ٹریفک حادثات موت کی بڑی وجہ
پاکستان سمیت دنیا بھر میں 17 نومبر کوسڑکوں پر ٹریفک حادثات کے متاثرین کی یاد کا دن منایا گیا، اِس دن ٹریفک حادثات میں جاں بحق اور زخمی ہونے والوں کو خصوصی طور پر یاد اور ایمرجنسی سروسز کے عملے کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ برطانوی روڈ کریش وکٹمز چیریٹی نے 1993ء میں اِس دن کو متعارف کرایا تھا جس کے بعد ہر سال نومبر کے تیسرے اتوار کو عالمی سطح پر اس کو منانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔دنیا بھر میں سڑک پر ہونے والے حادثات کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) تنبیہہ کر چکا ہے کہ 2030ء تک دنیا بھر میں ٹریفک حادثات موت کا پانچواں بڑا سبب ہوں گے۔ اِس ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہر 24 سیکنڈ میں روڈ ایکسیڈنٹ کی وجہ سے ایک موت واقع ہوتی ہے، ہر سال 13.5 لاکھ افراد روڈ ایکسیڈنٹ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ دنیا کے چھ براعظموں میں ٹریفک حادثات کے نتیجے میں سب سے زیادہ اموات ایشیاء میں ہوتی ہیں جہاں سالانہ ساڑھے سات لاکھ افراد سڑک حادثات کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اِس حوالے سے قرارداد منظور کی گئی اور اِسی تناظر میں رواں سال جولائی میں ایک عالمی آگاہی مہم کا آغاز کیا گیا جس کا مقصد سڑکوں پر لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے اور قانون کے مطابق راستوں کو محفوظ بنانے پر زور دینا تھا تاکہ 2030ء تک سڑکوں پر حادثات میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی تعداد میں پچاس فیصد کمی لائی جا سکے۔ اقوامِ متحدہ کے خصوصی نمائندے کے مطابق نیویارک سے شروع ہونے والی یہ مہم آئندہ سال بھر جاری رہے گی، جس میں 80 ممالک کے ایک ہزار شہروں میں بِل بورڈز، سوشل میڈیا اور دیگر پلیٹ فارم کے ذریعے لوگوں میں آگاہی پیدا کی جائے گی۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ زیادہ تر ممالک کے سیاسی ایجنڈے میں اِس طرف زیادہ توجہ نہیں کی جاتی، حادثات کی تعداد میں نمایاں کمی لانے کے طریقوں سے تو سب ہی واقف ہیں لیکن اِس حوالے سے عملی اقدامات کی کمی ہے۔ اقوام متحدہ کے نمائندے کا یہ بھی کہنا تھا کہ سڑکوں پر ہونے والے حادثات 5 سے 29 سال تک عمر کے لوگوں کی اموات کی بڑی وجہ ہیں، زیادہ تر یہ حادثات کم اور متوسط درجے کی آمدنی والے ممالک میں ہوتے ہیں، ہر سال 12 لاکھ لوگ ہلاک جبکہ چار سے پانچ کروڑ زخمی ہو جاتے ہیں جن میں سے کئی زندگی بھر کے لیے معذور ہو جاتے ہیں۔ اُن کے مطابق تعلیم، اطلاعات، نفاذِ قانون، بہتر سڑکوں اور گاڑیوں کے ذریعے حادثات میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ گاڑی میں سیٹ بیلٹ پہنیں، موٹر سائیکل چلاتے ہوئے ہیلمٹ کا استعمال کریں، ڈرائیور دورانِ سفر موبائل فون پر بات کرنے اور تیزرفتاری سے پرہیز کریں تو حادثات میں کمی لائی جا سکتی ہے۔
