ کے پاس ہے؟‘‘ عرض کیا میری تباہ شدہ ذاتی لائبریری میں موجود تو تھا‘‘۔ لائبریری لٹ پٹ چکی ہے تاہم کہیں ڈھونڈنا پڑے گا۔ ارشاد ہُوا متعلقہ نظم کے صفحے یا صفحات کی فوٹو کاپی کراکے بھجوا دیں۔ مَیں صدر آزاد کشمیر کی تقریر لکھ رہا ہوں‘‘۔۔۔! اب قارئین ایمانداری سے فیصلہ کریں! آپ کسی بھی صدر کی تقریر لکھ رہے ہوں۔ مفت تو نہیں لکھ رہے، مَیں قلم کا مزدور، پہلے کتاب ڈھونڈوں، پھر فوٹو کاپی کرانے بازار جاؤں، پھر کوریئر سروس سے بھجواؤں، یہ ساری ذہنی و جسمانی مشقت کس لئے؟ کہ آپ صدر کی تقریر لکھ رہے ہیں اس لئے میرا فرض ہے کہ نوواردوں کو ’’مفت سروس‘‘ مہیا کروں کیونکہ میں نے وزرائے اعظموں اور صدورِ مملکت سے 19ویں گریڈ کے کنٹریکٹ کی لگی بندھی تنخواہ کے علاوہ پجارو، پلاٹ، کوٹھی، بیٹوں کے لئے اعلیٰ ملازمتیں اور نجانے کیا کیا مراعات حاصل کر رکھی ہیں اور اب عیش و عشرت کے ’’شیش محل‘‘ میں فروکش ہوں!
اب تیسرا اور آخری ’’ایپی سوڈ‘‘ ملاحظہ ہو۔ محترم المقام عبدالقادر حسن نے ایک بار فون پر پوچھا۔’’یہ جو پروین شاکر کا ایک مصرع ہے، اس کا پہلا یا دوسرا مصرع کس طرح ہے؟‘‘۔۔۔ مَیں نے عرض کیا۔ محترم! پہلے یہ فرمایئے:’’کیا اب مَیں اپنے سے انتہائی جونیئر شاعروں اور شاعرات کا کلام بھی حفِظ کروں‘‘؟ ۔۔۔ بات ان کی سمجھ میں آ گئی۔ شریف انسان ہیں، پھر کبھی ایسا سوال نہیں کیا۔ پروین شاکر کا ایک شعر مجھے یاد آ گیا:
مدتوں بعد اُس نے آج مجھ سے کوئی گلہ کیا؟
منصبِ دلبری پہ کیا مجھ کو بحال کر دیا
اور اب چھوٹی بحر میں میری ایک ابتدائی غزل کا مطلع ملاحظہ ہو، جو ’’محترمہ‘‘ کی بطور شاعرہ پیدائش سے برسوں پہلے کا مطبوعہ ہے:
آپ نے یہ عجب کمال کیا
منصبِ عشق پر بحال کیا
ناصر زیدی
0332-4423335 0301-4096710