بھٹو کے آخری ایّام , پاکستان کے سابق وزیر اعظم کی جیل میں سکیورٹی پر مامور کرنل رفیع الدین کی تہلکہ خیز یادداشتیں . . . قسط نمبر 8
جونہی بھٹو صاحب کوسنٹرل جیل راولپنڈی منتقل کرنے کا فیصلہ ہو ا اس وقت جیل میں بہت سے ایسے لوگ بھی قید تھے جو پاکستان پیپلز پارٹی تعلق رکھتے تھے یا انہیں مارشل لاء حکّام نے ان کی معمولی کوتاہیوں پر سزا دی تھی۔ ایسے سب قیدیوں کی فہرستیں تیار کی گئیں اور انہیں پنڈی سے باہر دوسری ضلعی جیلوں میں منتقل کر دیا گیاتاکہ بھٹو صاحب کی اسیری کے دو ران کو ئی گڑبڑ یا بلوہ وغیرہ نہ ہو۔
حکّام نے یہ بھی فیصلہ کیا کہ جب تک مسٹر بھٹوکو راولپنڈی جیل میں رکھا جائے کوئی قیدی جس کا پی پی پی سے تعلق ہو اس جیل میں نہ لایا جائے۔ اس فیصلہ پر پنڈی جیل کے حکّام بہت خوش تھے کہ ان کی جیل کو صاف کر دیا گیاہے۔
بھٹو کے آخری ایّام , پاکستان کے سابق وزیر اعظم کی جیل میں سکیورٹی پر مامور کرنل رفیع الدین کی تہلکہ خیز یادداشتیں . . . قسط نمبر 7 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ملاقاتی۔ بھٹو صاحب سے ہر خاص وعام کو ملنے کی اجازت نہ تھی۔ ان سے ملنے کیلئے سپریم کو ٹ یا حکومتِ پنجاب کے ہوم سیکر ٹری کا اجازت نامہ ہونا ضروری تھا۔ سپریم کورٹ ایسا کوئی بھی حکم سپرنٹنڈنٹ جیل راولپنڈی کو بھیجتا جو ایسے احکامات پر عمل کرنے سے پہلے مجھے اور ایس ایم ایل اے کو اطلاع کرتا اور اگر ضرورت سمجھی جاتی تو عمل سے پہلے ایس ایم ایل اے حکّا مِ بالا سے مشورہ کر لیا کرتے تھے۔ حکومت کا ہوم ڈیپارٹمنٹ جب بھی کوئی اجازت نامہ یا حکم جیل سپرنٹنڈنٹ کو بھیجتا اس کی نقل مجھے بھی دی جاتی اورایس ایم ایل اے اور ڈی ایم ایل اے کو الگ الگ اطلاع دی جاتی اور عمل درآمد سے پہلے مجھے ان حکّام سے اجازت لینی ہوتی تھی۔ ابتدائی ایّام میں مندرجہ ذیل ملاقاتیوں کا آنا جانا رہا۔
ا۔ وکلاء.... بھٹو صاحب کے اس کیس کی یحییٰ بختیار‘ دوست محمد اعوان‘ عبدالحفیظ لاکھو اور آخری دنوں میں عبدالحفیظ پیرزادہ نے بھی پیروی کی۔ سپریم کورٹ نے ایک وقت میں صرف دو وکلاء کو بھٹو صاحب سے روزانہ ایک گھنٹہ ملنے کی اجازت دے رکھی تھی۔ جمعہ اور تعطعلات کے دنوں میں وکلاء جیل نہیں آ سکتے تھے۔ شروع شروع میں وکلاء کو دن کے دو سے تین بجے تک جیل میںآنے کی اجازت تھی لیکن بعد میں شام چھ سے آٹھ بجے کے دوران صرف ایک گھنٹہ کیلئے باہر صحن میں بیٹھ کر بھٹو صاحب سے ملنے کی اجازت ہو گئی تھی۔ ب۔ بیگم وبیٹی....عام حا لت میں پھانسی کے سزا یافتہ قیدی کے ملاقاتیوں کو جیل حکّام کی مرضی پر چند منٹ ملاقات کی اجازت دی جاتی ہے اور ایسی ملاقات قانونی طور پر بیس منٹ تک ہو سکتی ہے۔ بیگم بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کو ہفتہ میں الگ الگ ایک مرتبہ ملاقات کی اجازت تھی۔ یہ دونوں بیگمات کراچی سے پولیس کے ایک افسر کی نگرانی میں ہوائی جہاز سے راولپنڈی لائی جاتی تھیں اور ملاقات کے فوراً بعد اگلی فلائٹ سے واپس کراچی لے جائی جاتی تھیں۔
