تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 52
اس لڑائی کیلئے فارسی شاعروں نے لکھا ہے جن سواروں کے گھوڑے کمرکمر تک خون میں ڈوب گئے تھے اور خاں دوراں صفوں کی شکست قبول کر کے اور اپنے گھوڑے کی بھینٹ چڑھا کر جان بچا سکا۔بہادر خان کو کلتاش سے پاؤں تک خون میں نہا گیا۔فوجدار مارا گیااور خان زادوں نے میدان سے ہاتھی نکال کر جان بچالی اور چھتر سال اورنگ زیب پر اس طرح جھپٹا کہ گھوڑے کے دونوں پاؤں ہاتھی کی مستک پر جم گئے ۔فیل بان چھتر سال کے ہاتھیوں میں چمکتی ہوئی ناگن کا شکار ہو گیا اور چھتر سال نے گرج کر کہا۔
’’تم صاحب عالم کے سامنے تخت طاؤس پر چڑھنا چاہتے ہو‘‘اور ایسا تلا ہوا ہاتھ مار اکہ اگر اورنگ زیب کے سر پر بے نظیر خود نہ ہوتا تو تلوار کمر تک دھنس جاتی تاہم کلغی اڑ گئی اور خود کی کڑیاں بکھر گئیں۔اورنگ زیب نے اس بے پناہ وار صدمے کو برداشت کر لیااور ساتھ ہی لوہے کے ڈانڈ کا نیزہ اسی وقت چھتر سال کے سر پر مارا کہ وہ ہاتھی کے دانتوں اور سونڈ میں پھنسے ہوئے گھوڑے پر سنبھل نہ سکا اور زمین پر آگیا۔
تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 51 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اورنگ زیب کی غضب ناک آواز سنائی دی۔
’’بزن۔‘‘
اورنگزیب کے ہاتھی کے گر د گھیرا ڈالے ہوئے کماروں اورسنگھوں کے چاروں طرف رکاب خاص کے تجربہ کار سواروں نے زنجیر بنا لیا۔چھترسال کے زمین پر گرتے ہی ایک سوار نے گھوڑا پیش کیا لیکن زخمی چھتر سال سوار نہ ہو سکاتھا کہ اعظم خاں نے نیزہ سیدھا کر کے پوری انی راؤ کی کمر میں گھسیڑ دی جو دوسری طرف نکل گئی۔لیکن اعظم خاں سے سردار بخت سنگھ الجھ گیااور سروہی کے ایک ہی وار میں چھتر سال کا بدلہ لے۔لیکن چھتر سال کی موت کا بدل تو داراشکوہ کے پاس بھی نہ تھا۔بخت سنگھ نے ہر اول کا جھنڈا روپ سنگھ راٹھور کے کندے پر رکھ دیا۔جو سزاوار خاں کودست بدست لڑائی میں مار چکا تھا۔راج روپ سنگھ نے تلواروں کے باڑھ میں علم کو بوسہ دیا اور بڑھتے ہوئے دلاور خاں پر ٹوٹے ہوئے دل اور پر نم آنکھوں سے ایسا حملہ کیا کہ دلاور خاں جو دکن کی لڑائیوں کونا کام کر چکا تھا۔اورنگ زیب سے چہار ہزاری منصب پا چکا تھا ایک ہی وار میں ختم ہو گیا۔
مگر اب میدان جنگ اورنگ زیب کے ہاتھ میں تھا۔چھتر سال کی لاش کے چاروں طرف جنگ سلطانی لڑتے ہوئے سردار اور سوار خان دوران کی بے امان تلواروں کی یورش میں تھے۔داؤد خان ایک جزیرے کی طرف جان جہاں اسلام خاں کے سواروں میں سمندر میں گھر چکا تھا لیکن راجہ روپ سنگھ راٹھور کا ندھے پر علم رکھے،دونوں ہاتھوں میں خون سے لال تلواریں علم کئے جست خیز کر رہا تھا اور دھاوے پر دھاوا کئے جا رہا تھا۔خواص میں بیٹھے ہوئے قادر انداز خاں نے سارے لشکر اورنگ زیب میں اپنے نشانے کا جواب نہ رکھتا تھا،اپنی تفنگ سیدھی کی اور خان دوراں کی تلوار میں گھرے ہوئے راجہ روپ سنگھ راٹھور کا نشانہ لیالیکن اور نگ زیب نے ہاتھ بڑھا کر نال ہٹا دی اور حکم دیا۔
