ساہیوال میں سی ٹی ڈی کی بھیانک کارروائی ،وزیر اعظم صاحب آپ کو نیند کیسے آئے گی ؟
کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کے شیر جوانوں نے ساہیوال کے قریب ایک مبینہ مقابلے میں 4 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا ،جاں بحق ہونے والوں میں ایک خاتون اور 13 سال کی معصوم بچی بھی ہے ۔ترجمان سی ٹی ڈی نے مارے جانے والوں کا تعلق کالعدم تنظیم ’داعش‘سے جوڑتے ہوئے کہا ہے کہ سی ٹی ڈی نے حساس ادارے کی جانب سے ملنے والی موثر اطلاع پر انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیا جس کے نتیجے میں کالعدم تنظیم داعش سے منسلک 4 دہشت گرد ہلاک ہوگئے ،ٹول پلازہ کے پاس سی ٹی ڈی ٹیم نے ایک کار اور موٹرسائیکل کو روکنے کی کوشش کی جس پر کار میں سوار افراد نے پولیس ٹیم پر فائرنگ شروع کردی،سی ٹی ڈی نے اپنے تحفظ کے لیے جوابی فائرنگ کی، جب فائرنگ کا سلسلہ رکا تو دو خواتین سمیت 4 دہشت گرد ہلاک پائے گئے جبکہ 3 دہشت گرد موقع سے فرار ہوگئے۔ترجمان سی ٹی ڈی کے مطابق دہشت گردوں سے ہتھیار ڈالنے کو کہا گیا لیکن انہوں نے فائرنگ کردی، جس کے بعد دہشت گرد شاہد جبار، عبدالرحمان اور اس کا ایک ساتھی موٹرسائیکل پر فرار ہوگئے جبکہ گاڑی میں سوار افراد مارے گئے ،سی ٹی ڈی ٹیم نے موقع سے خودکش جیکٹ، ہینڈ گرنیڈ اور رائفلز سمیت دیگر اسلحہ قبضے میں لے لیا۔یہ تو تھی سی ٹی ڈی جیسے ریاستی ’’دہشت گرد‘‘ ادارے کی روایتی کہانی جو ہر جعلی مقابلے کے بعد میڈیا کو فراہم کی جاتی ہے ۔
ساہیوال سانحے پر پولیس اور سی ٹی ڈی کی ’’قلا بازیوں ‘‘ نے اس ادارے کا مکروہ چہرہ بے نقاب کر دیا ہے ،پہلے پولیس کی جانب سے کہا گیا کہ ’’ساہیوال میں مارے جانے والے افراد اور خواتین ڈکیت تھے ،وہ بچوں کو اغواء کرکے لے جارہے تھے، ہم نے بازیاب کرایا. پولیس ترجمان کا کہنا تھا کہ دوپہر 12 بجے کے قریب ٹول پلازہ کے پاس سی ٹی ڈی ٹیم نے ایک کار اور موٹرسائیکل کو روکنے کی کوشش کی، جس پر کار میں سوار افراد نے پولیس ٹیم پر فائرنگ شروع کردی، سی ٹی ڈی نے اپنے تحفظ کے لیے جوابی فائرنگ کی، جب فائرنگ کا سلسلہ رکا تو دو خواتین سمیت 4 دہشت گرد ہلاک پائے گئے جبکہ 3 دہشت گرد موقع سے فرار ہوگئے ۔پھر سی ٹی ڈی کی جانب سے بیان داغا گیا کہ گاڑی میں سوار تمام افراد کا تعلق کالعدم تنظیم ’’ داعش‘‘ سے تھا اور گاڑی سے اسلحہ اور بارودی مواد بھی برآمد کیا گیا۔دوسری طرف عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ مرنے والوں کی گاڑی سے اسلحہ برآمد ہوا اور نہ ہی ان کی طرف سے کوئی فائرنگ کی گئی جبکہ اس بد قسمت خاندان کے بچنے والے معصوم بچوں کا کہنا تھا کہ ہم شادی میں جارہے تھے، پولیس نے ممی پاپا کو مار دیا، پاپا نے پولیس سے کہا کہ آپ تلاشی لے لیں ہمارے پاس کچھ نہیں ہے.کچھ اور عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ گاڑی میں اسلحہ نہیں کپڑے تھے، پولیس نے پہلے بچے پٹرول پمپ پر چھوڑ دیئے اور موقع سے بھاگ نکلے تاہم کچھ دیر بعد دوبارہ آئے اور بچ جانے والے بچوں کو اپنے ساتھ لے گئی، کوئی مزاحمت نہیں ہوئی۔
