پی ٹی آئی مان جائے گی
26ویں آئینی ترمیم پر بہت سا اتفاق رائے ہو چکا، اب پی ٹی آئی بھی اس پاٹ میں پیسی جائے گی، غالب امکان یہی ہے کہ کچھ نخرے دکھا کر پی ٹی آئی بھی مان جائے گی،اس آئینی ترمیم کے حوالے سے اگرچہ وکلاء برادری میں آخری مرحلے پر کچھ ہل جل ضرور نظر آئی لیکن اس کا بھی کچھ خاص اثر نہیں بن سکا۔ البتہ پی ٹی آئی کی جانب سے پنجاب میں ایک آخری کوشش ایک طالبہ کے ساتھ مبینہ زیادتی کو ایشو بنا کر سوشل میڈیا پر اچھال کر چائے کی پیالی میں طوفان لانے کی ناکام کو شش کی گئی کہ شائد اس سے انہیں پنجاب میں وہ پذیرائی مل جائے جس کے بعد وکلاء کو بھی سڑکوں پرآکر کچھ کر دکھانے کا موقع ملے لیکن پنجاب حکومت کی بروقت کاروائی اور پورے واقعے کو پیاز کے چھلکے کی طرح ایک ایک پرت علیحدہ کرکے عوام کو دکھادینے سے اس غبارے سے بھی ہوا نکل گئی۔ پس ثابت ہوا کہ الیکٹرانک میڈیا سوشل میڈیا سے ابھی بھی طاقتور ہے اور اس کا ابلاغ زیادہ موثر اور کارگر ہے کیونکہ لوگوں کو ابھی بھی ٹی وی چینلوں پر اعتماد ہے۔ وہ جب بھی کوئی خبر سوشل میڈیا پر دیکھتے ہیں تو اس کی تصدیق یا تردید کے لئے الیکٹرانک میڈیا کا رخ کرتے ہیں۔ البتہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ الیکٹرانک میڈیا کے مقابلے میں پرنٹ میڈیا اسی طرح طاقتور اور موثر ہے، جس طرح کبھی ہوتا تھا،اس کی ایک مثال سن لیجئے، اس کے بعد 26ویں آئینی ترمیم کی طرف مڑتے ہیں۔ گزشتہ دنوں مجھے ایک وی لاگ تیار کرنے کا موقع ملا جس میں ایک صاحب کا انٹرویو تھا۔ انٹرویو سے قبل انٹرو کے طور پر ان صاحب کا تعارف کروایا گیا، جس موضوع پر ان سے بات ہونا تھی اس کی تفصیل سلائیڈکی صورت میں لگائی گئی اور بعد میں ہر سوال سے قبل بھی اس سوال کو سلائیڈ کی صورت میں دکھایا گیا۔ جب معاملہ ریویو کے لئے گیا تو کہا گیا کہ لکھے گئے مواد پر بھی وائس اوور کیا جائے کیونکہ آج کل لوگ پڑھنے کی بجائے دیکھنے اور سننے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ چنانچہ اس پورے وی لاگ پر جہاں جہاں تحریری مواد تھا، اس پر وائس اوور کیا گیا تاکہ لوگوں کو پڑھنے کی زحمت نہ ہو،اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ ہمارے ملک میں لکھے ہوئے لفظ کی کیا توقیر رہ گئی ہے۔ بلکہ ہمارے کیا دنیا بھر میں ایسا ہورہا ہے۔ اب ذرا پھر سے 26ویں آئینی ترمیم کی طرف مڑتے ہیں۔ جس طرح 18ویں ترمیم کے بعد سے صوبوں کے وفاق سے شکوے شکایات کا قلع قمع ہوا ہے، پوری امید ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم کے بعد عوام کا ملک کے نظام انصاف سے کیا جانے والا شکوہ بھی ختم ہو جائے گا۔ 