آدمی سِیم و زر کے کام آیا

   آدمی سِیم و زر کے کام آیا
   آدمی سِیم و زر کے کام آیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

”آپ نے پہلی یا آخری بار 193سیڑھیاں کب عبور کیں؟“یہ سوال سُن کر مجھ سمیت اکثر لاہوریوں کا دھیان بادشاہی مسجد یا مینارِ پاکستان ہی کی طرف جائے گا۔ ایک چار سالہ بچے کو بھی مسجد کے جنوب مغربی مینار کا زینہ چڑھنے کا موقع ملا تو تھا، مگر اُس کی گنتی ذہن میں محفوظ نہیں۔ افراتفری میں 193سیڑھیاں اُترنے کا جو ذاتی واقعہ لندن کے کووینٹ گارڈن میں آج کے کالم کے لئے ہاتھ لگا ہے، اُس میں ذاتی وجہ کے تحت سیڑھیوں کی تعداد یاد رہ جانے کا امکان زیادہ ہوگا۔ ذاتی وجہ کو اُس گھریلو پس منظر کا اشارہ سمجھ لیں جو وطن سے باہر اِس بڈھے بڈھی کے درمیان طبقاتی کھچاؤ کی علامت بن جاتا ہے۔ عوامی زبان میں کہیں گے ’مقتدر حلقوں کی بدلی ہوئی ترجیحات‘۔ اِن میں اول نمبر پہ ہے تھیٹر، جس کی فیصلہ سازی طاقتور لوگ کسی خفیہ لندن پلان کے تحت کرتے ہیں۔ 

 اِس بار عوام کو تھیٹر کی صلح تو ماری گئی لیکن اِس احتیاط کے پیش ِ نظر کہ کہیں سچ مُچ ساتھ چل نہ پڑیں، ایک متبادل مشورہ بھی سامنے رکھ دیا۔ یہی کہ آپ تو شاید بی بی سی میں ثقلین امام، ساجد اقبال اور عمر آفریدی سے ملنا چاہیں۔ لنچ کے دوران ماں، بیٹا مشترکہ اعلان جاری کر چکے تھے کہ سینٹ مارٹن تھئیٹر میں اگاتھا کرِسٹی کا ’ماؤس ٹریپ‘ اِس کالم نگار کے دیکھنے کی چیز نہیں۔ ڈرامے کا متوقع دورانیہ ڈھائی، پونے تین گھنٹے تھا۔ اِتنے میں براڈکاسٹنگ ہاؤس جا کر شو ختم ہونے تک واپس تو آیا جا سکتا ہے۔کیوں نہ انڈرگراؤنڈ پکڑوں اور نکل جاؤں ”اسد بیٹا، مَیں تھیٹر تک آپ دونوں کے ساتھ چلتا ہوں۔ سامنے کووینٹ گارڈن کا ٹیوب اسٹیشن ہے۔ پونے چھ تھیٹر کے باہر ملیں گے۔“ منصوبے پر عمل بھی ہوا۔ گیم پڑی ہے اسٹیشن پر، جہاں سارا یورپ ایک ہی دن لندن دیکھنے کے لیے اُمڈ آیا تھا۔

 رسل اسکوئیر کی طرح کوونٹ گارڈن اسٹیشن پر بھی ہر دم رواں برقی زینے یا ایسکیلیٹرز نصب نہیں بلکہ اوپر نیچے آنے کے لئے تاحال وہی تین لِفٹیں چل رہی ہیں جن کا سن ِ ولادت پوسٹ گریجوایٹ تحقیق کا موضوع ہونا چاہیے۔ خود مجھے بینک، پوسٹ آفس،یہاں تک کہ نادرا کے کاؤنٹر پر باری کا انتظار کرنے میں کوفت نہیں ہوتی۔پر تھیٹر کی سہ پہر لِفٹ والے برآمدے میں قطار کی طوالت دیکھی تو واقعی ’نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاکِ کاشغر‘۔ پھر انگریز کے مقابلے میں اوسط یورپی باشندہ اپنی جسامت کے انوسار جگہ بھی زیادہ گھیرتا ہے۔ خاص کر پر وہ مرد و خواتین جن کے چہروں کا رُخ اگر مغرب کی جانب تھا تو توند شمال یا جنوب کی طرف پیش قدمی کرتی نظر آئی۔ کچھ نوجوان البتہ لِفٹ کی بجائے سیڑھیوں کی سمت میں آگے بڑھ رہے تھے۔ مَیں بھی اُن کے پیچھے ہو لیا۔ 

