نساّخ اگلی صحبتوں کو ڈھونڈتی ہے آنکھ!

نساّخ اگلی صحبتوں کو ڈھونڈتی ہے آنکھ!
 نساّخ اگلی صحبتوں کو ڈھونڈتی ہے آنکھ!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

بات کہنے کو ذرا مختلف ہے، مختلف انداز میں ہو گی۔ یوں سمجھئے ، سالِ رواں کی ششماہی اختتام کو پہنچی اور جنوری سے جون کے آخر تک بہت سے ناقابلِ فراموش، نابغ�ۂ عصر، یکتائے روزگار اہلِ قلم کو اپنے ساتھ بہا لے گئی۔ جانے والوں کا ایک سیل رَواں ہے کہ رُکتا ہی نہیں، بہت سوں کا اس کالم میں ساتھ کے ساتھ ذکرِ خیر ہُوا کہ میرے نزدیک فوری تذکرہ رخصت ہو جانے والے کا آخری پروٹوکول ہوتا ہے، پھر تو باتوں، ملاقانوں اور صحبتوں کی یادیں ہی پیچھا کرنے کو باقی رہ جاتی ہیں۔حقیقت یہی ہے!
نساّخ اگلی صحبتوں کو ڈھونڈتی ہے آنکھ!
وہ اہلِ بزم کیا ہُوئے، وہ انجمن کہاں؟
(عبدالغفور نساّخ)
اِسی سال مستقل طور پر داغِ مفارقت دے جانے والوں میں یارِ عزیز و قدیم ذکاء الرحمن، منفرد صاحبِ اسلوب افسانہ نگار، ناول نویس، کہانی کار، انوکھی لِکھت کا بانی نابغہ ذکاء الرحمن،میرے پہلے دَورِ ادارت کی ’’ادبِ لطیف‘‘ کی ابتداء کا شریک مُدیر، میرے سکول کے زمان�ۂ طالب علمی کا دوست۔ شعر فہم، شاعر نواز ذکاء الرحمن، ]اس پر الگ سے طویل مضمون مجھ پر قرض ہے اور فرض ہے[۔۔۔!


عہدِ موجود میں اُردو ادب کے لئے فقید المثال اِنشا پرداز، اپنے اندازِ تحریر کے موجدُ و خاتم، یکتائے زماں ’’آوازِ دوست‘‘ کے حامل مختار مسعود۔۔۔ اُن پر کچھ لکھا ہے، کچھ لکھوں گا، حق ادا ہوا نہ ہو گا۔
اُردو افسانے کی آبرو، انتہائی پَتی ورَتا خاتون، ’’راجا گِدھ‘‘ جیسے لازوال کنٹروورشل ناول کی خالق بانو قدسیہ، جتنا اُن پر لکھا جائے گا کم ہو گا۔
اُردو دُنیائے صحافت کے ’’مُڈ‘‘]پنجابی لفظ[ہفت روزہ ’’جہاں نما‘‘ سے لے کر روزناموں کی ادارت کے کوہِ گراں شریف فاروق،۔۔۔ مرحوم سے ذاتی باتوں ملاقاتوں کا پٹارہ بھی کھلے گا۔۔۔


پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے لئے قلم بردار صحافی، ڈراما نگار، ہدایت کار،’’خُود کوزہ و خُود کوزہ گرو خُود گلِ کوزہ‘‘ کی بے عدیل مثال آصف علی پوتا ] نامور سحر انگیز وجد آفریں گلو کارہ اور شاعرہ ناہید اختر کے خاوند بھی[
’’جادو گر قانون دان‘‘۔ متعدد کتب ] انگریزی و اُردو[ کے مصنف، قائداعظمؒ پر اتھارٹی سید شریف الدین پیرزادہ بھی بے حد پیرانہ سالی کے سبب راہ�ئ مُلکِ عدم ہوئے۔ وہ جمہوری و غیر جمہوری دَور میں ہر حاکمِ وقت کی ناگزیر ضرورت رہے اور ہر حکمران کے کام آئے۔ایسے جادو گر قانون دان کم کم ہی پیدا ہوتے ہیں۔


