تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 53
خان خاناں جنگی تکنیک میں اورنگ زیب کے احکام کا پابند تھا۔دارا کے نشان دیکھ کر اورنگ زیب کا حکم پا کر اپنی صفوں کو پوری تنظیم و تربیت دے کر بڑھا اور جیسے ہی ذوالفقار خاں کا شتر سوار توپ خانہ دارکے بائیں بازو پر نمودار ہوااو ر اس نے دھاوا کیا۔ذوالفقار خاں نے دارا کو زد میں پاتے ہی ’’ضرب‘‘ کا حکم دے کرایک ایک نال خالی کر دی۔یہ تمام کے تمام تو بچی تفنگ،ہاز اور زنبوریں چلانے والے ہی شاہی توپ خانہ کا ایک حصہ تھے میر جملہ کی کمان میں اورنگ زیب کی کمک پر رخصت ہو اتھا اور میر جملہ کی فرضی گرفتاری کے بعد اس کے اختیار میں آگیا تھا۔خان خاناں دارا کے ہاتھوں کی قوت سے واقف اور خائف تھا۔لیکن اس کی تقدیر سے ذوالفقار خاں نصرت جنگ بہادر نے ہاتھیوں کو ہی اپنا ہدف بنا لیا تھا۔بے محابہ گولہ اندازی اور آتش باری نے ہا تھیوں کی صفیں غارت کر دیں او رزخمی کوہ پیکر جانوروں نے دن بھر کی کڑی دھو پ میں جمع کیا ہوا سارا غضب اپنے لشکر ہی پر برسا دیا۔تھوڑی دیر کیلئے’’قول‘‘ میں تہلکہ مچ گیا۔ایسا ویسا دشمن ہوتا تو اپنے ہی ہتھیار ڈال دیتا لیکن مقابلے پر دارا شکوہ تھا جس کے جلو میں اب بھی فیل شکار اور شیرا فگن سورماؤں کا پورا ایک لشکر چل رہا تھا۔ظفر خاں اور فخر خاں اور کمار رام سنگھ نے گھوڑے دوڑا کر خود اپنے ہاتھوں کا شکار کیا،زخمی کیاواور کتنی ہی قیمتی جانیں کھو کر ان پر قابو پایا۔دار ا نے ایک بار پھر صفیں آراستہ کیں اور خان خاناں نجابت خاں پر حملہ کر دیا جو شاہزادہ محمد کے ساتھ دس ہزار فوج لئے بلائے بے درماں کی طرح چلا آرہا تھا۔دارا جو اپنی زندگی کا پہلا میدان لڑ رہا تھا،پورے استقلال کے ساتھ سپہ سالار کر رہا تھا جہاں دشمن کا دباؤ دیکھتا،اپنا ہاتھی ریل کر پہنچتا۔شجاعوں کے نام لے لے کر دل بڑھا تا۔خاصے کے سواروں کی کمک بھجتا اور غنیم کو مورچہ توڑ کر دوسری طرف متوجہ ہو جاتا۔
تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 52 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
جان لیوا مصروفیات کے باوجود اس نے قاصدوں کے ذریعہ حکم بھیجاکہ ہلکا توپ خانہ تیزی کے ساتھ کمک پر لایا جائے۔غدار برق انداز کی تساہلی کے باوجود کنور رنبیر سنگھ کچھواہہ چربی چڑھے ہوئے سست رفتارگھوڑوں،خچروں اور بیلوں پر توپیں لاد کر چلا گیالیکن سامنے اپنا لشکر کھڑا تھا۔پورے لشکر کا چکر کاٹ کر داہنے بازو پر پہنچنے کی کوشش کی لیکن شاہزادہ مراد اشارے پر شہباز خاں چار ہزار سواروں کے ساتھ راستہ روک کر کھڑا ہو گیا۔
