مصر شروع سے ہی میرے لیے پرکشش اورپر اسرار رہا ہے، اس سرزمین پر قدیم فرعونوں اور پیغمبروں کے علاوہ یونانیوں اور رومیوں کی تاریخ بکھری پڑی ہے

مصر شروع سے ہی میرے لیے پرکشش اورپر اسرار رہا ہے، اس سرزمین پر قدیم فرعونوں ...
مصر شروع سے ہی میرے لیے پرکشش اورپر اسرار رہا ہے، اس سرزمین پر قدیم فرعونوں اور پیغمبروں کے علاوہ یونانیوں اور رومیوں کی تاریخ بکھری پڑی ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:  محمد سعید جاوید
قسط:3
پیش لفظ
میں کوئی 30 برس پہلے مصر گیا تھا۔ مصر، جو شروع سے ہی میرے لئے ایک بڑا ہی پُرکشش اورپر اسرار سا نام رہا ہے اور جہاں کی سرزمین پر قدیم فرعونوں اور پیغمبروں کے علاوہ یونانیوں اور رومیوں کی لامحدود تاریخ بکھری پڑی ہے۔حضرت یوسف علیہ السلام کا قصہ بھلا کسے یاد نہ ہو گا، جب وہ سوت کی انٹی کے عوض اسی مصر کے ایک بازار میں بک گئے تھے۔اسی طرح حضرت ادریس علیہ السلام اورحضرت یعقوب علیہ السلام کے علاوہ  حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی اس دھرتی پر بھیجے گئے تھے۔
  اب جب میں نے مصر کی سحر انگیزیوں پر کچھ لکھنے کا آغاز کیا تو میرے دوست یہ سوال کرتے ہیں کہ اگر آپ کو اس پراسرار خطے سے اتنی ہی لگاوٹ تھی تو ہمارے لئے اس کے سربستہ راز کھولنے میں اتنی تاخیر کیوں کی،  اتنے برسوں سے سوئے ہوئے تھے کیا؟
تو بات دراصل یہ ہے کہ لکھنا تو بہت پہلے ہی چاہتا تھا،مگر غم دوراں، غم جاناں، روزگار کی کشمکش اور پتہ نہیں کن کن بہانوں نے اتنا موقع ہی نہ دیا کہ جو کچھ وہاں دیکھا وہ تحریر میں لے آؤں۔ بس سر جھکا کر کولھو کے بیل کی طرح روزی روٹی کے حصول میں جتاُ رہا۔ فارغ ہوا تو اپنی خود نوشت لکھنے کے جنون نے آلیا، جو ”اچھی گزر گئی“ کے نام سے سامنے آئی اور بے حد مقبول ہوئی۔ اس کا ایک فائدہ مجھے یہ ہوا کہ مجھے اپنی یادداشت پر بڑا بھروسہ آگیا۔ سوچا کہ اگر میں پچاس ساٹھ سال پُرانے واقعات کو اتنے تسلسل، تفصیل اور سچائی سے تحریر کرسکتا ہوں تو مصر کا سفر تو کل کی بات ہے۔ حالانکہ اس دوران بہت سارا پانی پلوں کے نیچے سے بہہ چکا تھا۔ اب وہ بھی پہلے والا مصر نہیں رہا تھا جو میں نے دیکھا تھا۔ وہاں بھی سب کچھ بدل گیا تھا۔ تاہم میں نے محسوس کیا کہ اس وقت کے سیدھے سادے مصر کا احوال سنانے کا اپنا ہی ایک لطف ہوگا۔ کیونکہ تب یہ ملک بھی ہمارے وطن ہی کی طرح استعماری قوتوں کے چنگل سے نکل کر اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کی کوشش میں ہاتھ پیر مار رہا تھا۔ پچھلی چند صدیوں میں اس کی عنانِ حکومت کبھی فاطمیوں، کبھی ترکوں اور کبھی دور جدید کے بادشاہوں نے سنبھالی۔ پھر جب روس سے قربتیں بڑھیں تو یہ سوشلزم کی راہ پر چل نکلا، ان کا ساتھ چھوٹا، تو یہ بھی مغربی طرزحکومت کی طرف واپس آگیا۔ غرض گزشتہ صدی میں اس کے نظام حیات کو طے کرنے کے لئے طرح طرح کے تجربات کئے گئے۔مگر وہی روایتی اور فرسودہ نتائج سامنے آئے جو آج کل کے ترقی پذیر ملکوں کے مقدر میں لکھے ہوئے ہیں۔ہماری طرح دو بڑی جنگوں کے زخم اپنے وجود پر لئے ہوئے پچھلے ساٹھ پینسٹھ سال میں یہ ملک بھی آمروں کے چنگل سے نہ نکل سکا، جو نام بدل بدل کر آتے اور اس کا استحصال کرتے رہے۔
مصر کے فرعونوں کے بارے میں تو بچپن سے سکول کی درسی اور اسلامیات کی کتابوں میں پڑھا تھا،لیکن صرف ایک عام سی کہانی کی طرح،جو پڑھنے کے فوراً بعدہی بھول جایا کرتی ہے۔ پھر جب تخیل کا دائرہ تھوڑا وسیع ہوا تو ان کے کچھ اورقصے بھی منظر عام پر آنے لگے۔ اس وقت تو ایسا لگتا تھا کہ فرعون کوئی مافوق الفطرت لوگ تھے جن کا ذکر گوچند حوالوں تک ہی محدود تھا، تاہم ان کے اردگرد پھیلی ہوئی پُراسراریت کی وجہ سے ان کے حقیقی کردار عام لوگوں کے سامنے نہ آسکے۔ حضرت موسٰی کے حوالے سے ایک بے نام فرعون کا قصہ مقدس کتابوں میں آیا تھا اور تقریباً سب ہی لوگ اس واقعہ سے اچھی طرح واقف تھے۔(جاری ہے) 
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -