بھٹو کے آخری ایّام , پاکستان کے سابق وزیر اعظم کی جیل میں سکیورٹی پر مامور کرنل رفیع الدین کی تہلکہ خیز یادداشتیں . . . قسط نمبر 9
بھٹو صاحب کی اسیری کے دوران مارشل لاء حکّام کے حفاظتی انتظامات اور طریقۂ کار فوجی طور طریقوں سے بھی زیادہ سخت اور ہوشیاری سے بنائے گئے تھے۔ جیل سپرنٹنڈنٹ تو جیل کا گورنر ہوتاہے۔ اسے تالوں کی چابیاں خود اٹھانے اور ان تالوں کو خود کھولنے کا خیال کیسے آ سکتا ہے جبکہ درجنوں وارڈر اس کے آگے اورپیچھے چلنے کیلئے موجود ہوں۔ مگر مارشل لاء حکّام کے احکامات کے مطابق جب کبھی سپرنٹندنٹ یا ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کو سیکیورٹی وارڈ میں خود اکیلے یاکسی بالا آفیسرکے ساتھ جانا ہوتا تو تمام تالوں کی چابیاں وہ خود اٹھاتا۔ خود ہی تمام تالوں کو کھولتا اور خود ہی بند کرتا۔
جیل میں ایک وارڈ رچار گھنٹے لگا تار ڈیوٹی دیتا ہے۔ اتنی لمبی مدت کے مطابق ایک جوان کبھی بھی ضرورت کے مطابق ہوشیار نہیں رہ سکتا۔ یہ وجہ ہے کہ ایک وارڈ اپنی ڈیوٹی کے دوران بیٹھا ہو یااونگھ رہا ہو تو اس کی ڈیوٹی میں کوئی خلل تصّور نہیں کیا جاتا۔ اس کے برخلاف فوج میں ایک جوان اپنے دو گھنٹے کی ڈیوٹی کے دوران بیٹھ نہیں سکتا۔ دوسری طرف جب بھی جیل کے حکّام سے مارشل لاء کی سختی سے پابندی کرنے کو کہا گیا تو ہر دفعہ ہی جواب ملا کہ جناب بھٹو صاحب جلد یا بدیر رہا ہو جائیں گے اور پھرانہیں دوبارہ حکومت میں آنے میں کچھ وقت نہ لگے گا۔ ان کی یہی استدعاہوتی تھی کہ مارشل لاء حکّام ان کی نوکری کو کیوں ختم کرانا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ جیل کا ہر فرد بھٹو صا حب پر ڈیوٹی کو پوری پابندی کے ساتھ دینے کو تیار اورسنجیدہ نہ تھا۔
بھٹو کے آخری ایّام , پاکستان کے سابق وزیر اعظم کی جیل میں سکیورٹی پر مامور کرنل رفیع الدین کی تہلکہ خیز یادداشتیں . . . قسط نمبر 8 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
بہرحال حکّامِ بالا کے باربار معائنہ اور تنبیہ پر جیل حکاّم نے کسی حد تک اپنے رویئے میں کچھ تبدیلی کر ہی لی لیکن ان پر پورا بھروسا نہیں کیا جا سکتا تھا۔ چونکہ ڈیوٹی افسر کی نگاہ تقریباًہر جگہ پہنچ جاتی تھی اور ڈیوڑھی کے اوپر والے فوجی سنتری بھی سیکیورٹی وارڈ میں ہر جنبش کو بخوبی دیکھ اور سن سکتے تھے‘ پھرانٹیلی جنس کا نظام بھی اندرونی حالات سے آگاہی رکھتا تھا اسلئے جیل حکّام کسی چیز کو زیادہ چھپا کر نہ رکھ سکتے تھے اور ان کو اپنی غلطی یا لاپرواہی کا جواب دینا پڑتا تھا اسلئے انہیں چاروناچار کام کو درست طریقے سے کرنا ہی پڑتا تھا۔
شروع کے دنوں میں ہی جیل سپرنٹنڈنٹ اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ نے بھٹو صاحب کے معلوم کرنے پر یا اپنی طرف سے ان کو بتا دیا تھا کہ ان کا کمرہ بگڈ( Bugged ) ہے۔ وہ بھٹو صاحب کو اشارے سے دالان میں بلا کر ان سے بات چیت کیا کرتے تھے۔ انہی دنوں میں یہ حضرات بھٹو صاحب کو کچھ زیادہ ہی خوش کرنے کی کوشش میں تھے اور جب بھی بھٹو صاحب نے کسی چیز پر اعتراض کیا تو انہوں نے سب قصور کرنل انچارج پر تھوپ دیا۔ شاید بھٹو صاحب کے پوچھنے پر انہوں نے میرا نام کرنل امجد بتایا اور کہا کہ یہ شخص سخت سر پھرا ہے اور ان کے سخت مخالفوں میں سے ہے۔ یہی وجہ تھی کہ شروع شروع کے ایّام میں بھٹو صاحب کے وکلاء نے ان کے بیان کا حوالہ دے کرپریس میں یہ بیان دیا تھا کہ دراصل جیل سپرنٹنڈنٹ یار محمد نہیں بلکہ کرنل امجد ہے جو مارشل لاء کی طرف سے جیل کے تمام کاروبار کو چلا رہا ہے۔
