تربیت افراد
تعلیم اور تربیت توام ہیں۔ یعنی جڑواں بھائی ہیں۔ تعلیم کے ساتھ تربیت نہ ہو تو تعلیم کاعمل بے سود ہے۔اگر تربیت تو ہو تعلیم نہ ہو تو بھٹکنے کے امکانات موجود رہتے ہیں۔ وہ ایک بہت بڑی درسگاہ کے چھوٹے موٹے معمولی استاد نہ تھے، بلکہ بہت بڑے بڑے استادوں میں ان کا بہت بڑا مرتبہ تھا۔ استاد تھے ان کے شاگرد بھی بے شمارتھے۔ ہر طالب علم ان کے حلقہ درس میں جانا، بیٹھنا اور ان سے تعلیم حاصل کرنے میں سعادت محسوس کرتا تھا۔ ان کا قرب حاصل کرنا بڑے فخر کی عظمت کی علامت تھی۔ جس طالب علم کو وہ بیٹا کہہ کر پکاریں دوسرے طلباء اس کو رشک کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ علماء کے درمیان بھی ان کا بڑا مرتبہ، بڑا مقام تھا۔اس علمی وجاہت کے ساتھ ساتھ خاندانی وجاہت سے بھی ان کو حظ وافر ملا تھا۔ اس وجہ سے ان کا علمی اور خاندانی مقام بھی بہت بلند تھا۔کیوں نہ ہوتا۔ ان کے چچا مولانا اشرف علی تھانویؒ کے خادم خاص تھے۔ یہ کتابوں میں کھوئے رہنے والے، پڑھنے پڑھانے والے شخص تھے۔ایک روز کچھ ایسی کیفیت ہوئی کہ آپ کے دل میں یہ بات سما گئی کہ اصل کام تو نیکی پھیلانا اور دوسروں کو نیکی کی طرف بلانا ہے۔ بس اسی خیال سے آپ پڑھنے پڑھانے کا کام چھوڑ کر تبلیغی جماعت میں نکل گئے اور پھر تبلیغ ہی کے ہو رہے۔ رائے ونڈ پہنچے۔ علمی حلقوں میں نام تو پہلے ہی معروف تھا، جانے کتنے طلباء ان کے شاگرد پہلے سے تبلیغ میں لگے ہوئے وہاں موجود تھے۔
رائے ونڈ کے اکابر نے پہلی ہی نظر میں بھانپ لیا کہ گوھر نایاب ہے ،لیکن کوئی خاص توجہ نہ دی۔ایک دن رائے ونڈ کے باسی نے ان کو اپنے پاس بٹھایا اور کہا: آپ بڑے عالم ہیں ،لیکن ہمارے ہاں خود کو مٹانا پڑتا ہے، من کو مارنا پڑتا ہے۔اگر تبلیغی کام کرنا ہے تو ہماری ہدایات پر عمل کرنا ہو گا۔اب یہاں لوگ آپ کے ہاتھ تونہیں چومیں گے، نہ ہی آپ کا حلقہ درس ہو گااسی طرح وقتاً فوقتاً کچھ اور پابندیوں سے بھی آپ کو آگاہ کیا جاتا رہے گا۔ انہوں نے ہر پابندی قبول کرنے کا اقرار کیا۔ تربیت کرنے والوں کے رنگ نرالے، مرض کی تشخیص اور نسخہ شفا کی تجویز ناقابل فہم ہوتی ہے۔ سب سے پہلے ان کے ذمہ مسجد میں جھاڑو کا کام لگایا اور صفیں بچھانا ان کو درست کرنا، مولانا یہ خدمت سرانجام دیتے رہے۔ اس دوران شکوہ شکایت کی گنجائش سرے سے نہیں تھی۔ کچھ عرصہ بعد لنگر میں کھانے کی تقسیم کی ذمہ داری بھی سونپ دی گئی۔
شاید تندور پر روٹیاں پکانے کی ذمہ داری بھی لگا دی گئی۔ ایک برس تک یہ ذمہ داری سر انجام دیتے رہے۔ پھر کہیں جا کر 1391ھ میں ان کو زمین پر بیٹھ کر تعلیمدینے کی اجازت مل گئی۔جب نفس کا کچومر نکل گیا توسال ہا سال کی ریاضت کے بعد آپ کو رائے ونڈ مدرسہ میں پڑھانے کی اجازت مل گئی۔ اور انہوں نے رائے ونڈ کی درس گاہ میں پڑھانا شروع کیا۔ اس دوران بہت سے مشاہیر علماء نے آپ سے کسب فیض کیا جن میں عالم اسلام میں معروف مولانا طارق جمیل بھی شامل ہیں۔مولانا طارق جمیل کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میرے استاد مولانا جمشید مجھ سے کسی وجہ سے خفا ہو گئے او رمجھے طلب کیا۔ میں حاضر خدمت ہوا۔ آپ نے ناصحانہ انداز میں میری سرزنش کی اور مجھے ایک تھپڑ بھی رسید کر دیا۔ تھپڑ تو اتنا شدید نہیں تھا ،لیکن میں استاد کی خوشنودی کے لئے کچھ زیادہ ہی لڑھک کر پیچھے کی جانب گر گیا ،تاکہ استاد کا دل خوش ہو جائے۔ یہ عمل تعلیم کا نہیں، بلکہ تربیت کا نتیجہ تھا۔آج کل انگلش میڈیم سکولوں کا زمانہ ہے جہاں تربیت نام تک کو نہیں، بھلا وہاں سے اچھے طلباء کیسے پیدا ہو سکتے ہیں۔ علامہ اقبال نے شاید آج ہی کے دور کے لئے کہا تھا:
تھے وہ بھی دن کہ خدمت استاد کے عوض
دل چاہتا تھا ہدیۂ دل پیش کیجئے
بدلا زمانہ ایسا کہ لڑکا پس از سبق
کہتا ہے ماسٹر سے کہ بل پیش کیجئے