پاکستان کے سابق وزیر اعظم کی جیل میں سکیورٹی پر مامور کرنل رفیع الدین کی تہلکہ خیز یادداشتیں ۔۔۔قسط نمبر10
بھٹو صاحب کی پنڈی جیل میں اسیری کے وقت17مئی1978ء سے 3 اپریل1979ء کے دوران بیگم نصرت بھٹو صاحبہ چوالیس بار ان کے سیل میں ملاقات کیلئے آئیں۔ ان ملاقاتوں میں انہوں نے ایک سو دس گھنٹے اور بیس منٹ 110:20) گھنٹے) کا مجموعی وقت بھٹو صاحب کے ساتھ ان کے سیل میں گزارا۔
محترمہ بے نظیر کی ملاقاتیں
بیگم بھٹو کی طرح محترمہ بے نظیر بھٹوبھی کراچی سے ہر ہفتے ایک پولیس افسر کی معیت میں پی آئی اے کے ذریعے راولپنڈی لائے جاتی تھیں۔ ان کی ملاقات کا طور طریقہ تقریباً بیگم بھٹو جیسا ہی ہوتا تھا۔ باپ بیٹی کی ملاقات کے دوران بہت کچھ تبادلۂ خیال خاموش اشاروں کی زبان میں کیا جاتا جو زیادہ تر سرگوشیوں کے ذریعے یا پھر لکھ کر سمجھایا یا منتقل کیا جاتا تھا۔ ایسی ملاقاتوں کے دوران لوگوں کے کان کھڑے ہوتے رہتے تھے لیکن ریکارڈ صرف وہی ہوتا تھا جوبھٹو کنبہ چاہتا تھا کیونکہ ان کی ملاقات کے دوران کافی دیر کیلئے کاغذ کے اوراق الٹنے پلٹنے کی آواز سنائی دیتی یا بالکل خاموشی چھائی رہتی۔ اگر بھٹو صاحب حکّام کو کچھ بتانا چاہتے یا انہیں گمراہ کرنا چاہتے توپھر اونچی آواز سے بات چیت شروع ہو جاتی ورنہ پھر اچانک ایسی خاموشی جیسے بیٹھنے والے سیل سے باہر نکل گئے ہوں۔
شروع شروع کی دوسری یا تیسری ملاقات کے دوران اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ عمر دراز نے بھٹو صاحب کے سیل کے اندر جھانکا تا کہ بتایا جائے کہ جناب وقت بہت ہو گیا ہے اور ملاقات ختم کریں۔ اس نے دیکھا کہ باپ بیٹی ایک ہی چار پائی پر دراز ہیں اور ان کے چہرے نزدیک ہیں۔ یہ دیکھ کر وہ فوراً پیچھے ہٹ گئے۔ ملاقات کے بعد محترمہ بے نظیر سیدھی سپرنٹنڈنٹ جیل کے دفتر میں آئیں اور انہوں نے اپنی نا خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کم ازکم جیل حکّام کو اتنی خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرنا چاہئے کہ ہماری ملاقات کے دوران خلل اندازی نہ ہو اور چیئرمین صاحب کی خلوت ( Privacy )میں مداخلت نہ کی جائے۔ انہوں نے مارشل لاء حکّام کو بھی برا بھلا کہا۔ ان کے چلے جانے کے بعد اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ نے پوری کہانی سنائی کہ محترمہ بے نظیر کی ناراضگی کی اصل وجہ کیا تھی۔ یہ سن کر ہر ایک نے بڑی حیرانگی کا اظہار کیا۔ میں نے ان کو سمجھایا کہ آپ لوگ بھی تو بھٹو صاحب سے راز کی بات کرنا چاہیں تو ان کو اشارے سے سیل سے باہر بلا لیا کرتے ہیں۔ محترمہ بے نظیر تو ان کو سیل سے باہر نہیں لا سکتیں اور باپ بیٹی میں تو ہزارہا ایسے راز ہوں گے جو وہ دوسروں سے چھپانا چاہیں گے اور ان کے پاس تو صرف کان میں سرگوشیوں کا ہی ایک طریقہ موجود ہے۔ بہر حال جیل حکّام میں یہ موضوع کافی دنوں تک زیرِ بحث رہا۔