چند ہفتوں میں جونہی میں نے سیکیورٹی وارڈ جا کر بھٹو صاحب سے خود ملنا شروع شروع کیا تو ایک دو ملاقاتوں میں ہی بھٹو صاحب جیسے زیرک انسان نے مجھے اچھی طرح پرکھ لیااور بھٹو صاحب کا جیل سپرنٹنڈنٹ سے اعتبار اٹھ گیا۔ کچھ مدت بعد ایک دفعہ جب جیل سپرنٹنڈنٹ سیکیورٹی وارڈمیں ان سے ملنے گئے تو بھٹو صاحب نے ان کو دیکھ کر کہا’’ یہ رنجیت سنگھ کی اولاد آرہی ہے‘‘۔ ان ریمارکس کو جیل سپرنٹنڈنٹ نے اپنے کانوں سے سنا تھابلکہ ان کے ساتھ وارڈوں اور اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ نے بھی سنا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس دن سے ان کا بھٹو صاحب کے متعلق رویہّ بالکل بدل کیا تھا۔ حتیٰ کہ اس کے بعد انہوں نے سیکورٹی وارڈ جانا ہی چھوڑ دیا اور جب تک انہیں بھٹو صاحب نے کہہ کر نہ بلایا ہو‘ وہ خود آنا پسند نہیں کرتے تھے۔
جب میں نے بھٹو صاحب سے ملنا شروع شروع کر دیااور ہم بہت حد تک بے تکّلف ہو گئے تو انہوں نے جیل حکّام کے قصّے مجھے سنائے جو وہ شروع شروع کے ایّام میں میرے متعلق ان کو سنایا کرتے تھے۔
بیگم بھٹو کی پہلی ملاقات۔ 21مئی1978ء کی صبح بیگم نصرت بھٹو کو بھٹو صاحب سے جیل میں ملاقات کیلئے پی آی اے کے ذریعے ایک سپرنٹنڈنٹ پولیس کی معیت میں کراچی سے راولپنڈی لایا گیا۔ پولیس کار انہیں ایئرپورٹ سے جیل تک لائی۔ اس ملاقات کی خبر پریس میں چھپ چکی تھی اس لئے جیل کے باہر اس دن اچھا خاصا ہجوم ہو گیا تھا۔ کار کو جیل کے اندر ڈیوڑھی میں پارک کیا گیا۔ بیگم صاحبہ نے گاڑی کے رک جانے کے بعداپنے پرس سے ایک پرفیوم کی بوتل نکالی اور اس سے اپنے آپ پر سپرے کیا۔ جس کی مسرُور کُن مہک نے جلد پوری ڈیوڑھی کو معطّر کر دیا۔ وہ کار سے بڑی شان و شوکت کے ساتھ باہر تشریف لائیں۔ اس دن خوش لباسی کے ساتھ انہوں نے عمدہ میک اپ بھی کر رکھا تھا۔ انہیں جیل سپرنٹنڈنٹ‘ جو ڈیوڑھی میں ان کے استقبال کیلئے کھڑے تھے‘ سیدھے سیکیورٹی وارڈ کی طرف لے کر چل دیئے۔ اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ عمر دراز اور میں بھی کچھ فاصلے پر پیچھے پیچھے ہولئے۔ بیگم صاحبہ جوں ہی سیکیورٹی وارڈ کے صحن کے دروزے پر پہنچیں تو انہوں نے سنتری کیلئے لگے ہوئے الارم کے سوئچ کو لپک کردبا دیا جس سے سیکیورٹی وارڈ میں الارم گونج اٹھا۔ تمام گارڈیں پہلے ہی’’ اسٹینڈ ٹو‘‘ کی حالت میں تھیں اور بیگم بھٹو کے ساتھ پوری پارٹی کو آتے دیکھ رہی تھیں‘ انہیں عدم تعمیل( No Action ) کا اشارہ دے دیا گیا۔ اب بیگم صاحبہ کو بھی محسوس ہو گیاکہ یہ بٹن عام گھنٹی کا نہیں ہے پھر چودھری یا ر محمد نے بھی آہستہ سے انہیں بتایاکہ یہ بٹن نہ دبائیں کیونکہ یہ گارڈ کیلئے ہے۔ دالان سے باہر والے تالے کو بھی کھولا گیا اور اندر والے سنتری کو باہر جانے کا اشارہ ہوا اور بیگم صاحبہ‘ بھٹو صاحب کے سیل میں بھیج دی گئیں۔
بیگم نصرت بھٹو‘ محترمہ بے نظیر بھٹو اور ڈاکٹر نیازی کی ملاقات کے وقت اسپیشل پولیس کا ایک انسپکٹر ان کی ملاقات کی نگرانی کرنے جیل آیا کرتا تھا۔ مارشل لاء حکام نے اس کو دالان کے اندر ‘ بھٹو صاحب کے سیل کے دروازے کے نزدیک بیٹھنے کی اجازت دے رکھی تھی۔ وہ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کے ہمراہ وہاں بیٹھ گیا۔ خیال تھاکہ ملاقات کوئی گھنٹہ بھر ہو گی‘ مگر بیگم بھٹو صبح نو بج کر پینتیس منٹ(9:35) سے لے کر بارہ بجکرپینتیس منٹ(12:35) دوپہر تک یعنی تین گھنٹے سیل میں رہیں۔ پہلی ملاقات اتنی لمبی ہو جانے کی وجہ سے مارشل لاء حکّام نے پوچھنا شروع کر دیا۔ جس پر ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ سے کہا گیا کہ یاد دہانی کرا دی جائے۔
ملاقات کے بعد جب بیگم بھٹو جیل سے راوانہ ہو گئیں تو ڈپٹی نے بتایاکہ انہوں نے آخری تیس چالیس منٹوں میں چند مرتبہ یاددہانی کرائی۔ لیکن چونکہ بیگم صاحبہ نے اپنی تیاری کرنے پر کافی وقت لے لیا تھا اس لئے اتنی دیر ہو گئی۔ بعد کی ملاقاتوں میں بھی بیگم بھٹوہمیشہ کچھ وقت یاددہانی کے بعد ضرور لیا کرتی تھیں۔
(جاری ہے...اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں )
کمپوزر: طارق عباس