قومیانے سے نجکاری تک

قومیانے سے نجکاری تک
 قومیانے سے نجکاری تک

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تقسیم ہند کے وقت پاکستان کے حصے میں آنے والی چند صنعتیں ہماری بنیادی ضروریات پورا کرنے کے لئے ناکافی تھیں ۔آزادی کے بعد پہلے عشرے میں صنعتی پیداوار اتنی قلیل تھی کہ آٹا اور چینی کی بھی راشن بندی کرنا پڑی۔ صدر ایوب خاں کے دور میں صنعت کاری کا آغاز ہوا اور تیزی سے بڑی صنعتیں قائم ہوئیں ،جن میں ٹیکسٹائل، گھی، چینی، سیمنٹ اور کھاد کے کارخانے شامل تھے۔ غیر ملکی سرمایہ کاروں کے ساتھ ساتھ مقامی سرمایہ کار بھی میدان عمل میں آئے اور صنعتی ترقی کی رفتار میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ سرمایہ دارانہ نظام میں منافع کمانے کی کوئی اخلاقی حد تو مقرر نہیں ہوتی، اس دور میں دولت کا ارتکاز 22 خاندانوں تک محدود ہو گیا۔ عام آدمی کی زندگی میں کوئی نمایاں تبدیلی نہ آ سکی۔ صنعت کاری کے فروغ کے ساتھ صنعتی کارکنوں نے ٹریڈ یونینیں قائم کرنا شروع کر دیں۔ مزدور کے حالات کار بد سے بدتر ہوتے گئے۔ آجر اور اجیر کے درمیان فاصلے بڑھتے گئے ،جس کے نتیجے میں صنعتی ماحول خراب ہوا۔ سرمایہ کار مزدوروں کو سہولتیں دینے سے انکاری تھا اور مزدور نا مساعد حالات کی وجہ سے اپنے فرائض میں غفلت برت رہا تھا۔۔۔ستر کی دہائی میں سوویت روس کا کمیونزم دنیا کے بیشتر ممالک کو نظریاتی طور پر متاثر کر چکا تھا، پاکستان بھی اس کی دست برد سے محفوظ نہ رہ سکا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے روٹی کپڑے اور مکان کا نعرہ لگا کر انتخابات میں تاریخی کامیابی حاصل کی۔ ادھر مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن نے بنگالی قومیت کا نعرہ لگا کر میدان مار لیا۔ بدقسمتی سے ہم بنگالی بھائیوں کو اپنے ساتھ نہ رکھ سکے۔ بنگلہ دیش کا قیام ہمارے لئے ایک عظیم سانحہ ثابت ہوا۔


پیپلز پارٹی ایوان اقتدار میں بھرپور سیاسی طاقت کے ساتھ داخل ہوئی۔ بھاری اکثریت کے بل بوتے پر پارٹی انقلابی اصلاحات کا ایجنڈا لے کر آئی تھی، جس پر عمل درآمد کرنا کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 2 جنوری 1972ء کو منشور کے مطابق بڑی صنعتوں کو قومی ملکیت میں لانے کا آغاز کیا۔ پہلے فیز میں فولاد، سٹیل، ہیوی انجینئرنگ، الیکٹریکل انجینئرنگ موٹر ٹریکٹر ،بجلی کی پیداوار ،ترسیل اور تقسیم، گیس اور آئل ریفائنری کی صنعتوں کو قومی تحویل میں لیا گیا۔ پہلے مرحلے کے بعد یکم جنوری 1974ء کو بینک اور مالیاتی اداروں کو قومیانے کے لئے پارلیمان میں منظوری دی گئی۔ ڈاکٹر مبشر حسن وزیر خزانہ نے فرمایا تھا:’’کل تک بینک چند پرائیویٹ گروپوں کے قبضے میں تھے جو اپنی مرضی سے صنعتوں کو سرمایہ فراہم کرتے تھے۔ آج ہم ان کی اجارہ داری کو ختم کر کے انہیں قومی ملکیت میں دیتے ہیں۔ کیونکہ گزشتہ حکومت نے صنعتی طاقت کو چند لٹیروں کے ہاتھوں میں مرکوز کیا ہوا تھا‘‘۔۔۔اس مرحلے میں 13 بڑے بینکوں 12 انشورنس کمپنیوں، 2 پٹرولیم کمپنیوں اور 10 شپنگ کمپنیوں کو سرکاری تحویل میں لیا گیا۔ لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری سے خطاب کرتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو نے یہ موقف پیش کیا کہ بڑی صنعتوں کو قومی تحویل میں لینے کا مقصد سرمائے کو چند ہاتھوں میں مرکوز کرنے سے روکنا اور چھوٹے درمیانے سرمایہ دار کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔


تیسرے مرحلے میں 2000 کے لگ بھگ کاٹن جننگ، رائس ہسکنگ اور فلور ملوں کو قومی ملکیت میں لیا گیا۔ اس کے بعد پورے ملک میں ردعمل کے نتیجے میں مخالفت کا دور شروع ہو گیا۔ نیشنلائزیشن کے متاثرین میں شریف فیملی اور چودھری برادران سرفہرست تھے۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ رفیق سہگل بی بی سی کو انٹرویو دے رہے تھے۔ ان سے سوال کیا گیا کہ تمام بڑی صنعتوں کو قومی تحویل میں لیا جا رہا ہے، آپ کا کیا بنے گا؟ انہوں نے کہا سرمایہ دار حکومت کی ماں ہوتی ہے۔ اگر ماں ہی مر گئی تو بچے رل جائیں گے۔ ان کی یہ بات سچ ثابت ہوئی اور یہ پالیسی بری طرح ناکام ہوئی 5 جولائی 1977ء کو ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ دیا ،جس کے ساتھ ہی مزید اداروں کو قومی تحویل میں لینے کا عمل رک گیا۔ ضیاء الحق کے دور میں اتفاق گروپ آف انڈسٹریز کے قومیائے گئے کارخانے شریف فیملی کو واپس دے دیئے گئے۔۔۔منصوبہ بند معیشت میں تمام پیداواری صنعتوں کا انتظام و انصرام حکومتی کنٹرول میں ہوتا ہے۔ اس کے برعکس آزاد منڈی کی معیشت کے نظام میں تمام بڑی چھوٹی صنعتیں نجی سرمایہ دار چلاتے ہیں۔ 1990ء میں سوویت روس کے انہدام کے ساتھ ہی منصوبہ بند معیشت بھی زوال کا شکارہو گئی۔ 1990ء تک پاکستان میں نجکاری کا عمل شروع نہیں ہوا۔


