سگریٹ کی غیر قانونی تجارت سے سالانہ 59ارب روپے کا نقصان

سگریٹ کی غیر قانونی تجارت سے سالانہ 59ارب روپے کا نقصان

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


اسلام آباد (اے پی پی) پاکستان کو سگریٹ کی صنعت میں غیر قانونی تجارت کی مد میں سالانہ 59.3ارب روپے اور سگریٹوں پر عائد ٹیکسوں کی چوری کی مد میں سالانہ 17.3ارب روپے کا نقصان پہنچ رہا ہے۔مختلف شعبوں کی نمائندگی کرنے والے ماہرین نے پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی (ایس ڈی پی آئی) کے زیر اہتمام منعقدہ ’تمباکو کی صنعت، افواہ سازی اور تمباکو پر ٹیکس کی بلند شرح کے زیر عنوان آن لائن سیمینار کے دوران اس امر اتفاق ظاہر کیا کہ تمباکو کی صنعت پر ٹیکس حکومت کے لیے محصولات میں اضافے کے ساتھ ساتھ سگریٹ نوشی کے رجحان میں کمی لانے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔اس موقع پر سید عالم رضا نے نادرا کی نمائیندگی کرتے ہوئے کہا کہ سٹیمپ ایک ایسا طریقہ کار ہے جس کی مدد سے سگریٹ کی صنعت میں مختلف طرح کی غیر قانونی سرگرمیوں پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جعل سازی اور غیر قانونی تجارت کے باعث اس صنعت میں ہر سال حکومت کو محصولات کی مد میں بھاری نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا جن ممالک میں ڈیجیٹل سٹیمپ کا طریقہ اپنایا گیا ہے وہاں سگریٹ کی غیر قانونی تجارت میں خاطر خواہ کمی آئی ہے اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو یہی طریقہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ایس ڈی پی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے مسئلے کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ سگریٹ اور تمباکو کے استعمال پر ٹیکس ایک نظر انداز شدہ معاملہ رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ مختلف طاقتور گروپ اپنا اثرو رسوخ استعمال کرتے ہوئے اس ضمن میں اقدامات کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔انہوں نے خبردار کیا کہ افواہوں کے برعکس کورونا وبا سگریٹ نوشی کے مضر اثرات جن میں پھیپھڑوں کی بیماریاں شامل ہیں، کی موجودگی میں زیادہ خطرناک اثرات کی حامل ہو سکتی ہے۔ٹی بی اور پھیپڑوں کی بیماریوں کے خلاف اتحاد کے مشیر ڈاکٹر فواد اسلم کا کہنا تھا کہ ٹیکس سگریٹ نوشی پر قابو پانے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے پاکستان کی مارکیٹیں جعلی سگریٹوں سے بھری پڑی ہیں اور ان کی فروخت سے حکومت کو کسی طرح کا محصول حاصل نہیں ہوتا۔اتحاد کے فوکل پرسن خرم ہاشمی نے کہا کہ پاکستان میں سگریٹ کے پیکٹس کے اوپر انتباہ کی تصاویر موجود ہونے کی شرح بھی محض 60 فیصد ہے۔
جس میں اضافے کی اشد ضرورت ہے۔ ایف بی آر کے نمائندے طارق حسین شیخ نے کہا کہ ان کا ادارہ تمباکو کی صنعت پر ٹیکس کی وصولی یقینی بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ایس ڈی پی آئی کے جائنٹ ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر وقار احمد نے اس امر پر تحقیق کی ضرورت پر زور دیا کہ ایک پروگریسو مالیاتی پالیسی کس طرح تمباکو کی صنعت اور اس کی پیداوار کے ضمن میں درپیش مسائل کو حل کرنے میں معاون ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اراکین پارلیمنٹ، میڈیا اور سول سوسائٹی کا ایک اتحاد اس صنعت کے منفی پھیلاؤ کو روکنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ ایس ڈی پی آئی کے وسیم افتخار جنجوعہ نے بھی سگریٹ کی صنعت کے حوالے سے مختلف مسائل پر روشنی ڈالی۔

مزید :

کامرس -