تیسری دنیا کا آخر کونسا شہری ہے جسے روزانہ سیڑھیاں چڑھنے اُترنے کی مشق نہ ہو۔ پھر بھی اینٹ، لکڑی اور ٹائلوں سے ہٹ کر یہ دھات کا بنا ’سپائرل سٹیئر کیس‘ کیا بلا تھی؟ اِس کا شعور دس پندرہ میٹر نیچے اُتر کر بتدریج حاصل ہوا۔ بس گھڑی کی سوئیوں کے اُلٹ تسلسل سے نیچے کو گھومتے جا رہے ہیں۔ بائیں جانب کا دائرہ چھوٹا ہے، مگر پیر ٹکانے کی جگہ ندارد۔ مَیں نے داہنی طرف رہ کر فاصلے کے لحاظ سے چکر تو بڑے بڑے کاٹے مگر دیوار پر جگہ جگہ سُرخ حروف میں درج وارننگ پڑھنے کو مل گئی: ”خبردار، یہ عام سیڑھیاں نہیں، یہ صرف انتہائی ایمرجنسی میں استعمال کی جائیں۔“ اِس سے زیادہ روح فرسا اعلان لاؤڈ اسپیکر پر نشر ہو رہا تھا: ”اِن سیڑھیوں کی گہرائی پندرہ منزلوں کے برابر ہے۔ معمر افراد اور دل کے مریض اِدھر کا رُخ ہرگز نہ کریں۔“ تو آدھے راستے میں دل کا معمر مریض کیا کرتا؟ 

مریض نے خوف سے بچنے کے لیے ایک ہی نکتے پر توجہ رکھی۔ یہی کہ جب اللہ چاہے یہ پندرہ منزلہ سیڑھیاں طے ہو جائیں گی تو پکاڈلی لائن پر نارتھ باؤنڈ ٹرین پکڑنی ہے، ساؤتھ باؤنڈ نہیں۔ اگر کرسٹوفر کولمبس والی مبینہ چُوک ہو گئی تو واپسی کے لیے پھر سات کم دو سو، چکر باز دھاتی سیڑھیا ں ہوں گی۔ وہ بھی نشیبی سمت میں نہیں، چڑھائی کے رُخ پر۔ خیر، پیدل مسافت کاٹ کر پہلے پکاڈلی لائن اور آگے جاکر سنٹرل لائن کے ڈبے میں کامیابی سے گھُسے تو ورلڈ ویو پر بھی حقیقت پسندی چھانے لگی۔ سوال اُبھرا کہ آج کسی سے ملاقات جب طے ہی نہیں تو یہ آنیاں جانیاں کِس کھاتے میں؟ کیا یہ اچھا نہیں تھا کہ بی بی سی ہمکار اور فیملی فرینڈ دردانہ انصاری نے ’خوش نوائی‘ کی تقریب ِ رونمائی کا جو آئیڈیا دیا تھا، آج اُسی پر عمل کر لیتے؟ اور یار، مشہوری کے اِس نسخے کو جھٹکنے میں تمہارا کونسا کامپلیکس کار فرما تھا؟

 دردانہ معمولی شخصیت نہیں بلکہ تعلیمی و تدریسی خدمات پر ’او بی ای‘ خطاب یافتہ اور رائل نیوی میں اعزازی، مگر باوردی کیپٹن۔ اب اُن سے بولا گیا سچ آپ سے شیئر کروں تو خلاصہ یہ ہے کہ تقاریب میں نظامت و صدارت کی ساری مہارتیں نوعمری میں خرچ کرچکا ہوں۔ آج کل سٹیج پر چڑھوں تو  پتا نہیں چلتا کہ چہرے کو سنجیدہ رکھنا ہے یا مزاحیہ؟ ویک اینڈ سے پہلے شکلیں بنانے کی ایک آزمائش البتہ آسانی سے گزر گئی ہے۔ فلیش بیک میں جائیں تو ایک گزشتہ تحریر میں برطانوی ہوٹل چین کا ممبرشپ کارڈ سینت سینت کر رکھنے کا ذکر تھا۔ یہ بھی کہ اِس مرتبہ ’باتھ‘ نامی تاریخی شہر میں دو روزہ قیام کی بُکنگ مارچ ہی میں کروا لی تھی۔ پھر بھی جو آن لائن رسید ملی، اُس میں گھپلا ہو گیا۔ تحریر کا اقتباس ملاحظہ ہو: 

