عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا... قسط نمبر 73
دراصل قاسم ’’ابو جعفر‘‘ کو مارسی کا پتہ حاصل کرنے کے بعد اپنے انتقام کا نشانہ بنانا چاہتا تھا۔ وہ آیا صوفیاء کے اس بطریق اعظم ثانی ابوجعفر یا ڈیمونان کو جان سے مارکر اس کا الزام رومن کیتھولک چرچ والوں پر ڈالنا چاہتا تھا تاکہ دونوں کے درمیان نفرت کی خلیج دو چند ہو سکے۔ چنانچہ وہ سوچنے لگا کہ بریٹا کو کس طرح راستے پر لائے۔ اس نے مارسی کے متعلق ایک دردناک کہانی گھڑی اور ابھی وہ یہ کہانی بریٹاکو سنانے کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ بریٹا نے سوال کر دیا۔
’’لیکن تم نے ابھی تک وہ تحفہ تو دکھایا ہی نہیں۔ آخر وہ ایسی کیا چیزہے جو تم مجھ سے چھپا رہے ہو؟‘‘
قاسم کیا کہتا ، اسکے پاس تو کوئی تحفہ تھا ہی نہیں۔ اس نے بریٹا کو یہ کہہ کر خاموش کر دیا۔ ’’ہاں ہاں، ضرور دکھاؤں گا۔ لیکن اس سے پہلے میں تمہیں ایک دلچسپی کہانی سنانا چاہتا ہوں جومیری اپنی زندگی کی کہانی ہے۔‘‘
عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا... قسط نمبر 72 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
بریٹا ایک دم مسہری پر بیٹھ گئی۔ اور اسکی آنکھیں دلچسپی سے چمکنے لگیں اور اس نے کہا ’’ضرور سناؤ۔ مجھے تمہاری کہانی سن کر بہت خوش ہوگی۔‘‘
لیکن قاسم اپنی گھڑی ہوئی کہانی سنانے سے پہلے ڈیمونان کی دعوت والی بات کرلینا چاہتا تھا۔ اس نے بریٹا کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔ ’’اپنی داستان دلپذیر میں تم کو اسی وقت سناؤں گا۔ آج تم مقدس باپ کو مدعو کرنے کا کام مکمل کرلو۔‘‘
بریٹا اس بات پر راضی ہوگئی اور اسی روز ’’آیاصوفیاء‘‘ جانے کا ارادہ کر لیا۔ جانے سے پہلے قاسم نے اسے روکا اور کہا ’’دیکھو! تم ابھی فی الحال میرا ذکر مقدس باپ کے سامنے مت کرنا۔ میں چاہتا ہوں کہ ان سے بغیر کسی تعارف کے ملوں۔‘‘
بریٹا ایک دم رک گئی اور حیرت سے قاسم کی جانب دیکھنے لگی’’مورگن کیا بات ہے؟ تم آج بہت پراسرار قسم کی باتیں کررہے ہو۔پہلے تم نے مجھے تحفہ نہیں دکھایا۔ پھر تم مجھے اپنی کہانی سنانا چاہتے تھے وہ بھی نہیں سنائی۔ اور اب تم اپنا نام چھپانے کی بات کر رہے ہو۔ تم مجھے کھل کر بتاؤ! تمہارے دل میں کیا ہے؟ میں ہر طرح سے تمہارے ساتھ تعاون کرنے کے لئے تیار ہوں۔ تم جانتے نہیں کہ میرا کوئی بھائی نہیں ہے۔ میں تمہیں اپنے چھوٹے بھائی جیسا سمجھتی ہوں۔ تمہارے ذکر کے بغیر تو دعوت کی بات میں کشش ہی نہیں رہتی۔ تم چرچ کو قیمتی تحفہ نذرکرنا چاہتے ہو اور اسی بناء پر تو میں مقدس باپ کو دعوت دینے جارہی ہوں۔‘‘
قاسم بری طرح سٹپٹا گیا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ بریٹا، ڈیمونان کے ساتھ اس کا ذکر کسی اجنبی مہمان کی حیثیت سے کرے۔ وہ ابو جعفر کے شاطر ذہن کوجانتا تھا۔ جنگ کے دنوں میں کسی شہری کا اجنبی مہمان ابو جعفر جیسے شخص کو کھانے کی دعوت دے۔۔۔تو ابو جعفر کودال میں کچھ کالا بھی نظر آسکتا تھا۔ چنانچہ قاسم نے بریٹا سے پوچھا۔
’’تو پھر۔۔۔تم کس حیثیت سے میرا تعارف کرواؤ گی؟‘‘
’’اپنے بھائی کی حیثیت سے ۔۔۔البتہ میں تمہاری شان بڑھانے کے لئے یہ ضرور کہوں گی کہ تم بہت مالدار اور رئیس آدمی ہو۔‘‘
قاسم بریٹا کے سادہ انداز پر مسکرا دیا اور اسے جانے کی اجازت دے دی۔ اس نے اپنے ذہن میں جو منصوبہ سوچ رکھا تھا اس پر عمل کا آغاز ہو چکا تھا۔
بریٹا کے آنے سے پہلے اس کا بیٹا ’’سلطان مراد‘‘ آگیا، قاسم بچے کے ساتھ کھیلنے لگ گیا۔ ایک گھنٹے کے بعد بریٹا لوٹی تو وہ مسکرا رہی تھی۔ قاسم نے اسکی مسکراہٹ کی وجہ پوچھی تو اسنے کہا۔
’’ہماری دعوت قبول کرلی گئی۔ اور رومیل سے تو میں نے پہلے ہی اجازت لے رکھی ہے۔ مقدس باپ ہماری دعوت پرکل رات کاکھانا کھانے ہمارے ہاں تشریف لائیں گے۔‘‘
قاسم کو توقع نہ تھی کہ ڈیمونان اتنی جلدی آنے پر تیار ہو جائے گا۔ اسکا خیال تھاکہ وہ مصروفیات کی وجہ سے کئی دن بعدکاوقت دے گا۔ اب قاسم کو جو کچھ کرنا تھا جلدی کرنا تھا۔ چنانچہ اس نے اپنے کمرے میں جاکر اپنے سامان میں سے کچھ قیمتی اشرفیاں نکالیں اور ایک تھیلی میں بھر کر بریٹا کے پاس لے آیا اورکہنے لگا۔
’’یہ لو بہن!۔۔۔مقدس باپ کو دعوت میں نے دی ہے اور اس دعوت پر صرف ہونے والی رقم بھی میں ہی فراہم کروں گا۔‘‘
قاسم نے بہت کوشش کی کہ بریٹا وہ پیسے رکھ لے لیکن بریٹا نے صاف انکارکر دیا اور کہا ’’تم ہمیں شرمندہ نہ کرو۔ میں تمہیں گھر کا فرد اور اپنا بھائی سمجھتی ہوں تم یہ رقم اپنے پاس ہی رکھو۔‘‘
قاسم نے رقم واپس لے لی اور محتاط لہجے میں بریٹا سے کہا’’اب میں تمہیں اپنی کہانی سنانے کے لیے بھی تیار ہوں۔ اگر تم مناسب سمجھو تو میں اپنے دل کا مدعا بیان کروں ۔ میری کہانی بے حد دلچسپ بھی ہے اور دردناک بھی۔۔۔‘‘
قاسم نے جان بوجھ کر اس قدر تجسس پیدا کیا تھا۔بریٹا کا بچہ باہر صحن میں کھیل رہا تھا اور قاسم مکان کے برآمدے میں بریٹاکے ساتھ ایک اونچی چوکی پر بیٹھا تھا۔ قاسم کے پرتجسس لہجے سے بریٹا کی دلچسپی اور بڑھ گئی۔ اس کا دل دھڑکنے لگا۔ خدا جانے یہ مورگن یعنی قاسم کیا سنانے والا تھا۔ بریٹانے سوچا۔۔۔اور اپنی تیوری پر بل چڑھا کر قاسم سے کہنے لگی۔
’’ہاں ہاں!۔۔۔کیوں نہیں ۔۔۔تم اتنے تکلف سے کیوں کام لے رہے ہو؟ میں پورے انہماک اورتوجہ سے تمہاری بات سن رہی ہوں۔‘‘
قاسم نے بریٹا کو محبت بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا’’بہن! دراصل بات ہی کچھ ایسی ہے کہ مجھے تمہارے سامنے دہراتے ہوئے لاج آتی ہے۔‘‘
قاسم نے ابھی جھوٹی کہانی سنانے سے پہلے تھوڑا سا شرمانے کی اداکاری کی تو بریٹاکھکھلاکرہنس دی۔’’ارے تم تو شرما رہے ہو ایسی بھی کیا بات ہے؟۔۔۔لگتا ہے میرے بھائی کے دل میں کوئی ماہ جبین ڈیرہ جمائے بیٹھی ہے۔‘‘
بریٹا نے قاسم کی توقع کے مطابق بات کی تھی۔ قاسم مزید شرمانے لگا اور لجاتے ہوئے بولا۔ ’’تم ٹھیک سمجھی ہو۔۔۔واقعی مجھے ایک البانوی لڑکی مارسی سے بے حد محبت ہے۔ وہ لڑکی صرف حسین ہی نہیں، بے حد ذہین اور دانشمند بھی ہے۔ لیکن وہ مجھ سے بچھڑ چکی ہے۔۔۔اب تمہیں یہ جان کر حیرت کا جھٹکا لگے گا کہ تمہارے اسی مقدس باپ ڈیمونان نے میری مارسی کو مجھ سے جدا کر دیاہے۔‘‘
قاسم بات کرتے کرتے رک گیا۔کیونکہ بریٹا حیرت سے اچھل پڑی تھی۔ وہ قدرے بلند آواز میں بولی۔
اوہ۔۔۔تو کیا تم مقدس باپ ڈیمونان کو جانتے ہو؟۔۔۔یہ تو غضب ہوگیا۔ میں تمہیں ان کے سامنے اپنا بھائی کہہ چکی ہوں۔ اب وہ تم سے ملیں گے اور تمہیں پہچان لیں گے تومیں تمہارے ساتھ کس حیثیت سے اپنا تعارف کراؤں گی؟‘‘
لیکن قاسم نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا ’’بریٹا بہن! گھبراؤ مت!۔۔۔تم تومیری کہانی سننے سے پہلے ہی گھبرا گئیں۔ پہلے سن تو لیتی ۔۔۔ڈیمونان مجھے جانتے ہیں لیکن یہ تو نہیں جانتے کہ میری کوئی بہن بھی ہے یانہیں۔ جو رشتہ تم نے بتایا ہے اس پر کوئی حروف نہیں آتا۔‘‘
’’لیکن اگر تم ڈیمونان کو جانتے تھے تو تم نے مجھے دعوت دینے سے پہلے تک بے خبر کیوں رکھا؟‘‘
’’یہی تو میں بتانے جا رہا ہوں۔ شاید تمہیں معلوم ہو کہ بطریق اعظم ثانی ڈیمونان آج سے سات سال پہلے ’’ادرنہ‘‘، البانیہ‘‘ اور’’بوسنیا‘‘ جیسے علاقوں میں رہ چکے ہیں۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب یہ ’’البانیہ‘‘ میں تھے اور میں بھی وہیں تھا۔ وہاں مجھے ایک شاہی کنیز’’مارتھا‘‘ کی بیٹی مارسی سے محبت ہوگئی تھی۔ فادر ڈیمونان نے البانوی بادشاہ ’’سکندر بیگ‘‘کے لئے اس لڑکی کو مجھ سے حاصل کیا اور اس کی بے چاری ماں کو قتل کروا دیا۔ لیکن مارسی ’’سکندر بیگ‘‘ کے پاس بھی نہ رہی اور لاپتہ ہوگئی۔ تب سے اب تک سات سال ہو گئے ہیں میں اسے ڈھونڈ رہا ہوں۔ میں قسطنطنیہ بھی درحقیقت اسی لئے آیا ہوں۔ فادر ڈیمونان مجھے اچھی طرح جانتے ہیں اس لئے میں ان کے سامنے نہیں آنا چاہتا۔ میں چاہتا ہوں کہ تم اپنے طورپر کسی طرح ان سے پوچھ گچھ کرو۔اور مارسی کا پتہ لگانے کی کوشش کرو۔۔۔بریٹا! تم میری بہن ہو۔ اور بہنیں بھائیوں کے لئے اس طرح کی قربانیاں تو دیتی ہی ہیں۔‘‘
