پاکستان کا بیلسٹک میزائل پروگرام
امریکہ کا کہنا ہے کہ جوہری ہتھیاروں سے لیس پاکستان کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل پروگرام سے متعلق نئی پابندیاں عائد کرنے کے فیصلے کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان ”تعاون کے دیگر شعبوں کو متاثر کرنا“ ہر گز نہیں ہے۔ امریکہ کے پرنسپل ڈپٹی ترجمان ویدانت پٹیل نے پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ امریکہ جوہری عدم پھیلاؤ کے عالمی نظام کو برقرار رکھنے کے لیے پُرعزم ہے اور پاکستان اِس میں ایک اہم شراکت دار ہے تاہم امریکہ کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے پاکستانی بیلسٹک میزائل پروگرام پر خدشات مستقل اور واضح ہیں، اِس پروگرام کی حمایت سے انکار امریکہ کی دیرینہ پالیسی ہے۔اِس سے قبل امریکی نائب مشیر برائے قومی سلامتی جان فائنر کا کہنا تھا کہ پاکستان جوہری ہتھیاروں سے لیس ایسے میزائل بنا رہا ہے جو جنوبی ایشیاء سے باہر اور امریکہ میں بھی اہداف کو نشانہ بنا سکتے ہیں، پاکستان کے اقدامات کو امریکہ کے لیے اُبھرتے ہوئے خطرے کے علاوہ کسی اور طرح دیکھنا مشکل ہے۔ یاد رہے کہ امریکہ نے بدھ کو جوہری ہتھیاروں سے لیس پاکستان کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل پروگرام سے متعلق نئی پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا تھا،جن میں اِس پروگرام کی نگرانی کرنے والی سرکاری دفاعی ایجنسی بھی شامل ہے، امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر کے مطابق نیشنل ڈیولپمنٹ کمپلیکس (این ڈی سی) اور تین کمپنیوں پر ایک ایگزیکٹو آرڈر کے تحت پابندیاں عائد کی گئیں۔ان اداروں پر الزام ہے کہ وہ مذکورہ ہتھیاروں کے پھیلاؤ یا ترسیل میں حصہ لے رہے ہیں۔
پاکستان نے پابندیوں کے فیصلے کو متعصبانہ قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ ایسے اقدامات پر نظر ِثانی کی جائے جو خطے کے استحکام کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔وزارتِ خارجہ کی ترجمان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی سٹرٹیجک صلاحیتوں کا مقصد اپنی خودمختاری کا دفاع کرنا اور جنوبی ایشیاء میں اَمن اور استحکام کا تحفظ ہے،پابندیوں کی تازہ ترین قسط اَمن اور سلامتی کے مقصد سے انحراف کرتی ہے۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان جوہری عدم پھیلاؤ کے اصولوں پر سختی سے کار بند ہے تاہم ماضی میں دیگر ممالک کو جدید فوجی ٹیکنالوجی کے لائسنس کی شرط ختم کر دی گئی ہے،اِس طرح کے دہرے معیار امتیازی طرزِ عمل ناصرف عدم پھیلاؤ والی حکومتوں کی ساکھ کو نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ یہ علاقائی اور بین الاقوامی امن اور سلامتی کو بھی خطرے میں ڈالتے ہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام میں تعاون کرنے والے اداروں پر پابندی کا اعلان امریکہ نے تیسری مرتبہ کیا ہے۔رواں سال اپریل میں بھی امریکہ نے پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام بشمول طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل پروگرام کے چار ”سپلائرز“ پر پابندیاں عائد کی تھیں۔اِن چار غیر ملکی کمپنیوں کا تعلق چین اور بیلا روس سے تھا اور اِن پر پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے لیے ٹیکنالوجی اور پرزہ جات فراہم کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔امریکی محکمہ خارجہ نے ایک فیکٹ شیٹ بھی جاری کی تھی جس کے مطابق بیلا روس میں قائم ”منسلک وہیل ٹریکٹر پلانٹ“ نے پاکستان کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل پروگرام کو خصوصی گاڑیوں کے چیسس فراہم کیے تھے جنہیں امریکی دعوؤں کے مطابق میزائل ٹیکنالوجی کنٹرول رجیم کیٹیگری (ایم ٹی سی آر) ون بیلسٹک میزائلوں کی تیاری کے ذمہ دار ادارے این ڈی سی کے ذریعے بیلسٹک میزائلوں کے لیے لانچ سپورٹ آلات کے طور پر استعمال کیا گیا۔ چین کی ایک کمپنی نے پاکستان کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل پروگرام کو میزائل سے متعلق سامان فراہم کیا جس میں ”فلیمینٹ وائنڈنگ مشین“ جو راکٹ موٹر کیس کی تیاری کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ اِسی طرح ایک اور چینی کمپنی نے پاکستان کو طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل پروگرام کے لیے سٹر ویلڈنگ ایکوئپمنٹ اور لینیئر ایکسلیریٹر سسٹم فراہم کیا، جو سپیس لانچ وہیکلز میں استعمال ہونے والے پروپیلنٹ ٹینکوں کی تیاری یا پھر لینیئر ایکسلیریٹر سسٹم ٹھوس راکٹ موٹرز کے معائنے کے لیے استعمال کیا جا ”سکتا“ہے۔ محکمہ خارجہ کی جاری کردہ فیکٹ شیٹ کے مطابق تیانجن کری ایٹو کی جانب سے بنائے گئے آلات کی خریداری کے لیے مقصود تھی۔اِسی فیکٹ شیٹ کے مطابق بڑے قطر کی راکٹ موٹرز کی ٹیسٹنگ کے لیے ایک اور کمپنی نے این ڈی سی اور پاکستان کے سپیس اینڈ اپر ایٹموسفیئر ریسرچ کمیشن (سپارکو) کو آلات فراہم کیے جبکہ امریکی فیکٹ شیٹ کے مطابق سپارکو بھی پاکستانی ایم ٹی سی آر کیٹیگری ون بیلسٹک میزائل تیار کرتا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کی جاری کردہ فیکٹ شیٹ کے مطابق پابندی کے شکار افراد یا کمپنیوں کے امریکہ میں تمام اثاثے منجمد ہوں گے جبکہ پابندی کا شکار کمپنی یا افراد کے ساتھ کوئی بھی شخص یا ادارہ 50فیصد یا اِس سے زائد اشتراک کی صورت میں پابندی کی زد میں آئے گا،ایسے افراد یا کمپنی کے ساتھ امریکی شہریوں کے لین دین پر پابندی ہو گی جبکہ اِن کے نامزد کردہ افراد کا امریکہ میں داخلہ معطل رہے گا۔اِس کے علاوہ گزشتہ سال اکتوبر میں بھی امریکہ نے تین چینی کمپنیوں پر پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے لیے متعلقہ اشیا ء فراہم کرنے کے الزام میں پابندیاں عائد کی تھیں۔
امریکہ کی طرف سے یہ پابندی کوئی نئی بات نہیں ہے، پاکستان پر سالہا سال سے پابندیاں لگائی جا رہی ہیں تاہم متعلقہ ماہرین کے مطابق اِن پابندیوں کا کوئی خاص اثر نہیں ہوگا۔پاکستان نے جب سے جوہری پروگرام کا آغاز کیا ہے تب سے ہی امریکہ کسی نہ کسی بہانے پابندیاں لگاتا آ رہا ہے لیکن بھارت ان سب پابندیوں سے آزاد ہے حالانکہ اُس کا میزائل پروگرام خاصا جدید ہے۔ متعلقہ ماہرین کی رائے میں پاکستان اپنے میزائل سسٹم کو بہتر بنا رہا ہے تو اِس کا مقصد بھارت کے علاوہ کسی اور ملک کو ہدف بنانا نہیں ہے بلکہ دراصل انڈیا کے سسٹم میں آنے والی جدت کا توڑ کرتے ہوئے اپنے طے کردہ ہدف تک پہنچنے کی صلاحیتوں کا حصول ہے، پاکستان کسی ایسی ٹیکنالوجی پر کام نہیں کر رہا جوبھارت کے پاس نہیں ہے،وہ تو خود نہ صرف 5000 کلومیٹر سے زائد رینج کے بین البراعظمی بیلسٹک میزائل(آئی سی بی ایم)بنا چکا ہے بلکہ اُنہیں ٹیسٹ بھی کر چکا ہے جس سے اُس کے عزائم کا پتہ چلتا ہے کہ اُس کا نشانہ صرف پاکستان یا چین نہیں بلکہ وہ ممالک بھی ہو سکتے ہیں جو پاکستان کے میزائل پروگرام سے خوفزدہ ہیں،پاکستان نے تو اب تک اِس رینج کے کسی میزائل کا تجربہ کیا ہی نہیں ہے۔ ایٹمی آبدوزوں کو اپنے بحری بیڑے میں شامل کرنے کے بعد انڈیا تو اُن ممالک کی صف میں شامل ہو چکا ہے جو امریکہ سمیت دنیا کے کسی بھی ملک پر ایٹمی حملے کی صلاحیت رکھتے ہیں،انڈیا نیوکلیئرڈ پاورڈ بیلسٹک میزائل سب میرین(ایس ایس بی این)یا بیلسٹک میزائل فائر کرنے کی صلاحیت رکھنے والی آبدوزیں بھی بنا رہا ہے، ”اریہنت اور اریگاتھ“ وہ ایٹمی آبدوزیں ہیں جو اب انڈیا کے بحری بیڑے کا حصہ ہیں۔بھارت سے پہلے امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس اور چین کے پاس بھی ایٹمی اسلحے سے لیس آبدوزیں موجود ہیں یعنی یہ ممالک دنیا کے کسی بھی ملک پر جوہری حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔امریکہ پاکستان کی سب سے بڑی برآمدی مارکیٹ ہے، وہاں مقیم پاکستانیوں کی بڑی تعداد ملک میں ترسیلاتِ زر بھیجتے ہیں، اِس کے علاوہ بھی پاکستان اپنے معاشی مسائل کے حل کے لیے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے پروگرا م میں ہے، امریکہ کے ساتھ خیر سگالی کے تعلقات برقرار رکھنا اِ س کی خارجہ پالیسی کے ساتھ ساتھ قومی سلامتی کا اہم ہدف سمجھا جاتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ پاکستان ایک امن پسند ملک ہے،امریکہ کو یہ بات سمجھنی چاہئے اور اِدھر اُدھر کے پراپیگنڈے پر کان دھرنے کی بجائے حقائق کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرنا چاہئے۔