سائیفرکہانی:ملزم بنامجرم یا مظلوم؟
سابق وزیراعظم عمران خان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان جو کئی روز سے گھر سے غائب تھے،ان کے گھر والے ان کو تلاش کرتے رہے۔ہائیکورٹ بھی گئے،اب اعظم خان منظر عام پر آگئے ہیں۔ وہ کہاں رہے؟۔اس کا تذکرہ بھی الگ بیان میں کیا ہے۔گھر جانے سے قبل ان کی طرف سے سائیفر سے متعلق اعترافی بیان ریکارڈ کروایا گیا۔یہ کتنا فول پروف ہے؟ اس میں کتنے سقم ہیں؟ اس کا جائزہ بیان پر نظر ڈالنے کے بعد لیتے ہیں۔ہمارے اپنے اخبار روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق اعظم خان نے 164 کے تحت مجسٹریٹ کے سامنے اعترافی بیان ریکارڈ کروادیا جس میں انہوں نے سائیفر کو ایک سوچی سمجھی سازش قرار دیا۔اعظم خان نے کہا سائیفر کے معاملے پر تمام کابینہ ارکان کو ملوث کیا گیا اور بتایا گیا سائیفر کو کیسے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ سائیفر کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا ’سائیفر کو غلط رنگ دیکر عوام کا بیانیہ بدل دوں گا۔ انہوں نے تمام تر حقائق کو چھپا کر سائیفر کا جھوٹا اور بے بنیاد بیانیہ بنایا۔ تحریک عدم اعتماد سے بچنے کیلئے سائیفر کو بیرونی سازش کا رنگ دیا گیا۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے مجھ سے سائیفر 9 مارچ کو لے لیا اور بعد میں گم کر دیا۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے سائیفر ڈرامے کے ذریعے عوام میں ملکی سلامتی اداروں کیخلاف نفرت کا بیج بویا۔ منع کرنے کے باوجود سیکر ٹ مراسلہ ذاتی مفاد کیلئے لہرایا۔
اعظم خان کے منظر عام پر آنے کے بعد گمشدگی کی ایف آئی آر خارج کر دی گئی۔اعظم خان نے پولیس کو بتایا وہ اپنی مرضی سے دوست کے ہمراہ روپوش تھے۔اس کے بعدایف آئی اے نے عمران خان کو 25 جولائی کوسائیفر پبلک کرنے کے الزامات کی تحقیقات کیلئے طلب کرلیاہے۔وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے عمران خان کے ڈرامے سے ملکی اداروں کی ساکھ کو نقصان پہنچا، سائیفر جیسے جھوٹے ڈرامے کی سزا ملنی چاہیے۔اعظم خان کے منع کرنے کے باوجود سابق وزیراعظم نے سائیفر جیسی خفیہ دستاویز پبلک کی جو ایک جرم ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کے معاون خصوصی عطا تارڑ نے کہا کہ سائیفر قبضے میں رکھنا،گم کرنا آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کیخلاف فی الفور ٹرائل چلایا جائیگا۔
تحریک انصاف کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اعظم خان سے منسوب غیرمصدقہ بیان تضادات کا مجموعہ ہے۔ مبینہ بیان اسی سلسلے کی کڑی دکھائی دیتی ہے جس سے زیرِحراست افراد ”استحکام“ یا ”پارلیمٹرینز“ کی صفوں میں سے برآمد یا پریس کلبز سے بازیاب ہوتے ہیں۔ عجلت اور فرسٹریشن میں جاری کیا گیا ”سکرپٹ“ سائیفر پر ریاستی مؤقف کیلئے تباہ کن ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی دو مختلف وزرائے اعظم(سابقہ اور موجودہ) کی صدارت میں ہونیوالے اجلاسوں میں سائیفر کے مندرجات کی تصدیق کرچکی ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی کے دو مختلف ادوار میں ہونیوالے اجلا سوں میں پوری سول و عسکری قیادت نے سائیفر کو ”پاکستان کے اندرونی معاملات میں صریح مداخلت“ قرار دیا۔