محترمہ بے نظیر نے بھی بھٹو صاحب کے ساتھ چوالیس بار جیل میں ملاقات کی اور اپنے والد کے ساتھ مجموعی طور پر ایک سوچھ گھنٹے اور پندرہ منٹ106:15) گھنٹے) سیل میں گزارے۔
ایک نا خو شگوار واقعہ۔ بھٹو صاحب کے راولپنڈی جیل منتقل ہو جانے کے بعد مارشل لاء حکاّم کو اطلاع ملی کہ بھٹو صاحب اپنے دفاع میں ایک کتاب لکھ رہے ہیں جس کیلئے انہیں ہر قسم کا مواد‘ ملاقاتیوں خاص کر بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹوکے آتے جاتے تلاشی لی جائے۔ حکّام کا شروع میں خیال تھاکہ وہ وکلاء کو بھی تلاشی سے مستثنیٰ نہ کریں‘ لیکن سپریم کورٹ نے ان کی تلاشی نہ لینے کیلئے کہا البتہ کورٹ نے وکلاء کو ویسے ہی خبردار کر دیاکہ شک ہونے کی بنا پر ان کی بھی جانچ پڑتال ہو سکتی ہے۔ اس حکم کے فوراً بعدمحترمہ بے نظیر بھٹو راولپنڈی جیل میں اپنے والد صاحب سے ملنے آئیں۔ ان کے پاس ایک کافی بھاری بیگ تھا۔ جیل سپرنٹنڈنٹ نے پہلے ہی ایک ہیڈوارڈر سے کہ دیا تھاکہ ان کا سامان ان سے لے کر ڈپٹی کے دفتر کے اندر چلا جائے گا اور اسے کھول کر دیکھے گا کہ اس میں کیا کچھ ہے۔ جونہی محترمہ بے نظیر ڈیوڑھی میں پولیس کار سے اتریں تو ہیڈ وارڈ نے اندر جا کر بیگ کی زنجیری کھولی ہی تھی کہ محترمہ بے نظیر بھی اس دفتر میں داخل ہو گئیں اور اسے کہا’’ او بے وقوف! تم میرے بیگ کی تلاشی کیوں لے رہے ہو؟‘‘
You, idiot! Why you are searching my bag?
اسے برا بھلا کہنے کے بعدانہوں نے مارشل لاء حکّام کو بھی سنائیں مثلاً’’ بلڈی چور اور بد نیّت لوگ۔ وہ چوروں کی طرح رات کو اندھیرے میں آئے ٹینک اور توپیں اپنے ساتھ لائے اور آئینی اور جمہوری وزیراعظم کو بر طرف کیا‘ وغیرہ وغیرہ‘‘
یہ کہتے ہوئے ھیڈوارڈ کے ہاتھ سے بیگ چھین لیا ۔ جیل سپرنٹنڈنٹ ہکا بکا رہ گیا۔ لیکن پھر بھی اس نے ان کو اندر جانے دیا اور بھٹو صاحب سے ملاقات کرادی۔ جب مارشل لاء حکّام کو اس کے متعلق بتایا گیا تو حکم ملا کہ آئندہ ماں ‘ بیٹی یا کوئی دوسرا ملاقاتی پوری تلاشی نہ دے تو اسے اندر ملاقات کیلئے نہ جانے دیا جا ئے اور بغیر ملاقات واپس کر دیا جائے حتیٰ کہ بیگم بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے پرسوں( Purses ) کی بھی تلاشی لینے کا حکم صادر ہو گیا۔
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)
کمپوزر: طارق عباس