18ویں آئینی ترمیم سے قبل اندازہ نہ تھا کہ علاقائی اور صوبائی تحاریک اس طرح اپنی اہمیت کھو بیٹھیں گی، آج کی نسل شائد جئے سندھ تحریک اور سرائیکی صوبے کی تحریک سے واقف ہی نہ ہو، کبھی ان تحاریک کا طوطی بولا کرتا تھا اور وفاق کے زیر انتظام مختلف صوبوں اور علاقوں کے اندر مقامی لیڈروں کا اس لئے اثرورسوخ ہوتا تھا کہ وہ ان علاقوں میں پائی جانے والی محرومی کو اچھال کر اپنی سیاست چمکایا کرتے تھے، مگر جب سے 18ویں ترمیم کے تحت این ایف اسی ایوارڈ کی ہیئت تبدیل ہوئی ہے اور پیسہ وفاق سے نکل کر صوبوں میں جانے لگا ہے، تب سے ایسی متعصب تحریکوں کا دور لد گیا ہے۔ ہماری ناقص رائے میں گزشتہ تین دہائیوں میں تین بڑے کاموں نے عوام کو باہم جوڑنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان میں ایک تو موٹر وے ہے، دوسری 18ویں ترمیم ہے اور تیسرا سی پیک ہے۔ جونہی لوگوں کی جڑت میں اضافہ ہوا اور جناب آصف زرداری کے اصرار پر صوبائی خودمختاری کے سفر کو 1973کے آئین کے مطابق شروع کیا گیا،ملک کا سیاسی نقشہ ہی تبدیل ہو گیاہے اگرچہ اب بھی خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں علیحدگی پسندی کی آوازیں اٹھتی ہیں مگر ان سے وہ خطرہ محسوس نہیں ہوتا جو اس سے قبل ایسی تحریکوں سے ہوا کرتا تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ جب جب عوامی سہولت کو یقینی بنایا جاتا ہے،تب لوگوں کا وفاق پر اعتبار بڑھتا ہے۔اسی لئے 26ویں آئینی ترمیم اوپر دیئے گئے تینوں کاموں سے زیادہ کارگر ثابت ہوگی کیونکہ اس میں براہ راست عوام کے آپسی تنازعات کے حل کی طرف پیش قدمی ہوگی اور آئینی عدالتوں کی موجودگی میں مروجہ عدالتی نظام اپنی پوری توجہ عوامی نوعیت کے جھگڑوں اور مسائل کوحل کرنے میں جت جائے گا اور جوں جوں حق دار کو اس کا حق یقینی بنایا جائے گا توں توں ملک میں امن و انصاف کا رواج عام ہوتا جائے گا۔
اس تناظر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستانی عوام کے نمائندوں نے عوام کے مسائل کو حل کرنے میں کم ہی کوتاہی برتی ہے اور اگر اسٹیبلشمنٹ اس سلسلے میں راستے کی رکاوٹ بنی بھی ہے تو اس کا مقابلہ کرنے کے لئے میثاق جمہوریت جیسے شاہکار سوشل کنٹریکٹ کے ذریعے اس راستے کو کھودا ہے جو آئینی عملداری کہا جاتا ہے۔ اس لئے ہمیں مایوس ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے اور کسی بھی صورت امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئے۔
جہاں تک پی ٹی آئی کا تعلق ہے تو جس طرح پنجاب، سندھ اور بلوچستان سے وہ غائب ہے اس کے بعد اگر اس جماعت نے اپنی روش تبدیل نہ کی تو خیبر پختونخوا میں بھی اس کا کوئی نام لیوا نہ ہوگا۔ پی ٹی آئی کی گرتی ہوئی مقبولیت کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ عمران خان کی دو بہنوں کو پولیس کی حراست میں گئے ایک ہفتے سے زائد کا عرصہ گزر گیا اور کہیں کوئی احتجاج دیکھنے سننے کو نہیں ملا۔