سیاح کے سامنے ہنزہ کی قدیم معاشرت اور ثقافت کی جیتی جاگتی تصویر

سیاح کے سامنے ہنزہ کی قدیم معاشرت اور ثقافت کی جیتی جاگتی تصویر
 سیاح کے سامنے ہنزہ کی قدیم معاشرت اور ثقافت کی جیتی جاگتی تصویر

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


مصنف : عمران الحق چوہان 
قسط:162
دیکھا جائے تو آذربائیجان سے اس خِطّے کے لوگوں کا ایک روحانی اور صوفیانہ تعلق اور بھی ہے۔ جن دنوں امام شمس الدین محمد آذر بائیجان میں تھے اسی زمانے میں مولانا روم ہی کے ہم عصر و ہم مسلک ایک داعی نے منگولوں کے حملے کے بعد آذر بائیجان کے شہر مروند سے ہندوستان کا رخ کیا اور سندھ میں شِو استھان یا سیہوان یا سہون کے مقام پر سکونت اختیار کی ۔ یہاں آکر انھوں نے خانقاہ کی بنیاد رکھی۔ بعض روایات کے مطابق ان کے بزرگ ایران سے ہجرت کر کے افغانستان کے شہر ملوندپہنچے اور وہاں سے ہجرت کر کے ہندوستان آئے تھے لیکن پہلی بات زیادہ قرینِ قیاس ہے۔ وہ حضرت علیؓ سے شروع ہونے والے قلندری سلسلے کے وہی معروف صوفی تھے جنھیں برصغیر کے مسلمان ”سندھڑی دا ، سیہون دا ،سخی شہباز قلندر ؒ “ (وفات 1274 )کہتے ہیں ۔عثمان مروندی یعنی لال شہباز قلندر ؒ (شہباز سے میرا دھیان پھر قلعہ الموت کی طرف جاتا ہے۔) ۔۔۔ دما دم مست قلندر ۔۔۔ ان سے عقیدت کا یہ عالم ہے کہ اس خطے کے ہندوباسی انہیں راجہ بھر تری اور وِشنُو کا اوتار قرار دیتے ہیں۔ انھیں سندھی زبان کا پہلا شاعر بھی کہا جاتا ہے ۔ برِ صغیر پاک و ہند میں شاید ہی کوئی شخص ایسا ہوگا جس نے ”لال مری پَت رکھیو بلا جھولے لالن۔۔۔۔“ نہ سنا ہو۔ میرا نہیں خیال کہ اس سے زیادہ مشہور اور مقبول کوئی اور منقبت ہو گی۔آج یہ بات بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ یہ منقبت ساغر صدیقی نے لکھی تھی اور ماسٹر عاشق حسین نے فلم ”دھیاں نمانیاں“ کے لیے اس کی دھن بنائی تھی، فردوس نے اس پر دھمال ڈالی تھی اور میڈم نورجہاں نے اسے گایا تھا اور۔۔۔ اور اس کے بعد کس نے اسے نہیں گایا ! 
تو بات ہو رہی تھی مولانا روم اور ان کے مرشد کی۔تصوف اور عشق کے حوالے سے دونوں شخصیات کو جو مقبولیت حاصل ہے وہ شاید ہی کسی اور کے حصّے میں آئی ہو۔ ان پر اور ان کے عشق پر بے پناہ لکھا گیا ہے جس میں اساطیر پر زیادہ انحصار کیا گیا ۔یہ موضوع ہر دور میں مقبول ِ عام رہا ہے۔ مولانا روم اور شمس تبریز کے عشق کے حوالے سے کچھ عرصہ قبل ترکی مصنفہ الف شفق نے ایک ناول لکھا تھا ، عشق کے40 اصول(Forty Rules of Love )، جو بہت مقبول ہوا تھا، مگر وہ ایک سطحی اور عامیانہ سا ناول تھا ۔۔۔ خیر واپس قلعہ بلتیت چلتے ہیں۔
 وہی تہہ خانوں کے تنگ و تاریک زندان، رہائشی کمرے۔کمروں کی کھڑکیوں میں رنگین شیشوں کے بندھے بستے جن سے سورج کی روشنی گزر کر کچے فرشوں پر کشمیری قالین بچھاتی تھی۔کمروں کی دیواروں پر تصاویر، آلات ِ رزم و بزم ، الماریوں میںزیورات اور ملبوسات، طاقچوں میں برتن، زمین پر دریاں، دیوان، فرنیچر اور خانہ داری کے برتن سجے ہوئے تھے۔ آرائش میں اس پہلو کا خیال رکھا گیا تھا کہ سیاح کے سامنے ہنزہ کی قدیم معاشرت اور ثقافت کی جیتی جاگتی تصویر آجائے۔ 
سیر سے فارغ ہو کر ہم حور شاہ صا حب کے دفتر میں آ بیٹھے تھے۔ حور صاحب نے سوغات کے طور پر ایک چائے کا مگ عنایت کیا جس پر قلعہ بلتیت کا بیرونی منظر نقش تھا۔ ایک مگ خرید کرمیں نے قلعے کے فنڈ میں اپنا حصہ ڈالاتھا۔۔۔۔۔ یہ کچھ سال پہلے کی باتیں ہیں۔(جاری ہے )
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