بشریٰ بی بی کی باپردہ سیاست

   بشریٰ بی بی کی باپردہ سیاست
   بشریٰ بی بی کی باپردہ سیاست

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

نواز شریف جیل میں تھے تو کلثوم نواز بات کرتی تھیں جسے پارٹی کے دیگر لیڈر سنیں نہ سنیں، پارٹی کے ووٹر سپورٹر ضرور سنتے تھے۔ آج وہی کردار بشریٰ بی بی کو ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ بشریٰ بی بی ووٹروں سپورٹروں کو متحرک کرپاتی ہیں یا نہیں جنھیں خدشہ ہے وہ 24 نومبر سے پہلے گرفتار ہو جائیں گی۔ فرق یہ ہے کہ مرحومہ کلثوم نواز نے ایک مرتبہ بھی ایسا بیان نہیں دیا تھا کہ جو ایم این اے یا ایم پی اے لوگوں کو نہیں لایا، پارٹی سے فارغ کر دیا جائے گا۔ گویا کہ پارٹی نہ ہوئی کوئی لمیٹڈ کمپنی ہو گئی جہاں ہائرنگ اور فائرنگ کی اتھارٹی کمپنی ڈائریکٹروں کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ 

خود بشریٰ بی بی کا حال یہ ہے کہ شروع میں بنی گالا میں نظربند ہو کر قید کاٹنے پر رضامند ہو گئی تھیں مگر جب سوشل میڈیا پر تنقید شروع ہو ئی تو خود عدالت پہنچ گئی تھیں کہ مجھے گھر میں نہیں، جیل میں قید کیا جائے۔ عاشقی معشوقی کی حد تک تو سنتے آئے تھے کہ خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں مگر اب سیاست میں بھی دیکھ لیا کہ پردے کے پیچھے سے سیاست کیسے ہوتی ہے۔

اخباری اطلاعات کے مطابق بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی پارٹی مشاورت میں شامل ہونے کی تصدیق ہوگئی ہے۔وہ بانی پی ٹی آئی کی ہدایات پارٹی تک پہنچائیں گی اور بتائیں گی کہ بانی پی ٹی آئی کی کیا ہدایات ہیں۔ اطلاعات یہ ہیں کہ گزشتہ روز پشاور میں ہونے والے اجلاس میں بشریٰ بی بی نے پارٹی رہنماؤں اور عہدے داروں کو احتجاج سے متعلق اہم احکامات جاری کردیے۔پی ٹی آئی ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا کہ بشریٰ بی بی نے 24 نومبر کو احتجاج میں ہر حلقے سے ایم این اے کو 10 ہزار اور ہر ایم پی اے کو 5 ہزار افراد ساتھ لانے کی ہدایت کی ہے۔ساتھ ساتھ یہ وارننگ بھی جاری کی ہے کہ جو ایم این اے یا ایم پی اے اپنے ساتھ لوگ نہیں لائے گا اسے پارٹی سے باہر کیا جائے گا اور جو پارٹی رہنما، ایم این اے یا ایم پی اے احتجاج سے پہلے گرفتار ہوا وہ بھی پارٹی سے باہر سمجھا جائے گا۔

مرحومہ کلثوم نواز پارٹی رہنماؤں، ایم این ایز اور ایم پی ایز پر تکیہ کرنے کی بجائے خود میدان عمل میں اترتی تھیں۔ بشریٰ بی بی کی کچھ روحانی مجبوریاں ہیں۔ وہ پردے سے باہر نہیں آسکتی ہیں اور جو کچھ بھی کرتی ہیں باپردہ ہی کرتی ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ انہوں نے نااہل پارٹی رہنماؤں، ایم این ایز اور ایم پی ایز کو پارٹی سے نکال باہر کرنے کی دھمکی ہی دی ہے، ڈریں اس وقت سے جب وہ کہیں گی کہ جو پانچ ہزار بندے نہیں لائے گا، وہ جادو ٹونے کے ذریعے اس کی نظر بند کردیں گی، جلا کر بھسم کردیں گی وغیرہ وغیرہ۔ 

روحانیت کی بڑی طاقت ہوتی ہے۔ بشریٰ بی بی چاہیں تو اپنے موکلوں کے ذریعے ایسا احتجاج برپا کرسکتی ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ تو اسٹیبلشمنٹ، امریکہ تک ہل کر رہ جائے گا لیکن کیا کریں کہ بشریٰ بی بی کے شوہر نامدار کے مطابق ان کی اہلیہ میں روحانیت نہیں رحونیت ہے اور رحونیت جس شخص کی شخصیت کا بھی حصہ بن جاتی ہے وہ دوسرے انسانوں کو انسان نہیں سمجھتا۔ اسی لئے تو انہوں نے پارٹی سے نکال باہر کرنے کی دھمکی دے دی ہے، حالانکہ ابھی وہ خود باقاعدہ پارٹی میں شامل نہیں ہوئی ہیں۔ یعنی ان کے گلے میں عمران خان نے پارٹی کا پٹہ نہیں ڈالا ہے۔ ہاں البتہ ان کی بیٹی کے حوالے سے ضرور ایک تصویر منظر عام پر آئی تھی جس میں عمران خان انہیں پارٹی کا جھنڈا گلے میں پہناتے نظر آئے تھے۔ 

میڈیا پر خوامخواہ کی ایک بحث شروع کردی گئی ہے کہ اپنی اہلیہ کو سیاست میں اتار کر عمران خان نے موروثی سیاست اپنالی ہے۔ میڈیا والے یا تو جانتے نہیں ہیں یا پھر جان بوجھ کر بھولے بادشاہ بنے ہوئے ہیں کیونکہ عمران خان نے تو خود سیاست میں کامیابی کے لئے بشریٰ بی بی کی مریدی اختیار کی تھی۔ یعنی وہ وزارت عظمیٰ کے عہدے پر پہنچے ہی تب تھے جب انہوں نے رن مریدی اختیار کر لی تھی۔ تب غالباً جاوید چودھری نے لکھا تھا کہ بشریٰ بی بی نے کہا ہے کہ جب تک عمران خان ان سے شادی نہیں کریں گے، وزیر اعظم نہیں بن سکیں گے۔ اس لئے وہ ناقدین جو بشریٰ بی بی کی باپردہ سیاست کو موروثیت سے جوڑ رہے ہیں، غلط فہمی کا شکار ہیں۔ بشریٰ بی بی عمران خان کی نہیں، عمران خان بشریٰ بی بی کی موروثیت میں ہیں اور ان کی وجہ سے ملک کے وزیر اعظم بنے تھے۔ اب اگر ایک پیر نی اپنے مرید کو مشکل سے نکالنے کے لئے چلہ کاٹنے پر آمادہ ہوہی گئی ہے، تو اس پر طرح طرح کی باتیں بنانے کی کیا ضرورت ہے؟ جونہی عمران خان جیل سے باہر آئیں گے، وہ دوبارہ اپنی رحونیت کی دنیا میں جابسیں گی۔

ہم نے گزشتہ کالم میں عرض کی تھی کہ عمران خان کو جیل سے نکالنے کے لئے بھی عمران خان کی ضرورت ہو گی جو ظلے شاہ جیسے معصوم ذہنوں کو ورغلا کر ساری ساری رات زمان پارک اپنی رہائش گاہ کے باہر بٹھا سکیں۔ بشریٰ بی بی اپنی روحانی طاقت کے بل بوتے پر کچھ کرسکیں تو کرلیں، پارٹی رہنماؤں، ایم این ایز اورایم پی ایز پر تکیہ کیا تو ان کا بھی وہی حال ہوگا جو اس سے قبل علیمہ خان کا ہوچکا ہے کہ پارٹی ورکروں کو نکالتے نکالتے خود جیل یاترا کر آئی ہیں۔ گرفتاری سے قبل وہ بھی کہتی پائی جاتی تھیں کہ پارٹی ورکروں کو گھروں سے نکلنا چاہئے!

مزید :

رائے -کالم -