”میل غور سے دیکھی تو گیسٹ کا نام مسٹر اینڈ مسز شاہد ملک کی بجائے کچھ اور ہی تھا۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے تو اردو میں اِس نام کا تلفظ ہوگا ’جیِٹی کن، کئییم پی تایا نووت‘۔ یا الہی یہ ماجرا کیا ہے؟ ترامیم کی آپشن کھولی۔ کمرہ نمبر، فلور اور بُکنگ کی تاریخیں بدلنے کی گنجائش تھی، یہ بھی کہ کیا مزید مہمانوں کے لیے جگہ چاہیے۔ رہی نام کی تصحیح تو اِس کا کوئی خانہ ہی نہیں۔ تو کیوں نہ بُکنگ ہی منسوخ کر وا دوں؟ ایک دو ڈبوں کو کلِک کیا۔ مصنوعی ذہانت نے اطلاع دی کہ بینک کارڈ پر رقم کٹ چکی ہے جو واپس نہیں ہوگی۔ مقتدر حلقوں کی طرف دیکھا تو جواب مِلا:’پچھلے سال فرنٹ ڈیسک پر جس کسی نے آپ کو ممبر بنایا، اُس نے تیزی میں یہ کام اپنے اکاؤنٹ سے کر دیا ہوگا۔ پیسے آپ کے کٹے، ای میل آپ کو آئی مگر سسٹم نے ’جیٹی کن‘ کا نام یاد رکھا۔‘ مجھے لگا کہ اعلان ختم ہو گیا ہے۔“

چیک اِن سے پیشتر بُکنگ کی مزید تصدیق کے لیے جو میل آئی اُس کے القاب ’ڈئیر جیٹیِ کن‘ نے اور بھی ڈرا دیا۔ بیٹی نے رائے دی کہ ہوٹل کے کاؤنٹر پرسارا پس منظر بیان کر دیجیے، سمجھ جائیں گے۔ بیٹے نے کہا ”فرنٹ ڈیسک کے سطحی لوگ دوہری شناخت کی گہرائی کیسے جانیں گے؟ عملی مشورہ عارف وقار کا تھا کہ نام کے جھگڑے کی جگہ ای میل دکھائیں اور کمرے کا رُخ کریں۔ چنانچہ گئے تو اِسی ارادے سے، مگر جب اُس پرنٹ آؤٹ پر دستخط کرنے کے لیے کہا گیا جس میں مہمان کا نام ’جیٹِی کن‘ تھا تو دل نہ مانا۔ کہا ”ہوٹل عملے کی سینئر رُکن سے ملوا دیں۔“ برانچ منیجر آئیں،بات سُنی اور بولیں یہ نام کاٹ کر شاہد ملک لکھ دیجیے۔“ ”نان ممبر ہوتے ہوئے کوئی اضافی ٹیرف؟“ ”شکریہ، اِس کی ضرورت نہیں۔“ شام کو ایک گھاگ اسٹاف ممبر کو اعتماد میں لیا تو کہنے لگے:”دونوں زمروں میں صرف ایک ایک پاؤنڈ یومیہ کا فرق ہے۔“ مجھے احمد ندیم قاسمی یاد آگئے لیکن شعر اِس لیے نہ سُنایا کہ خوامخواہ انگریزی ترجمہ بھی کرنا پڑے گا۔ شعر تھا:

سیِم و زر آدمی کے چاکر تھے 

آدمی سیِم و زر کے کام آیا

  

مزید :

رائے -کالم -