بریٹا غور سے قاسم کی بات سن رہی تھی ۔ بات ختم ہوئی تو وہ چہک کر بولی ۔ ’’لو!۔۔۔یہ کون سی مشکل بات ہے؟ تم تو ایسے ہی منصوبے بناتے رہتے ہو۔ میں سیدھی طرح فادر سے پوچھ لوں گی کہ مارسی کہاں ہے۔ اگر فادر کو پتہ ہوا تو ضرور بتا دیں گے۔‘‘
’’قاسم ، بریٹا کی سادگی پر مسکرا دیا۔ ڈیمونان کے دماغ سے کوئی بات نکلوانا آسان کام نہ تھا۔ چنانچہ قاسم نے بریٹا کو اپنی گھڑی ہوئی جھوٹی کہانی شروع سے لے کر آخر تک سنا دی۔ اس کی کہانی میں کئی ایسے موڑ بھی تھے جہاں بریٹاکے آنسو نکل آئے۔ کہانی کا پلاٹ تو یہی تھا جو قاسم پہلے بتا چکا تھا۔ البتہ اس کی جزئیات اور تفصیل بڑی دلچسپ تھی۔ بریٹا پوری توجہ کے ساتھ اس کی کہانی سنتی رہی۔ قاسم نے اسے ایسا تاثر دیا کہ اسے ڈیمونان کے کردار سے کسی حد تک مشکوک کر دیا۔ اور وہ سنجیدہ لہجے میں کہنے لگی۔
’’ٹھیک ہے! میں تمہاری ساری بات سمجھ گئی ہوں۔ اورمیں تمہارے لئے سب کچھ کرنے کو تیار ہوں۔ لیکن ایک بات میری سمجھ میں نہیں آئی کہ میں فادر کے سامنے مارسی کا ذکر کس طرح چھیڑوں گی اور ان سے حقیقت کیسے اگلواؤں کی۔۔۔اور تمہارا کیا ہوگا؟ کیا تم دعوت میں شامل نہیں ہوگے؟ اس طرح تو گڑ بڑ ہو جائے گی۔‘‘
بریٹا کے سوالات معقول تھے۔چنانچہ قاسم نے اسے جواب دیا’’بریٹا بہن! تم پریشان کیوں ہوتی ہو؟ میں ڈیمونان سے صرف اتنی دیر چھپا رہنا چاہتا ہوں جب تک تم اس سے مار سی کی بابت اگلوا نہیں لیتیں۔ جونہی وہ مارسی کے بارے میں بتا دیں گے میں سامنے آجاؤں گا اور پھر دعوت میں بھی شرکت کروں گا اوراپنا خاص تحفہ بھی چرچ کی نذر کروں گا۔ مجھے یقین ہے کہ اس وقت تم سب لوگ میرا تحفہ دیکھ کر حیران رہ جاؤ گے۔ اب رہ گئی یہ بات کہ تم فادر ڈیمونان کے ساتھ مارسی کا ذکرکیسے چھڑو گی۔۔۔تو یہ لو!’‘‘
گفتگو کا یہی وہ مقام تھا جس کا انتظار قاسم کافی دیر کر رہا تھا۔ اور اسی خیال کو ذہن میں رکھ کر اس نے ڈیمونان کی دعوت کا سارا منصوبہ بنایا تھا۔ اب قاسم نے اپنے لباس کے اندر ہاتھ ڈالا اور جب نکالا تو اس کے ہاتھ میں ایک خوبصورت انگوٹھی تھی جس کے سبز دھاری دار پتھر میں صلیب کا نشان کھدا ہوا تھا۔۔۔یہ وہ انگوٹھی تھی جو مارتھا نے اپنی بیٹی مارسی کو دی تھی اور مارسی نے اپنی ماں کی یہ نشانی آخری ملاقاتوں میں قاسم کے حوالے کر دی تھی۔ قاسم نے وہ انگوٹھی بریٹا کوتھمائی اور پرتجسس لہجے میں کہا۔
’’بریٹا بہن! یہ انگوٹھی مارسی نے مجھے دی تھی۔ یہ اس کی ماں ’’مارتھا‘‘ کی انگوٹھی ہے۔ اسے تم پہن لو۔کل جب تم فادر ڈیمونان کے سامنے جاؤ گی تو اس انگوٹھی کو دیکھ کر وہ ضرور چونکیں گے اور تم سے اس انگوٹھی کی بابت لازمی طور پر دریافت کریں گے۔ تم اچھی طرح ذہن نشین کر لو کہ تمہیں اس انگوٹھی کے بارے میں کیا بتانا ہے۔‘‘
