جمہوری عدلیہ بمقابلہ بادشاہی عدلیہ

جمہوری عدلیہ بمقابلہ بادشاہی عدلیہ
جمہوری عدلیہ بمقابلہ بادشاہی عدلیہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 سیاستدان معاملات کو خود سلجھانے کی بجائے آج کل عدالتوں کا رخ کرتے ہیں۔ پھر پتا چلتا ہے کہ فریقین برابر اور ٹکر کے ہیں۔ سیاسی مقدمات میں بعض منصفین کے میلانات مقدمات پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ فہرست طویل ہے لیکن چند نمونوں سے سب واقف ہیں:ثاقب نثار، کھوسہ، بندیال، گلزار، اعجاز الحسن، مظاہر اکبر نقوی وغیرہ۔ اعلیٰ سطحی مقدمات میں حکومتی موقف اور بسا اوقات درست موقف منصف کی خواہش کے برعکس ہو تو خبر یوں آتی ہے :"چیف جسٹس اٹارنی جنرل پر برہم" آپ گوگل سے کوئی ملتا جلتا جملہ مانگیں، جیسے "چیف جسٹس کی وکیل کو سرزنش" یا "اٹارنی جنرل پر جسٹس فلاں کی خفگی" یا "جج صاحب کی ایڈوکیٹ جنرل پر برہمی"آپ دیکھیں گے کہ سینکڑوں ہزاروں خبریں منہ چڑھا رہی ہوں گی۔ بار اور بینچ ایک ہی گاڑی کے دو پہیے ہیں۔ یہ جملہ بار اور بینچ دونوں سے سننے پڑھنے کو ملتا ہے ۔ گویا وکیل اور منصف برابری کی بنیاد پر آمنے سامنے آتے ہیں۔ اگر واقعتا ایسا ہے تو اٹارنی جنرل، ایڈوکیٹ جنرل اور وکلا پر کسی منصف کی برہمی کا کوئی جواز مجھے نہ تو کبھی عقل عام میں مل سکا اور نہ میں نے ان چند ملکوں میں کبھی دیکھا سنا جن کے ججوں عدالتوں سے مجھے متعدد مرتبہ ملنے جلنے کے مواقع ملتے رہے ۔

سیشن ججوں اور عدالتی زمروں کے افسروں کو میں مدینہ ہائی کورٹ میں لے گیا۔ رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل عبداللہ عمر نصیف سے مکہ میں ہماری ملاقات میں سعودی رابطہ افسروں کو ہدایت ہوئی کہ عدالتی کارروائی دکھاتے وقت ان کا خاص خیال رکھا جائے ۔1991ءکی بات ہے ، موبائل نہیں ہوتے تھے ۔ سعودی ہمیں مدینہ ہائی کورٹ لے گئے تو داخلے سے قبل رابطہ افسروں نے رجسٹرار کو بتا دیا کہ ان شاہی مہمانوں نے عدالتی کارروائی دیکھنا ہے ۔ ہم 30کے لگ بھگ لوگ تھے لہٰذا کمرہ عدالت میں ہمارے داخلے پر کرسیاں کم پڑ گئیں لیکن عملہ ادھر ادھر سے لے آیا۔ چیف جسٹس نے حکم دیا کہ ان کا گروپ لیڈر میرے ساتھ بیٹھے گا پھر اگلے مقدمے کے فریقین کا بلاوا آگیا۔

کمرہ عدالت کا منظر ملاحظہ ہو۔ بھرے ہال کے سامنے رخ پر صرف تین کرسیاں لگی تھیں۔ جج، مدعی اور مدعا علیہ کے لیے ۔ میرے لیے جج کا حکم عملے تک نہ پہنچ سکا۔ دروازے پر خیر مقدمی آداب سے فارغ ہو کر وہ میرا ہاتھ پکڑے اپنی کرسی کی طرف بڑھے تو وہاں میری کرسی نہیں تھی۔ جج نے ہال پر طائرانہ نظر ڈالی تو انہیں پچھلی صف میں خالی کرسیاں نظر آئیں۔ آپ کی مرضی مانیں نہ مانیں روزے کی حالت میں لکھ رہا ہوں۔ مدینہ ہائی کورٹ کے جج صاحب بڑی متانت سے خود ایک کرسی اٹھا لائے۔اسے اپنی کرسی کے ساتھ رکھ کر مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ یہاں تک شاید کچھ باعث تعجب نہ ہو۔ تعجب اس پر ہوا کہ جسٹس صاحب کے ماتحت عملے نے اس واقعے کا کوئی نوٹس تک نہیں لیا۔ میں نے دیکھا کہ ان کے ماتحت عملے کے سب لوگ اپنی کرسیوں پر بیٹھے انہماک سے کام کر رہے تھے ۔ رہا کوئی خادم تو صاحب کم از کم میں نے تو وہاں کوئی خادم نہیں دیکھا۔