اس خبر پر چوبیس گھنٹے تک ٹی وی نیوز چینلز کی سکرینیں جھلملاتی رہیں۔ اینکر حضرات اور ان کے ردعمل کے لیے بلائے گئے مہمانوں کے چہرے فرطِ جذبات میں تمتماتے رہے۔ الیکٹرانک میڈیا میں عمران خان کا نام لینے پر پابندی ہے۔ اس دوران یہ پابندی بھی ملحوظ نہیں رہی۔عمران خان کی طرف سے ردعمل میں کہا گیا۔ ”اعظم خان ایماندار آدمی ہے، جب تک ان کی زبان سے نہیں سنوں گا، اس وقت تک نہیں مانوں گا“۔خان صاحب کو شاید اعظم خان کی زبان سے بھی یہ سب سنناپڑ جائے۔ پرویز خٹک چوہان، سردار تنویر الیاس جس زبان سے کپتان کے گُن گاتے تھے اسی سے اب خرافات کا شمار کراتے ہیں۔
مجسٹریٹ کے سامنے جو بیان دیا گیا وہ من و عن جاری نہیں ہوا بلکہ یہ اس کی رپورٹنگ ہے۔ اس میں بہ تکرار کہاگیا ہے۔" ایم اے کے (محمد اعظم خان)نے کہا ……"۔ پیرا گراف ڈی دیکھیں تو حیرانی ہوتی ہے۔ اس کے آخر میں بریکٹ میں لکھا ہے۔ "اس جگہ پر عمران خان کا متعلقہ آڈیو کلپ چلایا جا سکتا"۔یہ بیان شاید ٹی وی چینلز پر چلانے کیلئے جاری ہوا جہاں عمران خان کا نام نہیں لیا جاسکتا۔لہٰذا جا بجاچیئر مین پی ٹی آئی لکھا گیا۔ بہرحال جو بھی ہے اس سب سے عمران خان کے خلاف الزامات کی شدت میں کمی نہیں آ سکتی۔
معروضی حالات میں عمران خان پر یہ بیان اسی طرح کے سنگین الزامات کا حامل بیان ہے جیسا ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف ان کی قائم کردہ سپاہ ایف ایس ایف کے ڈائریکٹر جنرل مسعود محمود نے نواب محمد احمد خان کے قتل میں وعدہ معاف گواہ بنتے ہوئے دیاتھا۔ دوسرا بیان اسحق ڈار کی طرف سے میاں نوا زشریف کے خلاف حدیبہ پیپر ملز کیس میں دیا گیا تھا۔ مسعود محمود کے وعدہ معاف گواہ بننے پر ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزاسنا کر عمل کر دیاگیا تھا۔ مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت ایک عرصے تک عدالت کے اس فیصلے کی حمایت کرتی رہی۔ حکومتی اتحاد میں دونوں پارٹیاں ایک ساتھ ہیں تو اب بھٹو صاحب کو شہید تسلیم کیا جا رہا ہے۔
اسحق ڈار کا بیان ہاتھ سے لکھے45صفحات پر مشتمل تھا۔ڈار صاحب اس بیان کے بعد الیکشن لڑے وزیر خزانہ بنے۔ اسی دوران زیر عتاب آئے تو ایک محدود مدتی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے طیارے میں لندن چلے گئے اور پھر حالات سازگار ہونے پر دوسرے ایسے ہی وزیر اعظم شہباز شریف کے جہاز میں واپس آئے اور پھر وزیر خزانہ بن گئے۔ ان کا موقف رہا ہے کہ ان سے 45صفحات کا شریف خاندان کی منی لانڈرنگ کے خلاف بیان جبری لیا گیا تھا۔سپریم کورٹ حدیبیہ پیپر مل کیس ڈار صاحب کے بیان سمیت مُکت کرچکی۔ کس کے بیان کی نوعیت سنگین ہے۔ ڈار صاحب کے بیان کی یا اعظم خان صاحب کے بیان کی؟۔
اعظم خان نے سائیفر کے استعمال کے بارے میں بیان دیا ہے۔ سائیفر ایک حقیقت ہے اوراپنی جگہ موجود ہے جو امریکہ میں موجوداُس وقت پاکستان کے سفیر اسد مجید نے ڈونلڈ لوکے دھمکی آمیز رویے پر پاکستان بھیجا تھا۔ اسد مجید صاحب آج کل سیکرٹری خارجہ ہیں۔عمران خان سائیفر پر کئی بارتحقیقات کا تقاضا کرچکے ہیں۔اب کیس شروع ہورہا ہے۔عمران پراعظم خان الزام لگاتے ہیں کہ سائیفرانہوں نے ذاتی مفاد کیلئے استعمال کیا۔عمران خان اسے اپنے خلاف سازش اور رجیم چینج کا شاخسانہ سمجھتے ہیں۔حکومت سیاسی مخالفین کیخلاف بہت کچھ کرسکتی ہے۔خان کو لیول پلے اِنگ فیلڈ ملتا ہے یا نہیں مگر اس کیس میں کسی حد تک مل سکتا ہے۔رجیم چینج سے مستفید ہونے والے اس کیس کی شنوائی کے دوران مدت پوری کرکے گھر جاچکے ہوں گے۔
نئی سائیفر کہانی کی پلاننگ میں بھی استحکام اورخٹک پارٹی کی تشکیل کی طرح کئی سقم موجود ہیں۔سکرپٹ رائٹرملزم کومجرم ثابت کرنے کی کوشش میں مظلوم بنادیتے ہیں۔