میڈیا رپورٹس اور اہل محلہ کے مطابق مقتول فیملی لاہور سے ایک شادی پر بورے والا جا رہی تھے کہ سی ٹی ڈی کے ظلم کا شکار ہو گئی ۔مقتول خلیل کی لاہور کے علاقے چونگی امر سدھو میں پرچون کی ایک دوکان ہے اور اس کی فیملی اس علاقے میں گذشتہ 35 سال سے رہائش پذیر تھی ۔اہل علاقہ کا کہنا ہے کہ سی ٹی ڈی کے ظلم کا شکار ہونے والی فیملی انتہائی شریف لوگ تھے ،ان کا کسی بھی دہشت گرد تنظیم سے کوئی تعلق نہیں ،سی ٹی ڈی کے ہاتھوں مقتول شخص خلیل کی والدہ اپنے بیٹے، بہو اور پوتی کے قتل ہونے کی اندوہناک خبر کا غم برداشت نہیں کر سکی اور وہ بھی ان کے پیچھے ہی عمران خان کے ’’نئے پاکستان ‘‘سے منہ موڑتے ہوئے دنیا چھوڑ گئی ۔سی ٹی ڈی کا یہ کوئی پہلا ظلم نہیں ہے ،سینکڑوں کی تعداد میں بے گناہ نوجوانوں کو دہشت گرد قرار دے کر مارنا اس ’’ریاستی بندے مار‘‘ادارے کا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔کسی بھی شخص کا تعلق دہشت گرد تنظیم سے جوڑ کر اسے جان سے مارنے کی دھمکی دے کر لاکھوں روپے بٹورنا اس ادارے کے افسران کا من پسند مشغلہ ہے ،اگر کسی شخص کا ماضی میں کسی کالعدم تنظیم جسے اُس دور میں ’’ریاستی سرپرستی ‘‘ حاصل تھی سے کوئی تعلق رہا ہو تو ایسا شخص سی ٹی ڈی کے نزدیک ’’سونے کا انڈہ دینے والی مرغی‘‘ قرار پاتی ہے ۔سی ٹی ڈی کے افسران اور اہلکار ایسے افراد کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنا اپنا حق سمجھتی ہے ۔درجنوں ایسے افراد بھی شہر میں موجود ہیں جو سی ٹی ڈی کے بھیانک ظلم کا شکار ہو کر ذہنی توازن کھو بیٹھے ہیں ۔کئی افراد ایسے بھی ہیں جو اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی دینے کی بجائے سی ٹی ڈی کے کرپٹ افسران کی ناجائز اور بلاجواز فرمائشوں کو پورا کرنے کے لئے مارے مارے پھرتے ہیں کہ اگر سی ٹی ڈی کے اہلکاروں کو ’’حرام ‘‘ نہ کھلایا تو اسے کسی بھی وقت کسی کالعدم تنظیم کا دہشت گرد قرار دے کر شہر کے کسی ویرانے میں مار دیا جائے گا ۔اگر سی ٹی ڈی میں آپ کے کسی ’’بندے مار ‘‘ افسر کے ساتھ قریبی تعلقات اور بے تکلفی ہو تو پھر وہ آپ کو بے گناہ بندوں کو دہشت گرد قرار دے کر مارنے کےایسے ایسے واقعات سنائے گا کہ آپ کی روح کانپ جائے گی۔سی ٹی ڈی کی بندے مار کارروائیوں میں اب تک سینکڑوں افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ،سی ٹی ڈی کے مقابلوں کی تمام تفصیلات نکال کر دیکھ لیں آپ کو کوئی ایک واقعہ بھی ایسا نہیں ملے گا جس میں کوئی اصل مقابلہ ہوا ہو ۔اگر آپ حقیقی معنوں میں دہشت گرد تنظیم سے تعلق رکھتے ہیں اور ملک میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث بھی ہیں لیکن ’’حرام ‘‘ کھلانے کے لئے آپ کے پاس وافر مقدار میں پیسے موجود ہیں تو پھر ’’ستے ای خیراں ہیں ‘‘سی ٹی ڈی کو ’’حرام ‘‘ کھلاتے رہیں اور ملک میں اودھم مچاتے رہیں ،یہ ریاستی ادارہ آپ کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھے گا ۔سی ٹی ڈی کے ’’کارناموں‘‘ کی بڑی لمبی فہرست موجود ہے ،آپ ماضی یا حال میں کسی دہشت گردی کی وادات میں ملوث نہیں رہے اور نہ ہی کبھی دہشت گردوں کی سہولت کاری کا فریضہ سرانجام دیا ہے لیکن اب کالعدم قرار پانے والی کسیکالعدم تنظیم سے تعلق رہا ہے تو سی ٹی ڈی والے سونگھتے ہوئے آپ کے پاس پہنچ جائیں گے ،اگر ماضی کے اس’’سنگین جرم‘‘ میں آپ کو حراست میں لے لیا گیا ہے تو پھر سی ٹی ڈی افسران آپ کے ساتھ بار گیننگ کرتے ہیں ،اگر تو آپ ’’بھاری معاوضہ ‘‘دینے کی سکت رکھتے ہیں تو پھر تو کام ایک ماہ کی نظر بندی سے ہی چل جائے گا ،تھوڑے پیسوں کی صورت میں کم از کم ایسا مقدمہ بنایا جائے گا کہ جس میں دہشت گردی کی عدالت آپ کو تین سال سے لیکر 5 سال کی سزا سنائے گی اور اگر آپ سی ٹی ڈی کو حرام کھلانے کی پوزیشن میں بالکل بھی نہیں ہیں تو پھر اتنی مقدار میں بارودی مواد آپ کے کھاتے میں ڈالا جائے گا کہ عدالت آپ کو 15 سے لیکر 20 سال کی قید سنا دے گی ،یہ اب آپ پر منحصر ہے کہ آپ جیل کی اذیت سے بچنے کے لئےاپنا گھر بار بیچتے ہیں یا بیوی بچوں کو دربدر بھیک مانگنے کے لئے چھوڑ کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے اپنے مقدر پر آنسو بہاتے ہیں ۔