کراچی کے ایک بزرگ شاعر نصیر کوٹی بھی گزشتہ مہینوں کے شب و روز میں چلے گئے۔ وہ شفیق کوٹی کے ہمعصر،حضرت بہار کوٹی کے جانشین اور ادبی بزم’’ بہارِ ادب‘‘ کے رُوح رواں تھے اُن کے بعض بڑے مشاعروں میں مجھے بھی شرکت کا موقع ملا۔
گزشتہ مہینے18 جون2017ء کو لندن سے سناؤنی آئی کہ خان پرویز بھی گئے۔ لندن میں کئی دہائیوں سے مقیم میرے لاہوری دوست خان پرویز مدتِ مدید سے ’’وہیل چیئر‘‘ پر تھے۔ طویل بے کاری و بیماری سے مردانہ وار نبرد آزما رہ کر بالآخر جان ہار گئے۔ دو تین برس قبل، مشترکہ دوست کنول فیروز کی مَساعی سے مرحوم کا اولین شعری مجموعہ’’ زندہ دارِ دامن شب‘‘ کے عنوان سے چھپ سکا، جس کا دیباچہ مجھ سے لکھوایا گیا۔ خان پرویز کا ایک شعر یاد آیا:
یہی تیری آمد ہے، فصلِ گل ہے وگرنہ ہر پھول مضحمل ہے
مری بہاروں کی شاہزادی تجھی سے گلشن میں تازگی ہے
باغوں، بہاروں، یونیورسٹیوں، کالجوں کے شہر لاہور کے بزرگ ترین شہری ’’انجمن شہریان لاہور‘‘ کے پہلے سیکرٹری جنرل پھر مستقل صدر رانا نذر الرحمن اپنی یادگار تصنیفِ لطیف،سرگزشت، خود نوشت آپ بیتی، جگ بیتی ’’صبح کرنا، شام کا‘‘۔۔۔کی صورت میں دو ایڈیشن چھپوا کر93 برس کی عمر میں خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ ہم اُن کی سنچری تقریبات کے پروگرام بناتے ہی رہ گئے۔اُن سے پہلے اسی لاہور میں ’’میرا لاہور‘‘ جیسی کتاب کے مصنف، نامور فوٹو گرافر ایف، ای، چودھری 105برس کی سالگرہ منوا کر رخصت ہوئے تھے۔۔۔ رانا نذر الرحمن کی معرکہ آرا کتاب’’صبح کرنا شام کا‘‘ کو لفظ لفظ، حرف حرف پڑھنے، نظرثانی کرنے اور طویل دیباچہ لکھنے کا اعزاز مجھے حاصل ہوا۔!طویل عمری کے ہاتھوں بالآخر مرض الموت نے رانا صاحب پر غلبہ پایا۔ آخری دِنوں میں مَیں عیادت کے لئے حاضر ہوا تو اپنے بڑے ڈاکٹر بیٹے سے امریکہ میں موبائل فون پر ہم کلام تھے۔ آواز کا طنطنہ قائم تھا، دماغ حاضر تھا، ڈاکٹر بیٹے کو بیماری کا حال احوال بتا رہے تھے۔’’نیند کبھی آتی ہے، کبھی نہیں آتی، آتی ہے تو آنکھ کُھل جاتی ہے‘‘۔۔۔ پھر کسی بات کے جواب میں کہا:’’ مَیں نے کبھی شرک نہیں کیا، حرام نہیں کھایا، سود کا لین دین نہیں کیا‘‘۔۔۔ باہر بارش ہو رہی تھی اولے پڑ رہے تھے، بیٹے کو موسم کا حال بتاتے ہوئے کسی سائنسی موضوع پر مختصر سا لیکچر دیتے ہوئے کہا:’’47ہزار کہکشائیں ہیں آسمان پر‘‘۔۔۔ مَیں اُن کی گفتگو پر دم بخود تھا:
عجب اک چمک اُس کی آنکھوں میں تھی
مجھے کیا خبر تھی کہ مر جائے گا
مختصر یہ کہ دُنیا فانی ہے۔ آنی جانی ہے اور موت بھی برحق ہے ہر ایک کو آنی ہے:
عجیب چیز ہے دُنیا کہ جس کے آنگن میں
کوئی بھی پھول کبھی جاوِداں نہیں کِھلتا
ذرا سی دیر میں خواب و خیال ہے دُنیا
نفَس کی آمد و شُد کا پتا نہیں ملتا
میرے ایک شناسا صحافی اور شاعر محمد نعیم قمر (مرحوم) کی بیوہ ممتاز صحافی خاتون زیبا برنی گزشتہ دِنوں کراچی میں بے دردی سے قتل کر دی گئیں، وہ ایک فلیٹ میں تنہا رہتی تھیں، لا ولد تھیں، قتل کا مبینہ مجرم کاشف جمیل گرفتار کر لیا گیا ہے جو ایئر کنڈیشن ٹھیک کرنے آیا تھا اور گھر کا مکمل جائزہ لے گیا، اگلے روز ہی اُس نے بہیمانہ واردات کر ڈالی، بجلی کی تار کی مدد سے زیبا برنی کا گلا گھونٹا اور موبائل فون لے کر فرار ہو گیا۔ اہم شخصیتوں کا قاتل عموماً جلد نہیں ملتا۔ اور مقتول مصطفےٰ زیدی جیسے شاعر کو الہامی انداز میں پہلے سے کہنا پڑتا ہے:
مَیں کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستان

مزید :

کالم -