سماعت شروع ہوئی۔ مدعا علیہ نے مدعی کی ایک موٹی رقم دینا تھی۔ ثبوت نہ ہونے کے سبب نچلی عدالت سے مدعی کا دعویٰ خارج ہو گیا تھا۔ اپنی باری پر وہ جو بولنا شروع ہوا تو بولتا ہی گیا۔ باتیں الل ٹپ اور بے ربط تھیں لیکن سب پر واضح ہو گیا کہ عدم ثبوت کے باوجود وہ سچا ہے ۔ مجال ہے جو جج نے اسے ٹوکا ہو۔ بول بول کر وہ خود چپ ہوا تو جج نے میرا ہاتھ پکڑ کر مسکراتے ہوئے پوچھا:"ہاں بھئی پروفیسر! تمہاری فقہ کیا کہتی ہے یہاں تو ثبوت ہی نہیں٬ کیا کیا جائے "یہ سنتے ہی مدعی پھر چیخنے لگا: "قاضی صاحب یہی تو میں کہہ رہا ہوں،نچلی عدالت نے عدم ثبوت ہی پر میرا دعویٰ خارج کیا تھا۔ میں صبر کر کے چلا گیا۔ پھر کسی نے بتایا کہ ثبوت نہ ہوں اور مدعا علیہ انکار کرے تو اسے قسم اٹھانا پڑتی ہے ۔ تمہارے ماتحت جج نے صرف عدم ثبوت پر میرا دعویٰ خارج کر دیا تھا۔ کیسے جج رکھے ہوئے ہیں تم نے ؟ جج نے مدعا علیہ سے قسم کیوں نہیں لی، کیوں مجھے دوبارہ عدالت آنا پڑا".

 1991ئ کے اس مقدمے کو چھوڑیے ۔ تازہ ترین ملاحظہ ہو۔ 37کروڑ ڈالر فریب کاری کے فوجداری مقدمے میں سابق امریکی صدر ٹرمپ بطور ملزم پیش ہو کر بیان دے رہے تھے تو جسٹس انگورن کی مداخلت پر انہوں نے بھری عدالت میں جسٹس انگورن کو یوں ڈانٹ پلائی:"تمہارا بھی اپنا ایجنڈا ہے . تم ایک منٹ سے زیادہ نہیں سن سکتے "اور جسٹس انگورن ٹرمپ کے وکیل کو بس یہی کہہ سکے :"اپنے موکل کو قابو میں رکھو"۔ توہین عدالت نہ کوئی دھمکی! (روزنامہ جنگ 12 جنوری 2024ئ)

مت سمجھ لیجئے کہ میں صرف ایک واقعے سے نتائج نکال رہا ہوں۔ سعودی عرب، ترکی، مصر، جنوبی افریقہ اور فلپائن کی عدلیہ اور ان کے ججوں سے متعدد بار واسطہ پڑا۔ لیکن جو حشر بداماں اور نو آبادیاتی غلاظتوں میں لت پت اپنی عدلیہ میرے 45سالہ تجربے میں آئی۔ اس کا عشر عشیر بھی میں ان چند ملکوں میں کہیں نہیں دیکھ سکا۔ بین الاقوامی درجہ بندی میں 10پست ترین درجوں کی عدلیہ کے جج صاحب کے گاڑی سے اترتے ہی ایک خادم دروازہ کھولنے کو حاضر، ایک صندوقچہ اٹھانے والا، آگے ایک اور کمرے کا دروازہ کھولنے کو حاضر۔ اعلیٰ حضرت کرسی پر تشریف رکھیں تو الگ سے کئی خدام ادب۔ اور یہ سب نیم خواندہ معززین جوڈیشل الا_¶نس بھی پاتے ہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ ان ان پڑھ خدام کی تنخواہ ہمارے ان سینٹروں اور ارکان اسمبلی سے بڑھ کر ہے کہ اسمبلیاں بحال ہوتے ہی جن بیچاروں کی "تنخواہوں"پر واویلا مچ جاتا ہے ۔

خود مجھے قاضی فائز عیسی سے بہت ہی امیدیں تھیں۔ لیکن افسوس وہ سیاسی مقدمات کی پرچھائیوں کے تعاقب میں لگ چکے ہیں۔ بھٹو مرحوم کے مقدمے میں خود ہاتھ ڈالنے سے بہتر تھا کہ وہ عدلیہ کے بجٹ پر پلتے اپنے ان سینکڑوں خون آشام پسو_¶ں جونکوں پر توجہ کرتے جن کا کام محض دروازہ کھولنا، کرسی کھینچنا، اور صندوقچہ تھامنا ہے ۔ ان لوگوں کے یہ بریگیڈ کے بریگیڈ ختم کر دیے جائیں تو ملک بھر میں ججوں کی درجنوں نئی آسامیاں پیدا ہوں گی۔ یوں مخلوق خدا کو اس دنیا میں تو عذاب سے نجات ملے گی۔ کیا قاضی صاحب اس طرف کچھ کام کریں گے تاکہ انہیں جسٹس کارنیلس اور جسٹس سجاد علی شاہ کی طرح یاد رکھا جائے یا وہ ثاقب نثار، کھوسہ، بندیال وغیرہ کی طرح بس ریٹائر ہونا پسند کریں گے ۔ انہوں نے خود بھی ایک عدالت میں پیش ہونا ہے ۔ وہاں کوئی اور ان کے خلاف مدعی ہو نہ ہو، میں تو چیخ چیخ کر ان کے خلاف بولوں گا: "اے اللہ میاں ! ان جج صاحب کو میں خوب توجہ دلایا کرتا تھا"۔

مزید :

رائے -کالم -