پاکستان میں لگ بھگ ہر پانچ منٹ میں ایک شخص ٹریفک حادثے کا شکار ہو کر زخمی یا جاں بحق ہو جاتا ہے، سالانہ 26 ہزار چھوٹے بڑے حادثات رونما ہوتے ہیں اور قریباً 30 ہزار افراد اِن ٹریفک حادثات میں اپنی جان گنوا بیٹھتے ہیں جبکہ زخمی ہونے والوں کی تعداد 50 ہزار سے زائد ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ٹریفک حادثات میں صرف انسانی جان ہی ضائع نہیں ہوتی بلکہ یہ ملکی معیشت پر بھی ایک بوجھ بنتے ہیں، یہاں ہر سال نو ارب ڈالر زخمی افراد کی طبی امداد اور تباہ شدہ گاڑیوں کی مرمت پر خرچ ہو جاتے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق ملک میں 80 سے 90 فیصد ٹریفک حادثات تیز رفتاری کی وجہ سے ہوتے ہیں اور ان میں سے 70 فیصد حادثات ٹریفک قوانین کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے پیش آتے ہیں۔ ٹریفک حادثات سے متاثرہ افراد کی یاد کے عالمی دن کے حوالے سے لاہور میں ہونے والی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ایمرجنسی سروسز اور صحت پنجاب کے وزیر خواجہ سلمان رفیق نے بتایا کہ 83 فیصد ٹریفک حادثات میں کسی نہ کسی صورت میں موٹر سائیکل سوار ذمہ دار ہوتا ہے، اِس کی رفتار 50 کلومیٹر فی گھنٹہ سے کم ہونی چاہئے۔
اِس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ ٹریفک حادثے میں کبھی بھی کوئی بھی اپنی جان سے ہاتھ دھو سکتا ہے، ذرا سی لاپرواہی دوسرے کی موت کا سبب بن جاتی ہے۔پاکستان میں تو ہر طرف ٹریفک کا طوفان ہے، بڑے شہروں میں گاڑی سے گاڑی لگی ہوتی ہے، ٹریفک قوانین کو ہوا میں اڑا دیا جاتا ہے، رہی سہی کسر ڈرائیور موبائل فون استعمال کر کے پوری کر دیتا ہے۔لوگ ٹریفک سگنل پر صرف اِس وقت رکتے ہیں اگر اُنہیں وارڈن کھڑا نظرآ جائے اور چالان کا ڈر ہو۔ ٹریکٹر ٹرالیاں چلانے والے بے دھڑک چلتے ہیں،بسیں اور کوچ تیز رفتاری کے باعث اُلٹ جاتی ہیں، کم عمر بچوں کو موٹر سائیکل حتیٰ کہ چنگ چی رکشہ بھی چلانے کو دے دیا جاتا ہے،اِن بچوں کا لائسنس نہیں بنا ہوتا، ٹریفک کے اصولوں کے بارے میں معلوم نہیں ہوتا لیکن وہ سڑک پر موجود ہوتے ہیں۔پوش علاقوں میں کم عمر بچوں کو گاڑی دے دی جاتی ہے، وہ جوانی کے جوش میں تیز رفتار میں گاڑی چلاتے ہیں، گاڑی بے قابو ہوتی ہے اور قریب سے گزرنے والا کوئی بھی معصوم انسان جان سے چلا جاتا ہے۔لاہور میں ڈیفنس کے علاقے میں ایسے واقعات آئے روز ہوتے رہتے ہیں، جن میں لوگ اپنی جان سے چلے جاتے ہیں، کراچی اور دوسرے بڑے شہروں میں بھی ایسے ہی مسائل ہیں۔ یہاں لوگ لائسنس کی اہمیت سے ہی واقف نہیں ہیں، ٹیسٹ دینے اور تمام تر قوانین کے بارے میں جانکاری حاصل کرنے کا رواج تو بہت ہی کم ہے۔دنیا بھر میں ڈرائیونگ لائسنس لینا جان جوکھوں کا کام ہے لیکن پاکستان میں گھر بیٹھے یہ سہولت دستیاب ہو جاتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹریفک حادثات کے بڑھنے کا سبب ٹریفک قوانین سے عدم واقفیت، لاپرواہی، گاڑیوں میں ہونے والی تکنیکی خرابیاں ہیں۔ حکومت کو اِن مسائل کی طرف فوری توجہ دینی چاہئے، سکولوں میں بچوں کو ٹریفک قوانین کے متعلق معلومات فراہم کی جانا چاہئیں، بغیر ٹیسٹ کسی صورت ڈرائیونگ لائسنس جاری نہیں ہونا چاہئے، روڈ سیفٹی پر کام کرنے کے لیے ایک خود مختار ادارہ بنانا چاہئے۔ ٹریفک حادثات میں کمی لانے کے لئے حکومت و عوام دونوں پر ہی اپنی ذمہ داری سمجھنا اور نبھانا لازم ہے۔