بیگم نصرت بھٹو پہلی مرتبہ21مئی1978ء صبح ساڑھے نو بجے جیل میں ملاقات کیلئے لائی گئیں۔ ان کی یہ ملاقات بھٹو صاحب کی کوٹھڑی میں کرائی گئی جو بارہ بج کر35 منٹ تک جاری رہی۔ اس ملاقات سے ایک دن پہلے ایس ایم ایل اے بریگیڈئیر ایم ممتاز ملک نے مجھے اپنے دفتر میں طلب کیا۔ وہ ایک دانشور قسم کے بہت ہی شریف اورنیک دل انسان ہیں۔ وہ اپنے کام میں ماہر اور کامل شخص ہیں۔ مجھے ان جیسے بہت کم کمانڈروں کے تحت کام کرنے کا موقع ملا ہے۔ انہوں نے مجھے بتایا ہمیں بہت سخت کام سونپا گیا ہے۔ ایک طرف ہمارے ملک کے سابق سربراہ ہیں جنہیں بدقسمتی سے ایک مقدمے کے سلسلے میں گرفتار کر لیا ہے اور دوسری جانب موجودہ حکمران ہیں جن کو ہم نے پوری ایمانداری سے وفاداری دکھانی ہے جس کی ہم نے قسم کھا رکھی ہے۔ ہمیں یہ نہیں سوچنا کہ بھٹو صاحب کا کیس سچا ہے یا جھوٹا۔ یہ کام تو سپریم کورٹ کا ہے۔ ہمیں تو جو ڈیوٹی گئی ہے اسے پورا کرنا ہے۔ لیکن انہوں نے نصیحت کی کہ اس ذمہ داری کو نبھانے میں مجھے غیر جانب دار’ ثابت قدم رہنا ہو گا۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ اگلے دن بیگم بھٹو صاحبہ مسٹر بھٹو سے ملنے آرہی ہیں اور اس کے بعد ان کے باقی رشتہ دار بھی آتے رہیں گے۔ بھٹو صاحب اور ان کے رشتہ داروں سے قانون کے اندر رہ کر عزت سے پیش آنا چاہیے۔ میں جناب ایم ممتاز ملک کا ایسی نصیحت کیلئے تہہ دل سے شکر گزار ہوں۔
دوسرے دن بیگم بھٹو سے پہلے میں نے جیل سپرنٹنڈنٹ سے ایسی ملاقاتوں کے بارے میں مفصل بات چیت کی۔ میں نے انہیں بتایا کہ ملاقات بھٹو صاحب کوٹھڑی کے اندر ہوا کرے گی۔ چونکہ وقت کی کوئی کمی نہیں اس لئے20 یا30 منٹ کی بندش نہیں ہوگی۔ اگر ملاقاتی بہت زیادہ وقت لے لیتاہے تو یاد دہانی کرائی جا سکتی ہے۔
ملاقات کے دوران بھٹو صاحب کو ہر طرح کی خلوت مہیا کی جائے گی۔ وارڈر جواُن کی کوٹھڑی کے دروازے سے ہٹ کر نزدیک دالان میں کھڑا ہوتا ہے‘ وہ دالان سے باہر چلا جایا کرے گا تا کہ ملاقات کے دوران کسی قسم کی خلل اندازی نہ ہو۔ میری ان ہدایات پر جیل سپرنٹنڈنٹ کافی خوش ہوا اور بعد میں کہنے لگا کہ اس کو ڈر تھا کہ مارشل لاء حکّام کہیں وقت کی پابندی کے علاوہ دوسری پابندیاں بھی عائد نہ کر دیں۔
ؓؓؓابتدائی ایآام میں مختلف عناصر کا روّیہ
جیل میں ڈیوٹی کے دوران مجھے ایسا انوکھا تجربہ ہوا جو پہلے کبھی سوچا تک نہ تھا۔ بھٹو صاحب جیسا ایک عظیم لیڈر جیل کی کوٹھڑی میں ایک بپھرا ہوا شیر بیٹھا تھا۔ مارشل لاء تو تمام قاعدوں اور قوانین سے بالا تر ہوتا ہے۔ جیل حکّام ہر ایک کو یس سر( Yes Sir ) کر رہے تھے‘ بیگمات حالات سے سمجھوتہ کرنے کے موڈ میں نظر نہ آرہی تھیں اور میرے جیسا سپاہی‘ جن کیلئے فرض کی ادائیگی ایمان کا جز ہو‘ ان ناموافق حالات میں گھرا ہوا تھا۔ یہ تھے دو متضاد حالات جن کی تفصیل ذیل میں درج ہے۔
شروع شروع کے ایّام میں بھٹو صاحب کا رویّہ
