مہربھی پانی، قہر بھی پانی
مہر بھی پانی، قہر بھی پانی۔ مطلب یہ کہ پانی قدرت کی ایک بیش قیمت نعمت ہے لیکن اگر اسے صحیح طرح ڈیل نہ کیا جائے تو زبردست تباہی کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ کہتے ہیں کہ 2010ء کے بعد اس برس جو سیلاب پاکستان میں آیا ہے اس نے بربادی کے اگلے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔ نئی حکومت آنے کے بعد معاشی بدحالی کا گراف پہلے ہی انتہائی نچلی سطح پر پہنچ گیا تھا۔ اس کے بعد سیلاب نے معیشت کو جو چرکہ لگایا ہے اس کو بھرنے میں تو کئی سال بلکہ عشرے لگ سکتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا ایسی مصیبتیں ٹل سکتی تھیں؟ جی بالکل ٹل سکتی تھیں لیکن دو وجوہ سے ایسا نہ ہو سکا، زیادہ تر حکمرانوں نے انپے سیاسی اور ذاتی مفادات کی بناء پر پانی کے نظام کو کنٹرول کرنے کے منصوبوں پر مناسب توجہ نہیں دی اور دوسرے عوام میں کسی نے اتنا شعور بیدار نہیں کیا کہ انہیں اس طویل مدت کے فائدے کا احساس ہوتا۔
سارے مسئلے کی اصل بنیاد تو ماحولیاتی یا موسمیاتی تبدیلی ہے جسے پاکستان کے زیادہ تر سیاست دانوں اور عوام نے مقامی مسئلہ تسلیم نہیں کیا۔ اسے باہر کی دنیا کا مسئلہ کہہ کر ٹال دیا گیا اور اسے ایک علمی بحث سمجھ کر نظر انداز کر دیا گیا۔ زمین کے سیارے پر گرمی کے اضافے سے گلیشیئر بدلنے سے دریاؤں کے سیلاب میں جو شدت آ رہی ہے اس پر بعد میں بات کرتے ہیں سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ گلیشیئر پگھلنے یا زیادہ بارشیں ہونے سے دریاؤں اور ندی نالوں کا پانی کناروں سے ابل کر جو تباہی پھیلاتا ہے اسے کیسے کنٹرول کیا جا سکتا ہے ویسے بھی عام حالات میں دریاؤں کے پانی کا کچھ حصہ زراعت یا دیگر مفید مقاصد کے لئے استعمال ہونے کی بجائے سمندر میں گر کر ضائع ہو جاتا ہے اسے کنٹرول کرنے کے طریقے کو سمجھنے کے لئے سائنسی ماہر یا انجینئر ہونا ضروری نہیں ہے۔
افسوس ناک بات یہ ہے کہ 2010ء کے سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد چند ذمہ داروں کی وارننگ کے باوجود ہم نے اس کے آئندہ سد باب کے لئے بارہ سال کوئی زیادہ ٹھوس کام نہیں کیا کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ آفت زیادہ شدت کے بعد واپس لوٹی ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ تمام ملکی سرکاری اور نجی اداروں کے علاوہ عالمی سطح پر موجودہ سیلاب کو نمٹنے کے لئے کام شروع ہو چکا ہے لیکن تکلیف دہ امر یہ ہے کہ نقصان اتنی خوف ناک سطح تک پہنچ گیا ہے کہ اس کی مکمل تلافی شاید آئندہ کئی سالوں میں بھی نہ ہو سکے اور ظاہر بات ہے کہ جو قیمتی جانیں ضائع ہو گئی ہیں وہ واپس نہیں آ سکتیں، نہ گھر بار نہ خیمے، بیماریوں اور بھوک کے شکار متاثرین کے ساتھ تصویریں کھنچوانے والے تو بہت پہنچ رہے ہیں لیکن ان کی عملی مدد کتنی ہوتی ہے یہ ابھی دیکھنا باقی ہے۔
