بلاول کی حسِ مزاح
بلاول بھٹو کی حسِ مزاح وقت کے ساتھ ساتھ نکھرتی جا رہی ہے۔ ان کے نانا ذوالفقار علی بھٹو کو تو ہم نے سنا نہیں البتہ ان کے والد گرامی آصف زرداری کو ضرور سنا ہے۔ ویسے تو بھٹو صاحب بھی اپنے مخالفین پر غضب کے جملے چست کیا کرتے تھے جسے عوام یاد رکھا کرتے تھے، عمران خان نے کسی حد تک ان کی نقل کی کوشش کی لیکن عمران کے ہاں مخالفین کی تضحیک کا عنصر غالب رہتا تھا، جو غالباً بھٹو کے ہاں نہیں ہوگا کیونکہ ایسا ہوتا تو تاریخ انہیں یوں یاد نہ رکھتی جیسے کہ یادرکھے ہوئے ہے۔ اس حوالے سے یقینا استاد محترم چودھری خادم حسین بہترین کالم لکھ سکتے ہیں کہ بھٹو کی حسِ مزاح کیسی تھی مگر ہم بھٹو کے نواسے بلاول بھٹو تک محدود رہیں گے۔
گزشتہ شب سندھ میں تقریر کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے عمران خان کا ذکر کیا جن کے بارے میں قیدی نمبر 804کا صیغہ ان کی پارٹی کے لوگ فخر سے استعمال کرتے ہیں اور اس پر گانے بنائے جاتے ہیں۔ البتہ بلاول بھٹو نے تقریر میں جب یہ کہا کہ آئینی ترمیم پر پی ٹی آئی کے لوگ اس قیدی سے ملنا چاہتے ہیں جس کا کوئی نمبر ہے، پتہ نہیں کیا نمبر ہے تو اگلے لمحے کہنے لگے کہ ’قیدی نمبر 420‘ جس پر پنڈال میں ہنسی کا فوارہ چھوٹ پڑا ، اس پر بلاول بھٹو نے فوری طور پر وضاحت کی کہ قیدی نمبر 420انہوں نے نہیں بلکہ ان کے کسی ورکر نے لقمہ دیا ہے جسے انہوں نے دہرادیا ہے۔ مگر بلاول جو کہنا چاہتے تھے، کہہ گئے جو یقینی طور پر ایک مشاق سیاستدان کا ہنر ہوتا ہے، اس سے قبل اسلام آباد میں صحافیوں سے ملاقات میں جب ان سے کسی نے سوال کیا کہ وہ شادی کب کر رہے ہیں تو انہوں نے یہ کہہ کر سب کو مسکرانے پر مجبور کردیا کہ ’میری شادی، میری مرضی!‘۔ اس ایک چھوٹی سی بات نے سوال کا رخ کسی اور طرف موڑ دیا اور بات آئی گئی ہو گئی۔
بلاول کے ہاں موجود بذلہ سنجی جس طرح عود آئی ہے اس کا ایک سبب ان کی مولانا فضل الرحمٰن سے ہونے والی تواتر سے ملاقاتیں ہیں جو 26ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے ہو رہی ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن سے بڑا جملے باز شائد ہی کوئی ہو اور یقینی طور پر بلاول اپنے وفد کے ہمراہ جب ان سے ملنے جاتے ہیں تو جہاں خالص ٹھوس آئینی باتیں ہوتی ہوں گی وہاں ہلکی پھلکی گفتگو بھی ہوتی ہوگی جس کا اثر بلاول کی گفتگو میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔ دیکھا جائے تو خود آصف زرداری بھی بڑے کمال کا جملہ پھینکتے ہیں اور نجی گفتگو میں ایسی ایسی باریک بات کرجاتے ہیں کہ سننے والا ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو جاتا ہے۔ یادش بخیر جن دنوں وہ لمبی قید کاٹ رہے تھے اور بی بی بھی قید میں تھیں تو دونوں کو باری باری لاہور ہائیکورٹ میں پیشی کے لئے بکتر بند گاڑی میں لایا جاتا۔ عدالت میں حاضری کے دوران آصف زرداری سے صحافیوں کو بات چیت کا موقع ملتا تو اس دوران وہ چھوٹا سا پنڈال قہقہوں کا پٹارہ بنا رہتا۔ بات بات پر جناب زرداری ایسی پھلجڑی چھوڑتے کہ ہر کوئی مسکرانے، ہنسنے اور قہقہہ لگانے پر مجبور ہو جایا کرتا تھا۔ نوائے وقت کے کورٹ رپورٹر بدر منیر بھی غضب کے جملہ باز رپورٹر تھے۔ جناب زرداری بھی اس بات کو بھانپ گئے تھے۔ چنانچہ ایک مرتبہ جب بدر منیر نے انہیں اپنے سوال کے ذریعے گھیرنے کی کوشش کی تو جناب زرداری نے پنجابی میں یہ کہہ کر کہ ’توں مینوں کسی فلمی رسالے دا رپورٹر لگدا ایں‘ اسی طرح سوال کا رخ بدل دیا جس طرح بلاول بھٹونے اپنی شادی کا سوال خوبصورتی سے ٹال دیا۔ یقینی طور پر بلاول میں بذلہ سنجی اپنے والد سے ودیعت ہوئی ہے جس کا وہ ایک مشاق مقرر کی طرح استعمال بھی کرتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ جس طرح انہوں نے اپنی اردو پر قابو پایا ہے اور اب روانی سے بولتے چلے جاتے ہیں اور چھوٹے چھوٹے جملوں میں بڑی بڑی باتیں کہہ جاتے ہیں، یہ انہی کا خاصہ ہے۔
بلاول بھٹو کے مقابلے میں مریم نواز کے ہاں سنجیدگی پائی جاتی ہے حالانکہ ان کے والد گرامی نواز شریف بھی غضب کے لطیفہ گو اور جملہ چست کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی حال ان کے چچا اور موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف کا ہے۔ ہمارے قارئین سوچ رہے ہوں گے کہ نورتنوں کی طرح ہم موروثی سیاست کے گن گارہے ہیں لیکن ایسے نقادوں کو موروثی سیاست کی اہمیت کااندازہ اس ایک بات سے اچھی طرح ہوگیا ہوگا کہ خالی ایک عمران خان کو جیل ہو جانے سے پوری پی ٹی آئی پس منظر میں چلی گئی ہے اور بار بار کی کال کے باوجود پنجاب میں کوئی بڑا جلسہ تو کیا جلوس بھی نہیں نکالا جا سکا ،یعنی سیاست میں شخصیت کی اہمیت ہوتی ہے جو لیڈرشپ کے رول میں ہوتی ہے اور اس سے لوگوں کی محبت اور عقیدت ان کی اولاد کو آگے لے آتی ہے جس میں اگر کوئی ہنر ہوتا ہے تو اپنا لوہا منواتی ہے وگرنہ قائد اعظم کی اولاد ہونے کے باوجود غیر اہم ہو جاتی ہے۔
اس سے قبل کہ بات کہیں اور نکل جائے، ہم اس بحث کو اس جملے میں بند کرنا چاہیں گے کہ بلاول بھٹو میں آہستہ آہستہ سیاسی رنگ ڈھنگ جھلکنے لگا ہے اور 26ویں آئینی ترمیم کے پاس ہوجانے کے بعد ان کا سیاسی قد کاٹھ مزید اونچا ہوگا اور اپنے نانا، والدہ اور والد کی طرح وہ بھی کریڈٹ لے سکیں گے کہ انہوں نے آئین پاکستان کی پاسداری کے لئے کوئی بڑا کام کیا ہے۔ جہاں تک مریم کا تعلق ہے تو وہ اپنے والد کی طرح ترقیاتی کاموں اور عوامی فلاح کے منصوبوں سے اپنا سیاسی راستہ ہموار کرنے کو ترجیح دے رہی ہیں، جو اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے کیونکہ پاکستان کو آئین بھی چاہئے اور ترقی بھی!