قاسم نے بات روک دی تو بریٹا نے پرتجسس لہجے میں پوچھا ’’ہاں بتاؤ۔۔۔مجھے اس انگوٹھی سے متعلق فادر ڈیمو نان کے سامنے کیا کہنا ہے؟‘‘
اب قاسم نے بریٹاسے کہنا شروع کیا’’تم نے فادر ڈیمونان سے کہنا ہے کہ تم نے یہ انگوٹھی قسطنطنیہ کے بازار سے خریدی ہے ۔۔۔جب فادرکو یہ پتہ چلے گا کہ تمہاری نظر میں یہ انگوٹھی معمولی ہے اور تم اس کی کہانی سے بالکل بے خبر ہو تومجھے یقین ہے کہ وہ تم سے انگوٹھی مانگ لیں گے۔۔۔تم بے شک انہیں انگوٹھی دے دینا۔ اس طرح اول تو وہ خود ہی تمہیں مارسی کے بارے میں بتادیں گے۔ اور اگر انہوں نے نہ بھی بتایا تو بھی ہمارا کوئی نقصان نہیں۔کیونکہ اگر مارسی زندہ ہے اور فادر ڈیمونان اس کے بارے میں جانتے ہیں تو یہ انگوٹھی وہ مارسی تک ضرور پہنچائیں گے۔ اس طرح مارسی کو خود بخود پتہ چل جائے گا کہ انگوٹھی کہاں سے چل کر آئی ہے اور کس طرح اس تک پہنچی ہے ۔۔۔اور اگر تم چاہو تو انگوٹھی دینے سے پہلے فادر پریہ شرط عائد کر سکتی ہو کہ وہ تمہیں اس انگوٹھی کے بارے میں بتائیں۔ سیدھی سی بات ہے ۔۔۔نہ زیادہ پیچیدہ اور نہ مشکل۔۔۔کیا تم اس طرح کر سکو گی؟ مجھے یقین ہے کہ وہ کچھ نہ کچھ ضرور بتائیں گے۔ جسے میں ساتھ کے دیرچے سے سننے کی کوشش کروں گا۔۔۔یا بعد میں تم سے پوچھ لوں گا۔‘‘
قاسم جانتا تھا کہ ڈیمونان جو بچپن سے مارسی کے گھرآتا جاتا تھا اور مارتھا کے ساتھ بہت گہرا تعلق رکھتا تھا لازماً مارتھا کی انگوٹھی کو پہچان لے گا۔ اورجب بریٹا اپنی لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے سادہ سے انداز میں اسے بتائے گی کہ اس نے یہ انگوٹھی بازار سے خریدی ہے تو وہ حیران رہ جائے گا۔ اور اگر ابھی تک مارسی کے ساتھ اس کا تعلق قائم ہے تو یقیناًیہ انگوٹھی مارسی کودکھانے کی غرض سے حاصل کرنا چاہے گا۔ اوریہی وہ وقت ہوگا جب بریٹا اس سے مارسی کی حقیقت اگلوا سکے گی۔اب بریٹا اس قضیے میں گہری دلچسپی لے رہی تھی۔ وہ مکمل لائحہ عمل سمجھ گئی اور قاسم کے ساتھ بھرپور تعاون کرنے کے لئے تیار ہوگئی۔
اگلے روز رات تک قاسم نے بڑی مشکل سے وقت کاٹا۔رومیل آج اپنے گھر میں ہونے والی دعوت کی وجہ سے جلد گھر آگیا تھا۔ڈیمونان کے لئے بریٹا نے عمدہ سے عمدہ کھانے بنائے اور مقدس باپ کے استقبال میں اپنے گھرکو خوب خوب سنوارا اور صاف ستھرا کیا۔ اس نے ڈیمونان کے بیٹھنے کا اہتمام اس کمرے میں کیا جس کے ساتھ والے کمرے سے ڈیمونان کی باتیں سنی جاسکتی تھیں۔ کیونکہ درمیانی دیوار میں ایک چوبی دروازہ تھا۔ اس نے قاسم کو اس دروازے کے بارے میں بتا دیا۔ قاسم کو اطمینان ہوا کہ بریٹا اس کے ساتھ بھرپور تعاون کر رہی ہے۔(جاری ہے )