کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے۔۔۔۔داستان دنیائے سخن کی معتبر ہستی مظفر وارثی کی

کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے۔۔۔۔داستان دنیائے سخن کی معتبر ہستی مظفر ...
کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے۔۔۔۔داستان دنیائے سخن کی معتبر ہستی مظفر وارثی کی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

آج ہم آپ کو داستانِ  فن سنائیں گے مظفر وارثی کی ۔۔۔

مظفر وارثی دنیائے سخن کا ایک معتبر نام ہے۔ حمد ہو یا نعت، غزل ہو یا نظم، گیت ہو یا قطعات، ہر صنف سخن میں انہوں نے اپنے فن کا لوہا منوایا ہے۔

مظفر وارثی 20 دسمبر 1933ء کو میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم میرٹھ کے ہائی سکول سے حاصل کی۔ 1947ء میں لاہور آ کر میٹرک کیا اور سٹیٹ بینک آف پاکستان میں ملازم ہو گئے۔ مظفر وارثی کا شمار پاکستان کے نامور نعت خواں اور بہترین شاعروں میں ہوتا ہے۔ 1981ء میں انہیں ریڈیو پاکستان کی جانب سے بہترین نعت خواں کا ایوارڈ دیا گیا۔ 1988ء میں حکومت پاکستان کی طرف سے پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا گیا۔
مظفر وارثی نے اپنی شاعری کا آغاز غزلوں، نظموں اور فلمی گیتوں سے کیا۔ بعد ازاں انہوں نے خود کو حمدیہ اور نعتیہ کلام کے لیے مخصوص کر لیا۔ وہ بلاشبہ عہد جدید کے ان چند شاعروں میں سے ہیں جنہیں غیر ممالک میں بھی دلچسپی سے پڑھا اور سنا جاتا ہے۔ ان کی شاعری میں فکر اور سوچ اپنے تمام تر رنگوں میں عیاں ہیں۔ ان کا ہر مجموعہ دوسرے سے بڑھ کر خوبصورت اور دلکش ہے۔

پاکستان کی مشہور جذبہ حب الوطنی سے سرشار فلم ’’ہمراہی‘‘ میں مسعود رانا کے گائے ہوئے نغمے مظفر وارثی نے لکھے تھے۔
٭ کیا کہوں اے دنیا والو! کیا ہوں میں
٭ کرم کی اک نظر ہم پر یا رسول اللہﷺ
ٔ٭ مجھے چھوڑ کر اکیلا کہیں دور جانے والے
٭ یاد کرتا ہے زمانہ انہی انسانوں کو
نصرت فتح علی خان کا گایا ہوا مشہور حمدیہ کلام ’’کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے‘‘ بھی مظفر وارثی کا لکھا ہوا ہے۔
مظفر وارثی کے حمدیہ اور نعتیہ مجموعوں میں "الحمد، لاشریک، نورِ ازل، بابِ حرم، میرے اچھے رسول، دل سے درِ نبی تک، صاحب التاج" اور غزلوں اور نظموں کے مجموعوں میں" برف کی ناؤ، کھلے دریچے بند ہوا،راکھ کے ڈھیر میں پھول، لہجہ، تنہا تنہا گزری ہے، دیکھا جو تیرے کھا کے، حصار، ظلم نہ سہنا، لہو کی ہریالی، ستاروں کی آب جو" شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی خود نوشت سوانح ’’گئے دنوں کا سراغ‘‘ بھی شائع ہو چکی ہے۔
مظفر وارثی کا 28 جنوری2011ء بروز جمعہ کو لاہور میں 77 سال کی عمر میں انتقال ہوا۔
ان کی شاعری سے انتخاب پیش خدمت ہے۔
کیا بھلا مجھ کو پرکھنے کا نتیجہ نکلا
زخم دل آپ کی نظروں سے بھی گہرا نکلا

دریا کے کنارے تو پہنچ جاتے ہیں پیاسے
پیاسوں کے گھروں تک کوئی دریا نہیں جاتا

مزید :

ادب وثقافت -