کربلا اک آفتاب
واقعہ کربلا تاریخ اسلام کا وہ سانحہ ہے کہ جس پر جتنا ماتم کیا جائے،اس تکلیف کی شدت کے نشاں مدھم نہیں پڑتے،یہ سلسلہ حق و باطل جاری و ساری ہے، کوفی و یزیدی بھی اپنے ذریات سمیت وار کرنے سے نہیں چوکتے اور حق کی کمزور آواز بھی دبانے کا ہر حربہ استعمال میں لایا جاتا ہے۔یزید ایک فلسفہ کا نام ہے،ابن زیاد کی مثال سے واضح ہے کہ جو پیسے کے لیے بک گیا،کسی لالچ،خوف یا مصلحت کے لیے بک گیا،اس کا تعلق یزیدی فرقے سے ہے۔تمام زمانوں کی تاریخ میں بھی یکساں نمایاں ہے کہ مادی ترقی سے زیادہ کوئی چیز زوال پذیر نہیں،یزیدیت جب جب میکانکی مہارت کے نشے میں سرشار ہوتی ہے۔تاریخ کی اذیت ناک سوزش کا شکار ہو جاتی ہے، کوفی کا تعلق کفر سے ہے سو ہر دور میں ظالم کفر و ظلم کی تشہیر کے ساتھ ہیں اور دل پہ سختی و بے حسی کی مہر لگائے ظلم کی یہ روایت زندہ رکھے پر مصر ہیں۔اہل کفر کی مخالفت میں اصل بنیاد جذبہ استکبار ہے،احساس برتری کی بیماری،کھلم کھلا انکار اور تصادم، مکاری و عیاری کا مزاج لیے مخالفانہ سرگرمیاں ازل سے جاری ہیں۔حسینیت بہادرانہ و جرأت آموز جسارت حق ہے اور یزیدیت بزدلانہ شرارت و مخالفت بہ مبنی بر تشدد ہے۔ دشت تو دشت دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے "کے مصداق ظلمت کے یہ داعی انسان تو انسان، جانوروں کو بھی بخشنے کو تیار نہیں۔انسانیت سے گرے یزیدی گروہ کے پاس ہر عمل کی تاویل ہے، کتے، بلیوں اور پرندوں پر سنگ باری کے ساتھ کہیں اونٹ کی ٹانگ کاٹ کر مطمئن ہیں کہ وہ کھیت میں کیوں گھسا اور کہیں بھینس کی زبان کاٹ کر دلیل دے رہے ہیں کہ اس نے گھاس کیوں کھائی، باپ اپنے بچوں کے گلے کاٹ کر خود کو حسینی سمجھتا ہے اور ماں بچوں کو نہر میں پھینک کر ماتم کناں ہے، کہیں نور مقدم لاتعداد زخموں کے ساتھ مقتول ہے، تو کہیں سارہ ان گنت چوٹوں سے مضروب سوال کرنے کے قابل نہیں رہی۔ ثانیہ زہرہ کو پنکھے سے لٹکا کر انصاف کے تقاضے پورے کرنے والوں کو کون یذیدی کہے گا، کہ بات تو جائیداد کے حصہ کی تھی،انا کے پردوں میں لپٹی مصنوعی غیرت کو اسلام کا نام دے کر کاروکاری اور اعضاء کاٹنے والوں کے جسموں میں تیرتے یزیدی خون کو پاک قرار دینے والے کون سی حسینیت کے دعوی دار ہیں۔کوفہ سے جاری یہ ظلم عظیم چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کی صورت انسانیت کی تصویر داغ دار کرنے میں مشغول ہے،اب جنگ یزیدی کرداروں تک آ پہنچی ہے۔کمیٹی سازوں کا ہر فیصلہ اس احساس جرم کا نتیجہ ہے جہاں نظام فلاح اور انصاف کی قربانی دی گئی ہے،اس جرم کا کفارہ بھی جرم ہی ہے۔
یزیدی عہد ہے امت کی رسوائی نہیں جاتی
حسینیت کے دعویٰ ہیں،کہیں پائی نہیں جاتی
یہاں جھکا جو سر تاج درویشی انھیں زیبا
وہ کیا پائیں کہ جن سے بوئے دارائی نہیں جاتی
(جلیل عالی)
حسینیت کو دیکھنے اور پہچاننے کے لیے وہ نظر چاہیے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نور شامل ہو۔ میرے نبی کا خلق، میرے نبی کی محبت، میرے نبیؐکا درگزر، میرے نبیؐکی رواداری، میرے نبیؐکے قدموں کی خاک سے عشق اور آل محمدؐ سے محبت انسانیت کی سوجھ بوجھ عطا کرتی ہے۔ حسینیت کا فلسفہ سمجھاتی ہے۔ واقعہ کربلا کو معمولی نہ سمجھا جائے کیونکہ یہ جنگ کفر کے خلاف حق کی تھی۔ لڑنے والوں کی تعداد میں کمی بھی حق کے راستے میں حائل نہ ہوئی۔ حضرت امام حسینؓ کا یزید کیخلاف جہاد مذہبی تعصب یا فرقہ واریت کی بناء پر نہ تھا بلکہ اسلام کے تحفظ کے لئے تھا۔ آج بھی مسلمان کردار کے بحران سے گزررہے ہیں۔ نبی اکرم ؐ، خلفائے راشدین اور امام حسینؓ نے عملی کردار کے جو روشن نمونے پیش کیے ہم ان پر عمل کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں مگر اپنے پسندیدہ خلفا، صحابہ اور اماموں کے نام پر ایک دوسرے کو قتل کرنے کیلئے تیار ہوجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت فرمائے اور صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
جب کبھی ضمیر کے سودے کی بات ہو
ڈٹ جاؤ تم حسینؓ کے انکار کی طرح