’’راجہ روپ سنگھ ،تلوار رکھ دو۔جان بخشی کی گئی۔تمہارے راج پر بوندی راج کا اضافہ کیا گیا اورپنج ہزاری منصب عطا ہوا۔‘‘
لیکن دارا شکوہ کے صحبت یافتہ سرداروں کا اورنگ زیب کے ہاتھوں بک جانا ممکن نہ تھا۔راجہ نے جواب دیا۔
’’ہم نے صاحب عالم کا نمک کھایا ہے،جو اسی میدان میں ادا ہو گا۔‘‘اور خان دوراں پر حملہ کر دیا۔اورنگ زیب نے آخری کوشش کی۔
راجہ کی جلالت پسند خاطر ہوئی۔جوشخص اس بدنصیب کو زندہ گرفتار کرے وہ مراحم میں گھس چکا تھا اور وہ آخری جنگ لڑ چکا تھا جس کا ایک نام خودکشی بھی تھا۔
اورنگ زیب ٹھنڈی پر سکون نگاہوں سے راجہ راج روپ سنگھ راٹھور کی لاش دیکھ رہا تھا جس کے آدھے جسم پر ہر اول کا علم سایہ کئے ہوئے تھا کہ خاں دوراں نے راؤ چھتر سال کا سر کاٹ کر پیش کیا۔راؤ سے اگر تقدیر نے یاوری کی ہوتی تو اس کا قلم فیضی سے چشمک کرتا اور تلوار راجہ مرزا ایان سنگھ کے افسانے بھلا دیتی پھر خاں زماں کے نیزے پر داؤد خاں کا چڑھا ہوا سر اورنگ زیب کو مبارکباد دینے حاضر ہوا۔ساتھ ہی خبر آئی کہ خان کلاں ذوالفقار خاں سے کمار بھرت سنگھ کا سر کاٹ لیا ہے جو چند لمحوں میں حضوری کا شرف پانے والا ہے ۔
سورج دارا کے اقبال کی طرح زوال پر مائل ہو چکا تھا۔کڑی دھوپ کی تنی ہوئی آگ کی چادر کے نیچے فولاد پوش آدمی اور جانور حرکت کر چکے تھے۔داراشکوہ دو سو جنگی ہاتھیوں کی دیوار کے پیچھے خاص کے سواروں اور پیادوں کے ساتھ پیش قدمی کر رہا تھا۔اس نے رستم خان فیروز جنگ کے ہاتھوں صف شکن خان کے توپ خانے کو زیر و زیر ہونے کی خبر سنی تھی،اسے مطلع کیا گیا تھا کہ راجہ رام سنگھ راٹھور نے شہزادہ مراد کے ہاتھی پر ہلہ بول دیا ہے اور خان زمان اسلام خاں کی پشت پناہی بے سود ثابت ہوئی تھی۔اسے اطلاع دی گئی تھی کہ زمان خاں کے بچے کھچے لشکر کو کاٹ کر چھتر سال ہاڑا اور رنگ زیب پر چڑھ گیاہے اور’’ قول‘‘ میں تہلکہ ڈال دیا ہے ۔داراکی تما م خبریں غلط نہیں تھیں لیکن پرانی اور نامکمل تھیں۔بہر حال دارا اس اکبر کا جانشین تھا جس کے حصور میں بیرل کی موت کی خبر پہنچانے پر کوئی ’’رتن‘‘تیار نہ ہو ا تھا۔
میدان جنگ میں خبریں پہنچانے والے اکبری نورتن نہ تھے،دارا ئی خواص تھے اور رستم خان کی موت لشکر شاہی کے سب سے بڑے سپہ سالار کی موت تھی۔خواصوں نے سوچا کہ کوئی فتح نصیب ہو لے تو اس مبارک خبر کے ساتھ یہ منحوس خبر بھی ٹانک دی جائے تاکہ انگیز کر لی جائے لیکن ہوا یہ کہ ایک ایک کر کے تینو ں مشہور سپہ سالار بد نصیبی کا شکار ہو گئے۔اور خواص بیمار کے سرہانے بیٹھے ہوئے چارہ گروں کے مانند جھوٹی تسلیاں دیتے رہے ۔
