شریف خاندان  کی سزائیں معطل کرنے والےجسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب در اصل  کون ہیں اور ان کا خاندانی پس منظر کیا ہے؟ایسا انکشاف سامنے آ گیا کہ آپ کا منہ بھی کھلے کا کھلا رہ جائے گا

 شریف خاندان  کی سزائیں معطل کرنے والےجسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن ...
 شریف خاندان  کی سزائیں معطل کرنے والےجسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب در اصل  کون ہیں اور ان کا خاندانی پس منظر کیا ہے؟ایسا انکشاف سامنے آ گیا کہ آپ کا منہ بھی کھلے کا کھلا رہ جائے گا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ:سعید چودھری


اسلام آباد ہائی کورٹ کے مسٹر جسٹس اطہر من اللہ اور مسٹر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل ڈویژن بنچ نے 19ستمبر کوسابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف، ان کی صاحبزادی مریم نوازشریف اور ان کے داماد کیپٹن (ر) محمدصفدر کے خلاف ایون فیلڈ اپارٹمنٹس ریفرنس میں احتساب عدالت کاوہ فیصلہ معطل کردیا جس میں انہیں باالترتیب 10 سال، 7 سال اور ایک سال قید اور جرمانے کی سزا سنا ئی گئی تھی ۔احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے تینوں کو 10، 10 سال کیلئے عوامی عہدوں کیلئے نااہل قراردینے کے علاوہ اپنے 6جولائی 2018ءکے اس فیصلے میں ایون فیلڈ اپارٹمنٹس نمبر16،16اے ، 17اور17اے کو بحق سرکار ضبط کرنے کا حکم بھی دے رکھا ہے ۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں میاں محمد نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) محمد صفدر 5،5لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض ضمانت پر رہا بھی ہوچکے ہیں۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلے پر مختلف حلقوں کی جانب سے سیاسی اور قانونی تبصروں کا سلسلہ جاری ہے ۔
مسٹر جسٹس اطہر من اللہ اور مسٹر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب دونوں اعلیٰ پائے کاخاندانی پس منظر رکھتے ہیں ،مسٹر جسٹس اطہر من اللہ کے والد نصر من اللہ چیف سیکرٹری کے عہدہ کے افسر تھے ،وہ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے قریب سمجھے جانے کی بنا پر جنرل ضیاءالحق کے دور حکومت میں زیر عتاب رہے ۔وہ سٹرک کے حادثہ میں جاں بحق ہوئے تھے ۔جسٹس اطہر من اللہ سپریم کورٹ کے سابق جسٹس غلام صفدر شاہ کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ، سابق جسٹس غلام صفدر شاہ سپریم کورٹ کے ان ججوں میں شامل تھے جنہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو نواب احمد خان قصوری قتل کیس میں بے گناہ قراردیاتھا۔سابق جسٹس غلام صفدرشاہ کو بعدازاں جلا وطنی اختیار کرنا پڑی تھی جس کے دوران وہ لندن میں وفات پا گئے تھے ،سابق جسٹس غلام صفدرشاہ جسٹس اطہر من اللہ کے ماموں جبکہ ان کی صاحبزادی غزالہ من اللہ مسٹر جسٹس اطہر من اللہ کی اہلیہ ہیں ، جسٹس اطہر من اللہ کی والدہ بلقیس من اللہ قومی اسمبلی کی رکن رہیں۔

