میرا یومِ آزادی ِ، تب اور اب
اگست کا مہینہ میرے لیے دو پہلوؤں سے اہم ہے۔ ایک تو قیامِ پاکستان کی سالگرہ، دوسرے والد کی پیدائش جو یومِ آزادی سے ایک روز پہلے دنیا میں تشریف لائے۔ یہ مت سمجھیں کہ اُن کی ولادت اُسی سال ہوئی جب پاکستان علیحدہ مملکت کے طور پہ عالمی نقشے پر ابھرا تھا۔ جی نہیں، اُن کی پیدائش اگست 1924ء کی ہے جسے تازہ یومِ آزادی کی چاند رات کو پورے سو سال ہو گئے ہیں۔ آزادی کی چاند رات پر اپنی تئیسویں سالگرہ انہوں نے یو پی میں سہارنپور جنکشن کے ایک پلیٹ فارم پہ منائی۔ وجہ یہ کہ شاہجہاں پور سے عید کی چھٹیوں پر آبائی شہر سیالکوٹ تک کی مسافت میں انہیں لاہور پہنچانے والی ریلوے میل اُس رات غیر معمولی تاخیر کا شکار ہو گئی تھی۔ کچھ ہی دیر میں انکشاف ہوا کہ پنجاب میں ہنگامے پھوٹ پڑے ہیں اور کوئی ٹرین ڈرائیور آگے جانے کو تیار نہیں۔
حیرانی اِس لیے کہ شاہجہاں پور کینٹ کی آرمی کلودنگ فیکٹری کا یہ نوجوان سویلین روزنامہ ’ڈان‘ کا قاری ہونے کے ناتے سے فرقہ وارانہ کشیدگی سے آگاہ تو تھا، پھر بھی اِس زمینی سچائی سے لاعلم کہ کشیدگی فساد میں بدل چکی ہے۔ چنانچہ عید پر ضلع جہلم کے سید مظفر حسین شاہ اور سیالکوٹ کے یوسف سلہریا کے ہمراہ گھر جانے کے لیے معمول کا سفر 12اگست کو رات نو بجے شروع کیا۔ حالات کی سنگینی کا اندازہ اُس دم ہونے لگا جب سہارنپور اسٹیشن پر ٹرین کا انجن بدلنے کا انتظار شروع ہوا۔ والد بتاتے تھے کہ روانگی صبحِ کاذب کے وقت اِس لیے ممکن ہوئی کہ ایک اینگلو انڈین ڈرائیور پنجاب تک ٹرین لے جانے پر تیار ہو گیا تھا۔ چنانچہ فساد زدہ امرتسر سے گزر کر براستہ لاہور رات وزیرآباد پلیٹ فارم پر گزاری اور وہِیں اگلی صبح آزادی کے سورج کو سلام کیا۔
آج سرحد کے آر پار شائع شدہ مواد پر نظر ڈالیں تو متحدہ ہندوستان کے مختلف صوبوں اور ریاستوں کی سیاست بعض مشابہہ سوچوں کے باوجود الگ الگ حرکیات کے تابع دکھائی دے گی۔ مَیں نے (اپنی دانست میں) شعور سنبھالتے ہی قبل از پیدائش سیاست کا مشاہدہ والدِ محترم کی آنکھوں سے کیا تھا جن کے دوستوں کی موجودگی میں لارڈ ویول، ماؤنٹ بیٹن، چرچل، ایٹلی اور ریڈ کلف کے نام بار بار سُننے کو مِلے۔ اِس حد تک کہ بسا اوقات یوں لگتا کہ سب جان پہچان کے آدمی ہیں اور اِن میں سے کوئی نہ کوئی ابھی ابھی کمرے سے اُٹھ کر گیا ہے۔ اِسی لیے تو آزادی کے دنوں کی سیاست پر میری بے تکان گفتگو سُن کر کالج کے ایک ساتھی نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا تھا ”سچ سچ بتاؤ تمہاری اصل عمر کتنی ہے؟“
اب پیچھے مُڑ کر دیکھوں تو تھا یہ مسلم لیگ ہی کا یک طرفہ بیانیہ۔ وجہ وہی کہ برصغیر کی سیاست میں بس قائد اعظم ہمارے ابا کے لیے حرفِ آخر تھے جبکہ گھر میں مولانا ابوالکلام آزاد، خان عبدالغفار خان اور جی ایم سید سمیت نیشنلسٹ رہنماوئں کا نام لینا حرام تھا۔ عجیب بات کہ اِتنی شدید نفرت کا اظہار، سردار ولبھ بھائی پٹیل کے سوا، کسی ہندو سیاستدان کے لیے کبھی نہ ہوا بلکہ ہم نے یہ فخریہ کہانی بھی سُنی کہ آل انڈیا کانگریس کے مقامی صدر حکیم عبدالعزیز سِینا کی دعوت پر ایک زمانے میں مہاتما گاندھی سیالکوٹ میں حکیم صاحب کے یہاں آئے تھے۔ حکیم سِینا ہمارے ابا کے ہم جماعت عبدالقدیر کے والد تھے اور ’ایشئیٹک آپٹیکلز‘ کے نام سے عینکوں کی اُس بڑی دکان کے مالک جہاں آزادی سے کچھ پہلے گرین کیفے نام کا ریستوراں کھُل گیا۔ اِسی طرح جب ریڈیو پر پنڈت کے انتقال کی خبر سُن کر آٹھویں کلاس کا طالب علم خوشی سے ناچنے لگا تو ڈانٹ پڑی ”یہ کیا حرکت ہے؟ وہ بہت بڑے آدمی تھے۔“ تو پھر والد سے سیاسی اختلاف کیسا؟
وہ یوں کہ پولیٹکل سائنس میں ’قوم اور قومیت‘ کا باب پڑھا تو اپنے وطن میں مشترکہ نسل، مشترکہ زبان، رہن سہن، باہمی اقتصادی انحصار اور مشترکہ تاریخی تجربہ جیسے عوامل نامکمل دکھائی دیے۔ پھر تقسیمِ ہند پر ڈاکٹر راجندر پرشاد کی کتاب میں گاندھی جی کا حوالہ کہ ایسی مثال نہیں ملتی جب کچھ لوگ آبائی گروہ سے علیحدگی اختیار کر کے کسی اور مذہب میں داخل ہوئے اور پھر اِس نئی وابستگی کی بنیاد پر الگ قوم ہونے کا مطالبہ کر دیا۔ رہی سہی کسر مولانا ابوالکلام آزاد نے پوری کر دی جن کے زیرِ اثر مَیں سوچنے لگا کہ قائد اعظم اگر قیامِ پاکستان سے پہلے کیبنٹ مشن پلان پررضامند تھے تو پھر ہمارا دو قومی نظریہ کہِیں شیخ مجیب الرحمان کے چھ نکات کی طرح سیاسی داؤ پیچ کی خاطر محض کوَرنگ فائر تو نہیں تھا؟ اِسی طرح اُس وقت کے صوبہء سرحد میں ڈاکٹر خان کی حکومت کی برطرفی کو کیا ہم ایک ناپسندیدہ روایت کا آغاز کہہ سکتے ہیں؟ مزید برآں اِس برطرفی کا کشمیر پر قبائلی یلغار سے امکانی تعلق!!
جواب میں والد مرحوم دھیرے دھیرے قائل کرنے کی بجائے قائداعظم کی کسی نہ کسی تقریر کا پیراگراف اُنہی کے لہجے میں دُہرا دیتے اور مَیں چُپ کا چُپ رہ جاتا۔ لندن میں وہ دن نہیں بھولتا جب چھٹیوں کے دوران ابا جان اور بیگم صاحبہ کے ماموں جناب نصیر احمد مصری نے، جو 1951 ء میں گورنمنٹ کالج لاہور میں اسٹوڈنٹس یونین کے صدر بنے، مِل کر میری خبر لی۔ خواہش تھی کہ دوسری ٹیم کی طرف سے ہاکی کھیلتے ہوئے لمبے اسکُوپ کی بجائے تسلسل سے ڈرِبلنگ ہو، مگر دونوں مسلم لیگی بزرگ میچ جیتنے کے لیے پنلٹی اسٹروک لگانے پر تُلے ہوئے تھے۔ ساتھ ہی یہ طعنہ کہ برخوردار، تم نے وہ دَور نہیں دیکھا۔ خیر ”دَور نہیں دیکھا“ والا اعتراض میری سمجھ میں آ گیا اور یہ بھی کہ شدید بے بسی میں انسانوں کی اجتماعی محرومیاں اندھی عقیدت میں کیسے ڈھل جاتی ہیں۔
دراصل، ا،س دوران مجھے 1977 ء میں بعد از انتخابات اپنی بے بسی یاد آ گئی تھی جب زندگی میں پہلی بار اپنا حقِ رائے دہی بڑے چاؤ سے استعمال کیا۔ ہم باپ بیٹا سردیوں میں استری شُدہ سوٹ پہن کر ووٹ ڈالنے گئے۔ اِس موضوع پر بھی گہرائی میں تبادلہء خیال ہوا کہ کونسی جماعت ہماری حمایت کی مستحق ہے۔ ہم اُس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی اندرونِ ملک سیاست سے نالاں تھے، مگر خارجہ محاذ پر تیسری دنیا بالخصوص عالمِ اسلام کے حق میں اُن کی بصیرت کے قائل بھی۔ سو، گھر سے یہی فیصلہ کر کے نکلے کہ ووٹ پی پی پی کو دیں گے۔ فیصلے پر عمل بھی ہوا۔ لیکن انتخابی برتری حاصل ہو جانے پر بھی میرے ووٹ کو جس بے دردی سے بُوٹوں تلے روندا گیا، تو خدا جھوٹ نہ بلوائے پورے چھتیس بعد دوبارہ ووٹ ڈالنے کی ہمت ہوئی۔
1946ء کے الیکشن میں یونینسٹ پارٹی کے مرکز پنجاب میں ’فتح مکہ‘ کا منظر، مزید اکتیس سال گزرنے پر انتخابی دھاندلی کا رولا اور ایک مقبول لِیڈر کی پھانسی۔ اب تازہ ترین ٹونٹی ٹونٹی جس میں بیٹنگ اور بولنگ کرِیز کا فرق سمجھ میں نہیں آ رہا۔ یہ تین پاکستانی نسلوں کی کہانی ہے۔ تو شاہد ملک، آئندہ کیا ہوگا؟ مَیں جو جواب سوچ رہا ہوں اُس میں نئی پاکستانی پود کو بے سمتی سے بچانے کی تجویز ہوگی۔ لیکن وطنِ عزیز میں ہر ٹِکر سیاق و سباق سے ہٹ کر چلایا جاتا ہے اور کج بحثی کی ابتدا از رہِ احتیاط خود کو غصہ چڑھا کر کی جاتی ہے، اِس لیے تجویز کا لہجہ متعین کرنے کے لیے چند یوم کی مہلت درکار ہوگی۔ مجوزہ مشیر کا تعلق روزنامہ پاکستان یا پرانی بی بی سی اردو کے ادارتی عملے سے ہو سکتا ہے۔