اتنی آسان سی بات تو ہر کوئی سمجھتا ہے کہ آبی گزر گاہوں کے کناروں سے پانی امڈنے نہ دیا جائے اور قدرت کی اس نعمت کو رائیگاں کر کے سمندر میں نہ بہا دیا جائے۔ پانی قدرتی جھیلوں میں ذخیرہ ہوتا ہے مصنوعی جھیلوں میں بھی اسے محفوظ کیا جا سکتا ہے لیکن ڈیم بنا کر اسے سٹاک کرنے کا یہ فائدہ ہے کہ اس کا پانی جہاں ضرورت کے وقت نہروں کو سپلائی کیا جا سکتا ہے وہاں اس سے توانائی بھی حاصل کی جا سکتی ہے یعنی دوہرے مقاصد حاصل ہو سکتے ہیں۔
مجھے یاد ہے ڈیمز کی اہمیت سمجھتے ہوئے سب سے بڑی جدوجہد جنرل پرویز مشرف نے کی تھی اس نے چند ماہ ایک خصوصی مہم کے ذریعے زمینداروں اور کسانوں سے رابطو ں میں ان کو قائل کرنے پر صرف کئے۔ خصوصاً سندھ اور کے پی کے میں جرگے کئے چونکہ وہ فوجی ڈکٹیٹر تھا اس لئے مخصوص مفادات کے حامل مخالف سیاست دانوں نے اس میں سے بھی کوئی ”سازش“ دریافت کر لی اور وہ اپنا مقصد حاصل نہ کر سکے۔ اب عین اسی زور شور کے ساتھ عمران خان اپنے عوامی اجتماعات میں جہاں سیلاب کے متاثرین کے لئے فنڈز اکٹھا کرنے پر زور دے رہے ہیں وہاں وہ لوگوں کو قائل کر رہے ہیں کہ کس طرح پانی کی نعمت کو ذخیرہ کرنے کے لئے ڈیمز بنائے جائیں اور اسے قہر بن کر تباہی کا سامان پیدا کرنے کا موقع نہ دیا جائے۔ عمران خان جنرل مشرف کے برعکس چونکہ ایک مقبول لیڈر ہے اس لئے اس کی بات توجہ سے سنی جا رہی ہے اور امید کی جا سکتی ہے کہ ڈیمز بنانے کے منصوبے مزید آگے بڑھیں گے۔ جس طرح عوام میں یہ شعور بڑھ رہا ہے کہ انہوں نے مہنگائی، بجلی کے بلوں اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافے، بے روزگاری اور معاشی بدحالی کے خلاف آواز بلند کرنی ہے اسی طرح انہیں اسی جذبے کے ساتھ ڈیمز کی تعمیر سمیت سیلاب کے سد باب سمیت منصوبوں کو کامیابی سے ہم کنار کرنے میں مثبت کردار ادا کرنا چاہئے۔ اس سلسلے میں کسی پراپیگنڈے کا شکار نہیں ہونا چاہئے جیسا کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے کیا گیا تھا کہ ایسا کرنے سے نوشہرہ شہر ڈوب جائے گا۔
سیلاب سے بچاؤ اور اس کے نقصانات کو کم از کم رکھنے کے لئے آبی گزر گاہوں سے پانی کو تیز رفتاری سے بغیر کسی رکاوٹ کے آگے سمندر کی جانب بڑھنے دیا جائے دریاؤں اور بڑی نہروں کے ساتھ کچے کے علاقے کو صاف رکھا جائے اور وہاں تعمیر کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ جو پانی کناروں سے امڈ کر باہر نکلے اس کی نکاسی کا ٹھوس انتظام ہونا چاہئے۔ اسے تباہی پھیلائے بغیر جلد از جلد زیر زمین چلے جانا چاہئے۔
ابھی تک بحث میں ہم نے یہ فرض کر لیا کہ موسمیاتی تبدیلی یا ماحول کے نسبتاً گرم ہونے سے گلیشیئر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر دریاؤں میں سیلاب لانے کا باعث بن رہے ہیں۔ اس کے ساتھ معمول سے زیادہ بارشیں ہو جائیں تو پانی کے قہر میں اضافہ ہو جاتا ہے لیکن یہ ضروری نہیں ہے ہمارے سیارے کا درجہ حرارت جو بڑھا ہے یہ اتنی پرانی بات نہیں ہے۔ جدید صنعتی دور میں فضاء اور ماحول میں بہت سی ایسی آلائشیں بڑھی ہیں جو گرمی میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔
اقوام متحدہ نے اس مسئلے کا احساس کرتے ہوئے ماحولیاتی تبدیلی کو روکنے کے لےء ایک بہت بڑا شعبہ قائم کر کے کثیر فنڈ مختص کیا ہے، کارخانوں سے کاربن کا اخراج ماحول کو خراب اور گرم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ کارخانہ داروں اور صنعت کاروں نے ابتداء میں اتنا تعاون نہیں کیا لیکن اقوام متحدہ کے دباؤ پر مختلف ممالک میں سخت قوانین بن رہے ہیں جس کی وجہ سے کارخانوں کو ماحول دوست بایا جا رہا ہے۔
خوش قسمتی سے امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کا دور ختم ہو چکا ہے وہ چونکہ خود بزنس مین ہے اس لئے اس نے صنعتوں کو ایسے سخت قوانین سے بچانے کے لئے اقوام متحدہ کے ماحولیاتی ادارے سے امریکہ کو نکال لیا تاہم اب صدر بائیڈن کے دور میں اس مسئلے کو بہت اہمیت دی جا رہی ہے جو بہت درست قدم ہے۔ قدرت نے انسانوں کو جو اس کرہ ارض کی صورت میں ایک بیش بہا نعمت دی ہے اس کا بھی تو فرض بنتا ہے کہ اس کے ماحول کو درست اور صاف ستھرا بنا کر رکھے۔
امریکی کانگریس نے کافی طویل بحث کے بعد بالآخر ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف جنگ کے لئے 369 ارب ڈالر کا ایک تاریخی بل منظور کیا ہے۔ صدر بائیڈن نے گزشتہ ماہ 16 تاریخ کو اس پر دستخط کر کے اسے ”افراط زر میں کمی کے ایکٹ“ کی صورت دی ہے مبصرین کا کہنا ہے کہ ترقیاتی شعبے میں کسی ایک مد میں امریکی تاریخ میں پہلی مرتبہ اتنا کثیر فنڈ مختص کیا گیا ہے۔ اس فنڈ کے استعمال سے ماحولیاتی تجزیہ نگاروں کی رائے میں 2005ء میں امریکہ میں جو گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کی سطح تھی وہ 2030ء تک 40 فیصد کم ہو جائے گی، اس سے عام شہریوں کی زندگی کی کوالٹی میں واضع بہتری آئے گی اور توانائی کی قیمتیں کم ہوں گی۔
ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف جنگ کو موجودہ امریکی انتظامیہ اتنی اہمیت دیتی ہے کہ نیشنل سیکیورٹی کونسل میں جان کیری کو ماحول کے لئے خصوصی صدارتی مندوب مقرر کیا گیا ہے۔ اسی برس نومبر میں مصر میں ماحول کے حوالے سے بین الاقوامی سربراہ کانفرنس منعقد ہونے جا رہی ہے۔ جان کیری نے امید ظاہر کی ہے کہ اس میں شریک ممالک میتھین اور کاربن جیسی ماحول کو خراب کرنے والی گیسوں کے اخراج کو کم کرنے پر رضا مند ہو جائیں گے۔
ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف جنگ اب صرف علمی بحث نہیں رہی۔ ذرا غور کریں کہ اگر آپ نے سیلاب کا سد باب کرنے کے لئے وافر پانی کا ذخیرہ کرنا ہے اگر پاکستان میں ایسی گیسوں کے اخراب کو تسلیم کیا جائے اور شجر کاری کی جائے تو گلیشیئر ایسے نہیں پکھلیں گے اور ایسے سیلاب بھی نہیں آئیں گے۔ ذرا سوچیں اگر پانی کو مہر بننے نہیں دینا تو اس کے بارے میں بھی سوچیں۔