گھر داماد ۔ ۔ ۔
80ء کی دہائی میں قومی ٹیلی ویژن پر ایک ڈرامہ چلا کرتا تھا جس میں اوپر تلے 6 بہنوں کا ایک ہی بھائی تھا ۔4بہنیں شادی شدہ جبکہ 2ابھی رشتوں کے انتظار میں تھیں. اس میں 4داماد دکھائے گئے تھے ان میں سے 1 داماد بہت اکھڑ اور بدتمیز تھا ۔ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں کو بہانہ بنا کرلڑائیاں کرواتا رہتا تھا اور کبھی خوش نہیں رہتا تھا ۔ کبھی کہتا مجھے یہ عزت نہیں دیتا کبھی کہتا کہ مجھے مکان میں سے حصہ چاہیے ، تو کبھی کہتا مجھے کاروبار کے لئے روپیہ درکار ہے ۔ اس ایک بندے نے سب کی ناک میں دم کیا ہوا تھا ۔
کل اتفاقیہ اپنی ایک پرانی کلاس فیلو مہوش سے سرراہ ملاقات ہوئی تو وہ اپنے گھریلو حالات بتاتے ہوئے رو پڑی ۔ مہوش کی ایک اور بہن بھی ہے اور والدین نے ذات پات کی وجہ سے انھیں اب تک بیاہا نہیں تھا، ظاہرہے کہ اب شادیوں میں تاخیر ہوئی تو رشتوں میں کافی سمجھوتہ کرنا پڑا اور پھر طلاق یافتہ اور رنڈووں کو گھر داماد بھی بنانا پڑ گیا کیونکہ دونوں داماد صرف نان نفقہ پورا کر سکتے تھے گھر بنا کر دینے کی پسلی کسی کی نہ تھی ۔
اب مصیبت یہ تھی کہ وہ بیویوں کے گھر میں رہتےتو تھے لیکن مفت خورے کیونکہ بنا بنایا گھر مل گیا ۔ ساری سہولیات مفت ۔ کبھی بجلی کے بل پر لڑائی تو کبھی گیس کے کنکشن پر ہنگامہ، کبھی بچوں کی لڑائیاں اور کبھی سگی بہنیں آپس میں روٹھ کر بیٹھ جاتیں ۔ یہ آج کل گھر گھر کی کہانی بن گئی ہے ۔ مہنگائی اس قدر ہے کہ ہر بندے کے لئے گھر کے سودا سلف اور باقی چیزوں کے خرچوں سمیت الگ گھر چلانا مشکل ہو گیا ہے ۔ جوائنٹ فیملی کی مصیبتیں بھی جان نہیں چھوڑتیں ۔
اس سارے معاملے میں بنیادی غلطی والدین کی ہوتی ہے کہ ذات پات کے چکر میں اور اچھے سے اچھے کی تلاش میں لڑکیوں کو اپنی دہلیز پر بٹھا کر ان کی عمریں گنوا دیتے ہیں ۔ پھر اسکا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عمر ، تعلیم اور ازدواجی حیثیت کے اعتبار سے حد سے زیادہ سمجھوتہ صرف لڑکیوں کو ہی کرنا پڑتا ہے ۔ اگر تمام بچوں کو مساوی رقم دیدی جائے تو جوائنٹ فیملی کی برائیوں کو کافی حد تک ختم کیا جا سکتا ہے ۔
اسی طرح پہلے تو یہی کوشش کی جائے کہ گھر داماد کی روایت ہی نہ ڈالی جائے لیکن اگر ایسا ہو تو پوری جانچ پڑتال کر کے ہی ایسا ہو ۔ سب دامادوں کو بیٹھ کر یہ باور کروا دیا جائے کہ گھر سب کا ہے لہٰذا اسکے کاموں کے لئے سب کو مل کر کام کرنا اورمشترکہ چیزوں میں مساوی حصہ دینا ہو گا تاکہ گھر بھر میں اعتماد کی فضاء قائم رہے ۔
تمام مسائل باہمی مشورے سے افہام و تفہیم اور تحمل سے حل کرنا چاہیئں ، سگی بہنوں کو بھی یہ سوچنا چاہیے کہ بے شک ہم نے اپنا رشتہ خراب نہیں کرنا لیکن ایک دوسرے کے شوہر کی عزت اور احترام بھی ضروری ہے ۔
ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ آپ کو تو اپنا شوہر دودھ کا دھلا دکھائی دے اور دوسروں پر آپ کیچڑ اچھالیں ۔ اس دنیا میں طرح طرح کے لوگ بستے ہیں، ہر بندے کی عادت مختلف ہے لہٰذا صرف اپنا نہیں دوسروں کا بھی سوچنا چاہیے ۔ اختلافات سے بچنے کے لئے ہر ایک کو ایک دوسرے کو کھلے دل سے قبول کرنا ہو گا ۔ کسی کی زندگی بھی آزار بنانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا ۔ گھر داماد کی کہانی اچھی بھی ہو سکتی ہے اگر ہر کوئی اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر زندگی بسر کرے ۔
۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطۂ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