ڈویژن بنچ کے دوسرے رکن مسٹر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب آخری والئی سوات میاں گل جہانزیب کے پوتے اور سابق صدر فیلڈ مارشل ایوب خان کے نواسے ہیں۔جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کے والد میاں گل اورنگزیب ریاست سوات کے آخری ولی عہد تھے ۔ان کی ایوب خان کی صاحبزادی نسیم اورنگزیب سے شادی ہوئی ،یوں موجودہ حکومت کے وزیر بجلی عمر ایوب خان رشتے میں ان کے ماموں زاد بھائی ہیں۔جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کے والدقومی اسمبلی کے رکن جبکہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے گورنر بھی رہے ۔ان کا چند سال قبل 2014ءمیں انتقال ہوا۔عدلیہ پر گہری نظر رکھنے والے سینئر وکلاءجن میں اعتزاز احسن اوراعظم نذیر تارڑبھی شامل ہیں کی رائے ہے کہ ان دونوں ججوں کو دباؤ سمیت کسی بھی طریقہ کار کے تحت مینج نہیں کیا جاسکتا،وہ آزادانہ رائے رکھنے والے جج ہیں۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو ناپسند کرنے والے ناقدین یہ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں کہ نیب کے پراسیکیوٹر ز نے صحیح طور پر کیس نہیں لڑاجبکہ حقیقت یہ ہے کہ اپیل کی سماعت کے دوران ٹرائل کورٹ کے فیصلے سے باہر نہیں نکلا جاسکتااور نہ ہی کوئی نیا مواد اپیلٹ کورٹ میں پیش کیا جاسکتا ہے۔اپیلٹ کورٹ میں ٹرائل کورٹ کے فیصلے کا صرف قانونی جائزہ لیا جاتا ہے ،اپیل کنندگان ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں موجود قانونی کوتاہیوں کی نشاندہی کرتے ہیں جبکہ استغاثہ کے وکلاءکا کام ان کوتاہیوں کی بابت قانونی جواز پیش کرنا ہوتا ہے،اگر ٹرائل کورٹ کا فیصلہ عدم شہادتوں اور تضادات کا مرقع ہو تو استغاثہ کے وکیل بے چارے کیا کرسکتے ہیں۔
کچھ قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ احتساب کے قانون کے تحت ملزموں کی ضمانت نہیں ہوسکتی ،اس رائے کو نیب کی اپیل جرمانے کے ساتھ مسترد کرتے ہوئے خود سپریم کورٹ نے جھٹلا دیا ہے ۔سپریم کورٹ کے اس تازہ فیصلے کے علاوہ بھی متعدد عدالتی فیصلے موجود ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ اپیلوں کی سماعت کے دوران ٹرائل کورٹ کا فیصلہ معطل کروانے کے معاملہ کا اسی طرح جائزہ لیا جائے جس طرح ضمانت کی درخواستوں کا لیا جاتا ہے ۔اس سلسلے میں افتخار احمد بنام سرکار (ایس سی ایم آر2014ءصفحہ 7)اور نذیر احمد بنام سرکار (پی ایل ڈی سپریم کورٹ 2014ء)کے مقدمات میں عدالت عظمیٰ کے فیصلوں کو بھی نظیر کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے ۔ان مقدمات میں سپریم کورٹ نے قراردیا ہے کہ اپیلٹ کورٹ سزا معطل کرکے ملزموں کو ضمانت پر رہا کرسکتی ہے ۔اس حوالے سے بھارت میں شری کرشن وغیرہ کیس، راما نارنگ کیس اور من جیت کور کیس کی مثال بھی دی جاسکتی ہے۔
میاں نوازشریف ،مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کی سزاؤں کی معطلی کے بعد یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان کی نااہلی کی سزا بھی معطل ہوگئی ہے ؟میاں نواز شریف کو تو پاناما کیس میں سپریم کورٹ نے تاحیات نااہل قراردے رکھاہے ،ایون فیلڈ اپارٹمنٹس ریفرنس میں وہ بری بھی ہوجائیں تو ان کی نااہلی کی سزا برقراررہے گی ۔جہاں تک مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کا تعلق ہے وہ بھی اپنی بریت تک 10سال کے لئے نااہل رہیں گے ۔اعلیٰ عدالتیں قراردے چکی ہیں کہ اگر کسی مجرم کو ٹرائل کورٹ سے ملنے والی سزا اپیلٹ کورٹ معطل کردے تواس کا مطلب جرم کی وقوع پذیری کا معطل ہونا نہیں ہے ۔اپیلٹ کورٹ صرف قید کی سزا معطل کرتی ہے ،ملزموں کاجرم برقراررہتا ہے تاوقتیکہ وہ بری نہ ہوجائیں۔اس سلسلے میں عبدالقدیر کیس (پی ایل ڈی 1990ءسپریم کورٹ صفحہ 823)کو عدالتی نظیر کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے ۔عبدالقدیر کی سزا کی معطلی کے باوجود اسے نااہل قرار دیا گیا۔پی ایل سی 2013ءکے صفحہ1856پر چودھری زاہد اقبال کیس میں لاہور ہائی کورٹ کے 3رکنی فل بنچ کا فیصلہ موجود ہے ،چودھری زاہد اقبال این اے 162ساہیوال سے امیدوار تھے ،ان کی سزا معطل ہوچکی تھی اس کے باوجود انہیں الیکشن کے لئے نااہل قراردیا گیا۔پیر مظہر الحق بنام الیکشن ٹربیونل کیس میں بھی سپریم کورٹ نے یہ اصول برقراررکھا اور انہیں سزا کی معطلی کے باوجود الیکشن کے لئے نااہل قراردیا(بحوالہ سی ایل سی 2003ءصفحہ 300)۔ان عدالتی نظائر کی روشنی میں یہ ایک طے شدہ اصول ہے کہ ٹرائل کورٹ کے فیصلے کی معطلی کا مطلب جرم کی وقوع پذیری اور نااہلی کی معطلی نہیں ہے ۔اس صورتحال میں میاں نواز شریف کے علاوہ مریم نوازاور کیپٹن (ر)صفدر کے لئے پارلیمانی اور انتخابی سیاست کا راستہ بند ہے جب تک کہ وہ دونوں ایون فیلڈ اپارٹمنٹس ریفرنس سے بری نہیں ہوجاتے ،میاں نواز شریف کو سپریم کورٹ آئین کے آرٹیکل62 (1)ایف کے تحت تاحیات نااہل قراردے چکی ہے وہ تو اس وقت تک نااہل رہیں گے جب تک کسی آئینی اور عدالتی طریقہ کار کے تحت یہ فیصلہ غیر موثر یا کالعدم نہیں ہو  جاتا ۔

مزید :

قومی -تجزیہ -