پنڈی جیل میں آمد پر پہلے ہی دن صبح سویرے جب بھٹو صاحب‘ سپرنٹنڈنٹ جیل راولپنڈی اور سپرنٹنڈنٹ جیل کو ٹ لکھپت لاہور‘ سیکیورٹی وارڈ کے صحن میں بیٹھ کر چائے نوش کر رہے تھے توصحن ہی میں ڈیوٹی پر اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ نے ایک کرسی لی اور صحن کے کونے میں لے جا کر بیٹھ گیا۔ بھٹو صاحب کو اس غریب کا اپنے سامنے بیٹھنا پسند نہ آیا اور اس کو خوب جھاڑ پلائی اور اسے کہا کہ تمہیں کس نے اجازت دی ہے کہ تم ہمارے سامنے کرسی پر بیٹھ جاؤ۔ خبرداراگر کبھی پھر ایسی حرکت کی۔ انہی دنوں میں اگرانہوں نے کسی وارڈ کو ڈیوٹی پر دیکھاتو اس پر بھی برس پڑے۔ اس طرح وہ نہ چاہتے تھے کہ ان کی کوٹھڑی پر رات کے وقت تالا لگایا جائے تا کہ وہ جس وقت چاہیں باتھ روم جا سکیں۔ ان کے اس رویئے سے جیل کا ہر شخص ان سے دور بھا گنے کی کوشش کرنے لگا۔ انہوں نے آتے ہی بھوک ہڑتال کر دی۔ سپرنٹنڈنٹ اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ نے ان کی کافی منّت سماجت کی کہ وہ بھول ہڑتال ختم کر دیں مگر انہوں نے اس وقت تک کھانا نہ کھایا جب تک کہ ان کے مطالبات پورے نہ کر دیئے گئے۔ انہوں نے جیل حکّام سے بھوک ہڑتال والے دنوں میں کافی سخت اور ناراضگی کا رویّہ روارکھا۔
مارشل لاء حکّام۔ دوسری طرف مارشل لاء حکّام نے بھٹو صاحب کو قابو میں رکھنے کیلئے حفاظتی انتظامات میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی تھی جس کا کچھ بیان میں پہلے کر چکا ہوں۔ ان کی اسیری کے دوران نت نئے خیالات جنم لیتے رہے ہر روز نت نئی احتیاظی تدابیر عمل میں لائی جاتی رہیں۔ جن کی تفصیل آگے بیان کی جائے گی۔ مارشل لاء حکّام نے بڑی احتیاط کے ساتھ جیل کے ہر فرد کیلئے احکامات جاری کئے۔ اسی طرح پولیس اور فوج کیلئے بھی واضح ہدایات جاری کی گئیں تا کہ بھٹو صاحب کے فرار کے سلسلے میں پیپلز پارٹی کی کوئی تدبیر کامیاب نہ ہو سکے۔ دراصل حکومت ان کے ساتھ پھانسی کی سزا کے مجرم کا سلوک سکھنا چاہتی تھی لیکن ان کے متعلق بے حد متفکّر ہونے کے باعث ضرورت سے کہیں زیادہ حفاظتی اقدامات کر رہی تھی۔
جیل حکّام۔ جیل حکّام کو اس قدر تفصیلی احکامات کے باوجود میں نے اپنی سروس میں اتنی غیر ذمہ داری اور ڈھیلے پن کا مظاہرہ کہیں نہیں دیکھا جو جیل کے اندر واقع ہوا۔ جیل سپرنٹنڈنٹ جیل کے اندر مکمل اختیار ہی نہیں رکھتا عملاً مطلق العنان کی حیثیت رکھتا ہے۔ ڈپٹی اور اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ بھی بڑی شے ہوتے ہیں۔ تمام وارڈر جیل کی مضبوط اور اونچی چاردیواری میں اپنے آپ کو ہر لحاظ سے محفوظ او ر ہر طرح سے قلعہ بند تصوّر کرتے ہیں۔ اگر کسی بھی قیدی کا طور طریقہ جیل کے حکّام کو پسند نہ آئے تو اس کی ایسی مالش کر دی جاتی کہ وہ اپنی بقیہ قید کے دوران کسی غلطی کے بارے میں سوچ بھی نہین سکتا۔ دراصل جیل کی دیواریں اتنی موٹی اور بلند ہوتی ہیں کہ اندر کی کوئی آواز باہر سنائی نہیں دیتی۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے بدمعاش اور غنڈے شریف اور نیک انسان بن جاتے ہیں اور ان کی بدمعا شی والی رگ صرف ان کی رہائی کے بعد ہی پھڑک سکتی ہے۔ جیل کے ساتھ تعلق کے ایک سال کے دوران میں نے مشاہدہ کیاہے کہ جیل میں حفاظتی انتظامات بے حد لاپرواہی سے چلائے جاتے ہیں اور اگر کوئی قیدی جیل سے فرار کی کوشش کرے تو یہ کام ہمارے جیل حکّام کی لاپرواہی کی وجہ سے زیادہ مشکل نہیں تھا۔ (جاری ہے )
کمپوزر: طارق عباس