22 جنوری 1991ء کو نوازشریف کی حکومت نے نجکاری پروگرام کا باقاعدہ آغاز کیا۔ حکومت جب صنعتی اور مالیاتی ادارے چلانے میں ناکام ہو جاتی ہے تو انہیں پرائیویٹ سیکٹر کے ہاتھوں بیچ دینے کے عمل کو نجکاری کہتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن)کی حکومت نے 1991-93ء کے عرصے میں 167 صنعتوں کی نجکاری کی ،جس سے 476 بلین روپے وصول ہوئے۔بے نظیر بھٹو کے دور میں صرف ان صنعتوں کی نجکاری ہوئی جو اقتصادی بد حالی کا شکار تھیں۔ کسی منافع بخش ادارے کو نجی شعبے کے حوالے نہیں کیا گیا۔2004ء میں شوکت عزیز وزیر اعظم مقرر ہوئے تو انہوں نے اقتصادی بحران پر قابو پانے کے لئے جو اقدامات کئے، ان میں نجکاری کا عمل بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ان کے دور اقتدار کے دوران 2007ء میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاکستان سٹیل ملز کی نجکاری کو روکنے کا حکم امتناعی جاری کیا۔


سرمایہ داری نظام میں نجکاری کا عمل کوئی نئی بات نہیں ،ساری دنیا میں صنعتیں اور مالی ادارے نجی شعبے میں کام کر رہے ہیں۔ نجکاری کے عمل کے لئے صرف ان اداروں کو منتخب کیا جائے جو خسارے میں جا رہے ہوں۔ دوسری بات شفافیت ہے۔ اس کے علاوہ سرمایہ کاروں کو مناسب ماحول مہیا کرنا ہے۔ ہمارے ہاں نجکاری کا عمل کرپشن اور اقربا پروری کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔ اس سے قومی خزانے کو اربوں کا نقصان ہو رہا ہے۔ آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کمپنی نے گزشتہ سال 191 ارب روپے منافع کمایا ہے ،اسی طرح پاکستان سٹیٹ آئل کمپنی اربوں روپے کا منافع کما کر خزانے میں جمع کرا رہی ہے۔ ان اداروں کو نجی تحویل میں دینا مناسب نہیں ہے۔پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ یہ حکومتی ادارہ منافع بخش کاروبار کر رہا تھا۔ پرویز مشرف کے دور میں عرب امارات کی کمپنی اتصالات کے حوالے کر دیا گیا۔


دوسری مثال کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی کی ہے، جسے سفید ہاتھی قرار دے کر نجی تحویل میں دے دیا گیا۔ ناقص انتظام کی وجہ سے یہ کمپنی بجلی کی سپلائی کو یقینی بنانے سے قاصر اور لوڈشیڈنگ کو ختم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ حکومت کا فرض بنتا ہے کہ نجکاری کے بعد پرائیویٹ سیکٹر کی کارکردگی پر بھی نظر رکھے۔ 2013ء میں نوازشریف مسلم لیگ کو تیسری بار حکومت کرنے کا موقع ملا۔ انہوں نے 31 اداروں کی فہرست تیار کی ہے،جنہیں نجی شعبے کے حوالے کیا جائے گا۔ اس وقت زبیر عمر کمیشن کے سربراہ ہیں۔ وہ ایک قابل مالیاتی ماہر ہیں۔ حال ہی میں پی آئی اے کی نجکاری پر عملے نے ہڑتال کر کے قومی ایئرلائن کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا۔ حکومت کا موقف ہے کہ یہ ادارہ اربوں روپے کا خسارہ دے رہا ہے، لہٰذا اسے نجی شعبے میں بیچ دیا جائے۔ اس خسارے کی وجہ گزشتہ حکومتوں کی اقربا پروری ہے۔ آج ایک طیارے کے ساتھ 500 ملازمین کا عملہ ہے، جبکہ بین الاقوامی ہوائی کمپنیاں ایک طیارے کے ساتھ 150بلکہ اس سے بھی کم ملازمین سے کام چلا رہی ہیں۔ نجکاری کے عمل کو شفاف بنانے کے ساتھ کارکنوں کے روزگار کو تحفظ بھی دیا جائے۔ عملے کو دی گئی مراعات کو یقینی بنایا جائے، تاکہ ان کی کارکردگی بہتر ہو سکے۔ اس تاثر کو بھی ختم کیا جائے کہ ایک بھائی بیچتا ہے تو دوسرا خرید لیتا ہے۔۔۔آخر میں ایک سوال ہے۔۔۔ نجکاری کے عمل کا مقصد خود انحصاری ہے۔ قومی ادارے بیچ کر بھی ہم آئی ایم ایف کے مقروض ہیں تو پھر کہیں خرابی ضرور ہے۔ شاید ہمارے طرزِ حکمرانی میں کوئی نقص ہے۔

مزید :

کالم -