میں نے کئی ایسی فیملیز بھی دیکھ رکھی ہیں کہ جن کے مرد ماضی میں کسی مذہبی جماعت کا حصہ رہے تھے لیکن ایک مدت سے وہ اب اپنے بیوی بچوں کو پالنے کے لئے محنت مزدوری کا سہارا لئے ہوئے تھے ،مذہبی بیک گراؤنڈ ہونے کی وجہ سے ان کی بیویاں بھی با پردہ تھیں لیکن جیسے ہی سی ٹی ڈی نے انہیں اپنا ’’مہمان‘‘ بنایا ان کی با پردہ بیویاں سی ٹی ڈی کے وحشی افسران کی ہوس کا نشانہ بن گئیں اور آج دربدر رلنے پر مجبور ہیں ۔سی ٹی ڈی کے کسی بے تکلف افسر یا اہلکار کے پاس بیٹھیں تو ایسی ’’رنگین کہانیاں ‘‘ بھی آپ کو بڑی تعداد میں سننے کو ملیں گی ۔
وزیر اعظم عمران خان اکثر کہتے ہیں کہ جس معاشرے میں انصاف نہ ہو وہ ملک قائم نہیں رہتے ،معاشرے میں ہونے والی بے انصافیوں کی لاکھوں داستانیں جگہ جگہ بکھری پڑی ہیں ،سوشل میڈیا پر ساہیوال میں قتل ہونے والے مقتول خلیل کے بچ جانے والےمعصوم بیٹے عمیر خلیل کی ویڈیو وائرل ہو رہی ہے ،اس کی آنکھوں کے سامنے اس کے بے گناہ باپ ،والدہ اور کم عمر بہن کو سرراہ قتل کر دیا گیا ہے ۔عمیر خلیل کی آنکھوں میں امڈنے والا خوف مجھ سے تو نہیں دیکھا جا رہا ۔عمیر کی شکل میں مجھے اپنا بیٹا عبد اللہ آنکھوں کے سامنے سے ہٹ نہیں رہا ،خوفزدہ عمیر کے پاس بیٹھی اس کی ننھی بہنیں مجھے اپنی بیٹیاں ہاجرہ اور مسفرہ کی شکل میں دکھائی دے رہی ہیں ،ان کم سن پریوں کے چہرے دیکھنے کی بھی سکت نہیں رہی اور میں نے ویڈیو دیکھنی ہی بند کر دی ہے ۔میڈیا پر ساہیوال دہشت گردی کا شور بپا ہے لیکن ایک دو روز میں یہ شور تھم جائے گا اور ہم اس سانحے کو بھی بھول جائیں گے ،اگرچہ آئی جی پنجاب نے اس واقعہ کی تحقیقات کے لئے جے آئی ٹی بنا دی ہے تاہم مجھے اس جے آئی ٹی سے کسی خیر کی توقع نہیں ہے جبکہ وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے بھی واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے واقعہ میں ملوث سی ٹی ڈی کے تمام اہلکاروں کو فوری گرفتار کرنے کا حکم دیا ہے ۔وزیر اعظم عمران خان صاحب آپ نے اس قوم کو انصاف پر مبنی معاشرے کے خواب دکھائے ہیں،دہشت گردی کی نام پر لڑی جانے والی نہاد جنگ میں ہم نے ظلم کے وہ ریکارڈ قائم کیے ہیں، جنہیں دیکھ کر فرعون اور چنگیز خان کی روحیں بھی کانپ جاتی ہونگی ۔سانحہ ساہیوال کے بعد مجھے امید ہے کہ ننھے عمیر اور اس کی بہنوں کو مکمل اور کامل انصاف ملنے تک وزیر اعظم عمران خان صاحب آپ کو نیند نہیں آئے گی اور اس ٹیسٹ کیس کو لیکر اب تک جتنے بھی افراد سی ٹی ڈی کے ظلم کا شکار ہوئے ہیں آپ انہیں انصاف دینے کے لئے کمر بستہ ہو جائیں گے کیونکہ جس معاشرے میں انصاف نا پید ہو جائے وہ ملک قائم نہیں رہتے ۔پوری قوم آپ سے سراپا سوال اور انصاف کی دہائی دے رہی ہے اور ویسے بھی ساہیوال نیشنل ہائی وے پر ہونے والے اس ظلم عظیم پر اگر آج بھی ہم خاموش رہے تو پھر اللہ کے عذاب کو ہم پر مسلط ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا اتفاق کرنا ضروری نہیں ہے ۔