اس طرح دارا کے نقشے کے مطابق خان خاناں نجاہت خاں اورشہزادہ محمد کے رسالے اس کے لشکروں کی پھیلائی ہوئی تباہی سے محفوظ تھے،دارا نے قول کو حرکت دی۔دشمن کا توپ خانہ کو اپنے مرکز سے ہل چکا تھا،پوری طرح برباد تصور کیا گیااور اس خیال خا م کے نتیجے میں خود اپنے توپ خانے سے بے توجہی برتی گئی۔بھاری زنجیریں جو توپوں کو ایک دوسرے سے منسلک کئے ہوئے تھیں،کھول دی گئیں تاکہ ’’قول‘‘کے ہاتھیوں کیلئے راستہ بنایاجاسکے،۔دارا جو اس وقت شہنشاہ کی نیابت کر رہا تھا،اپنے مرکز سے ہلا تو ہاتھیوں اور انٹوں پر رکھے ہوئے نکارے گرجنے لگے،باجے بجنے لگے۔خوشامد یوں اورکم شعوروں نے آواز دہل کو فتح کے شادیانے پر محمول کیا اور داراکے بڑھتے ہی توپ خانے کا عملہ فتح کی لوٹ میں شریک ہونے کیلئے مورچے چھوڑ چھوڑ کر بھاگنے لگا۔
سجے بنے کوہ پیکر ہاتھی اپنے پیچھے تاریخ رکھتے تھے۔نشان اٹھائے دس دس ہاتھیوں کو کمان میں لئے آگے آگے چل رہاتھے قیمتی عماریوں اور نقرئی پاکھریں دھوپ میں تڑپ رہی تھیں۔ان کے پیچھے آہستہ خرام رسالے تھے جو سنہرے رو پہلے بکتر یا سرخ،زود،سبز سیاہ اور سفید لباس پہنے ہوئے تھے۔جس کے نیچے جسم کی حفاظت کا سامان سنہری گرمی سے پھنک رہا تھا۔ ان کے گھوڑے شاہی اصطبل کے تھے جو جسم کے بھاری اورمحنت سے عاری تھے۔اگر منہ زوری کی تو سوار کو زمین پر پھینک دیا اور تھک گئے تو چلنے سے انکار کر دیا۔دھوپ میں کھڑے ہوئے مست ہاتھیوں نے آنکس کا اشارہ پاتے ہی تیزی سے حرکت کی اور ’’قول‘‘ کے وہ بے نظیرپیدل سپاہی جن کی وفا اور شجاعت کی قسم کھائی جا سکتی تھی اور جو سر سے پاؤں تک لوہے کے خول میں بندھے تھے،شانے سے شانے ملا ئے فولاد کے ٹھوس مورچوں کی طرح حرکت کر رہے تھے او رجنہوں نے گھوڑے اس لئے نا مقبول کئے تھے کہ ان کوجود فرار کا جذبہ پیدا کر سکتا تھااور جو ہا تھیوں کی تیز رفتار کا ساتھ نہیں دے سکتے تھے،ایک ایک کر کے چھوٹنے لگے،ان افسروں نے دارا کی سواری کے ساتھ چلتے ہوئے ہزار ہا کوتل گھوڑے طلب کئے لیکن چاروں طرف سواروں کی منہ زوریاں اور الیلیں کرتے گھوڑوں کا حصار جنباں تھا۔باجوں کی تیز آوازیں کچھ سننے اورسمجھنے سے قاصر تھیں۔بچے کھچے پیدل سورما جو جان جو کھم میں ڈالے رکاب کا ساتھ دے رہے تھے،چور چور ہو گئے اور اب روایتی شجاعت کے اظہار میں صرف جانیں قربان کر سکتے تھے جو قربان کر دیں۔
اورنگ زیب نے چھتر سال ہاڑا سے نجات پاتے ہی صفیں درست کیں۔خان خاناں نجاہت خاں کو فرمان بھیجا کہ لپک کر غنیم سے الجھ جائے ۔خا ن کلاں ذوالفقار خاں کو نصرت جنگ بہادر کا خطاب دے کر حکم دیا کہ اپنے اور صف شکن خاں کے بچے کھچے شتر سوار توپ خانے کو کمان میں لے کر دارا کے بائیں ہاتھ پر حملہ کرے اور خاں زماں اسلام خان اور شاہزادہ مراد کے دونوں بازوؤں کو کمان کی طرح پھیلا یا اور نقاروں پرچوب لگا کر اس تزک و احتشام سے یلغار کی گویا تخت و تاج کی مبارکباد یاں قبول کرنے چلا تھا۔(جاری ہے )
تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 53 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں