ساٹھ سال کے بچے

 ساٹھ سال کے بچے
 ساٹھ سال کے بچے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 جنرل فیض حمید اور جنرل قمر جاوید باجوہ کی اب تک سمجھ آنے والی کہانی یہ ہے کہ دونوں ذاتی فائدے کے لئے منتخب حکومتوں کے درپے تھے۔ ایک کو چیف بننا تھا تو دوسرا بطور چیف مدت ملازمت میں توسیع کا طالب تھا۔ دونوں اپنی اپنی خواہش کے پیچھے اسی طرح دیوانہ وار بھاگے جس طرح چھوٹے بچے باغوں میں کبھی رنگ برنگی تتلیوں کے پیچھے بھاگا کرتے تھے۔ایک جنرل فیض اور جنرل باجوہ کا ہی نہیں، لگتا ہے کہ ہر ادارے میں بیٹھے ہوئے شخص کا اب یہی حال ہو چکا ہے۔ سپریم کورٹ میں بھی یہی کچھ دیکھا گیا اور ان دنوں بھی کچھ ایسی ہی باتیں ہوتی ہیں۔ صدر زرداری ایک مرتبہ صدرمملکت بننے کے بعد دوبارہ سے صدر بن بیٹھے ہیں، نواز شریف کو چوتھی مرتبہ وزیراعظم بنانے کا خواب دیکھنے والے بھی اسی دوڑ کا حصہ ہیں اور عمران خان بھی جیل میں کسی بڑے مقصد کے لئے نہیں، بس ایک مرتبہ پھر وزیراعظم بننے کے لئے ہی پڑے ہوئے ہیں اور تو اور ہم ایسا ہیچمدان بھی تواتر کے ساتھ قلم اس لئے گھسیٹتا رہتا ہے کہ یوم مقررہ پر ان صفحات پر مختص جگہ کو نہیں چھوڑنا، یار لوگ کبھی کہا کرتے تھے کہ اداریہ کے صفحے پر یہ بھی چھوٹے چھوٹے پلاٹ ہیں جن پر قابضین قابض ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب!

یادش بخیر ماضی کی اپنی ہی کہی ہوئی ایک نظم کا ٹکڑا یاد آگیا کہ

باہر گلی میں کھیلتے بچے محبت کی علامت ہیں 

مگر باریک بینی سے اگر ان کے مشاغل کو ذرا پرکھو

تو اپنی اپنی ’میں‘ کا دائرہ کھینچے ہوئے

یہ چاہتوں اور نفرتوں کے کھیل میں مصروف ہوتے ہیں 

معصوم بچے بھی حصارِ ذات میں ملفوف ہوتے ہیں!

اس سے قبل فوجی بغاوتوں میں وجہ عناد مطلق العنان حکومت کا قومی نظریے اور عوامی امنگوں سے دوری ہوا کرتا تھا لیکن جنرل فیض حمید کے معاملے میں سوائے اس کے کہ آرمی چیف بن جائیں،کوئی اور وجہ ابھی تک بن نہیں پارہی ہے۔ جنرل مشرف کے پاس بھی کم از کم ایک توجیہہ تھی کہ وزیر اعظم نے ان کی عدم موجودگی میں فوج کے اندر ایک نئی کمان بنانے کی کوشش کی تھی جس پر ادارے نے ری ایکٹ کیا اور یوں وہ آسمان سے گرے اور ایوان صدر میں اٹک گئے مگر جنرل فیض حمید تو آرمی چیف بننے کے لئے پاکستان کے عوام کے ساتھ کھیل رہے تھے اور سوشل میڈیا کے ذریعے جھوٹے پراپیگنڈہ کی بنیاد پر ایک ایسی فضا قائم کی ہوئی تھی جس میں وہ جب بھی آئینہ دیکھتے ہوں گے،انہیں اپنا آپ چیف چیف محسوس ہوتا ہوگا۔ اس پر غضب خدا کا یہ کہ عمران خان ایسا مشہور آدمی ان کی ہاں میں ہاں ملا کر بنی گالا سے ایوان وزیراعظم تک ہیلی کاپٹر کے جھولے لیتا پھر رہا تھا اور علی الاعلان کہا کرتا تھا کہ میں کوئی آلو پیاز کی قیمتیں ٹھیک کرنے آیا ہوں۔ اسی زمانے میں ڈالر نے روپے کے مقابلے میں ایسی اڑان بھری کہ آج تک غریب آدمی کو اپنا ہوش نہیں آسکا، یوں کہئے کہ بڑے بڑے عہدوں پر چھوٹے چھوٹے لوگ آن بیٹھے ہیں جو بچوں کی طرح جو کھلونا مل جاتا ہے، اسے سینے سے لگائے پھرتے ہیں اور کسی کو چھونے تک نہیں دیتے!

ہماری عدلیہ میں بھی ہمخیال ججوں کی بھرمار تھی اور ابھی تک محسوس ہوتی ہے، کچھ ایسا ہی حال دیگر اداروں کا ہو چکا ہے۔ پارلیمنٹ وہ ادارہ ہے جہاں رات کے وقت بھی قومی پرچم پھریرے بھرتا ہے اور اس پر روشنی کا خاص اہتمام رکھاجاتا ہے مگر اس پارلیمنٹ کے اندر معزز ممبران قومی رویوں، مزاجوں اور سوچوں کا عکس بن کر بیٹھے ہیں اور جو کچھ کر رہے ہیں اس پر کبھی ایک طرف کی آدھی قوم تو کبھی دوسری طرف کی آدھی قوم دیواروں میں منہ دیتی نظر آتی ہے۔ 

یہ  ترقی  کا  زمانہ  ہے  ترے  عاشق  پر!

انگلیاں اٹھتی تھیں پہلے اب ہاتھ اٹھا کرتے ہیں 

جس طرح نواز شریف ایک قدم پیچھے ہٹے ہیں اس طرح پاکستان کے ہر بڑے کو ایک ایک قدم پیچھے ہٹنا ہوگا۔ ذاتی فائدے نقصان سے ہٹ کر اجتماعی فائدے کے لئے سوچنا ہوگا لیکن مخالفین سمجھتے ہیں کہ نواز شریف کا ایک قدم پیچھے ہٹنا ان کی بڑی کامیابی ہے اور اس نشے میں وہ خود دو قدم آگے بڑھے نظر آتے ہیں جس کے سبب سارا نظام تلپٹ ہو چکا ہے۔ سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں کے فیصلے کو ہی دیکھ لیجئے جس کی پارلیمنٹ کے ہاتھوں گت بن رہی ہے۔ کل کو جب سپریم کورٹ کی چھٹیاں ختم ہوں گی تو وہ پارلیمنٹ کی گت بنائے گی۔ آج ادھر کی آدھی قوم ہنس رہی ہے اور آدھی رو رہی ہے، کل اُدھر کی آدھی ہنسے گی آدھی روئے گی!

ضرورت اس امر کی ہے کہ آئین اور قانون کی حکمرانی پر سب متفق ہو جائیں۔ ایسا نہ ہوکہ آئین کی حکمرانی سے مراد پارلیمنٹ کی حکمرانی اور قانون کی حکمران سے مراد سپریم کورٹ کی حکمرانی لیا جائے بلکہ ہماری پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کو عوام کے حق حکمرانی پر متفق ہونا چاہئے، الیکشن کمیشن کو بھی اس کا تحفظ کرنا چاہئے اور پاک فوج کے اندر ایسے تمام عناصر کی صفائی ہونی چاہئے جو اس ادارے کو قومی ادارہ کی بجائے ذاتی ادارہ بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ افسوس تو یہ ہے کہ ایسے عناصر سے اب ہرادارہ بھرا ہوا ہے اور سارے کے سارے ایک دوسرے کے لئے رطب اللسان ہیں تاکہ لوگ سمجھ نہ پائیں کہ چل کیا رہا ہے۔راقم نے کبھی شیخ رشید کے بارے میں لکھا تھا۔

ایسے چیخ رہا ہے جیسے اس سے بڑھ کر کوئی نہ سچا

شیخ  رشید  بنا  ہوا  ہے  ساٹھ  سال  کا  بچہ! 

  

مزید :

رائے -کالم -