داراشکوہ نے اپنی ذاتی شجاعت و صلابت کے بوتے پر شاہزادہ محمد اور نجابت خاں کے درمیان راستہ بنا لیااور سیدھا اورنگ زیب کی طرف چلا۔ہر چند کہ لشکر شاہی کے دست و بازو ٹوٹ چکے تھے۔تاہم اب اگر نمک حرام خلیل اللہ خاں کے بجائے نجابت خاں میر جملہ یا جسونت سنگھ ایسا کوئی سپہ سالار شاہی میمنہ پر کھڑا ہوتا اور اس کی رکاب میں امیر الا مراء کی پندرہ ہزار آزمودہ کا رفوج ہوتی تو دار اپنے قوت بازو سے میدانِ جنگ کا نقشہ بدل دیتا لیکن نواب نے کچھ کیا تو یہ کہ دور کھڑے ہوئے لشکر سے نکلا۔حضوری میں آکر تسلیم کی،ہاتھی کا طواف کیا اور عرض کیا۔
’’صاحب عالم کو فتح مبارک ہو۔شہزادہ مراد نے میدان چھوڑ دیا۔شہباز خاں ہزار سوار کے ساتھ’’فلک بارگاہ‘‘کی سلامی کو جارہا ہے۔اسلام خاں باغی اورنگ زیب کی تلواروں میں گھرا ہوا چھوڑ کر چلا گیا۔اورنگ زیب موت کی لڑائی لڑ رہا ہے۔وہ اگر صاحب عالم گھوڑے پر نزول اجلال فرما کر پیش قدمی پر مائل ہوں تو اورنگ زیب کو زندہ گرفتار کر لیاجائے،لیکن۔۔۔۔‘‘
اگر صاحب ’’ فتح جنگ‘‘ پر جلوس فرما رہے اور یلغار میں تاخیر ہوئی تو امکان ہے کہ شاہی ملازم شاہزادہ دوم کے مقابلے سے عاجز ہو جائیں اور با غی سے عاجز ہو جائیں اور باغی کو فرار کو موقع مل جائے۔اس لئے نمک خوار دولت کی گزارش ہے کہ ولی عہد سلطنت برق پا پر جلو س آرام ہو کرباگیں اٹھا دیں۔
’’ہر گزرنے والی گھڑی اورنگ زیب کو ہم سے دوری کر رہی ہے۔‘‘
’’ہاتھی بٹھا دیا جائے۔‘‘
دارا نے حکم دیا۔
اور مرصع ’’فتح جنگ‘‘ نے دارا کے حضور میں اپنا آخری سلام پیش کیا۔دارانے بیٹھتے بیٹھتے گھوڑے کو چھیڑ دیا۔مکار اور غدار نواب سلام کر کے اپنے مرکز کی طرف چلا۔گویا لشکرکو ہمر کاب لے کر وہ بھی اورنگ زیب پر یورش کرنے والا ہے۔
شتر سوار زنبوروں نے آگ کی بارش کر دی۔ساتھ ہی ان قاصدوں نے جو کنور رنبیر سنگھ کچھواہہ کے ساتھ توپ خانہ لینے گئے تھے،کنور کی موت کی خبر دی اور توپ خانہ سے مایوسی کا اظہار کیا۔
دارا نے گرج کر حکم دیا۔
’’رستم خاں فیروز جنگ،مہراؤ چھتر سال ہاڑا اور مہاراجہ رام سنگھ راٹھور کو احکام پہنچائے جائیں کہ سوار خاصہ کے ساتھ ما بدولت کے حضور میں ہوں۔‘‘
کسی طرف سے جواب میںآواز آئی۔
’’وہ سب کے سب صاحب عالم پر نچھاور ہو چکے۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’صاحب عالم کے خوف سے خبر محفوظ رکھی گئی لیکن اب پوشیدہ رکھنا جرم ہے،اس لئے عرض کیا گیا۔‘‘
اور دارا کو جیسے چکر آگیا۔پیروں سے رکابیں نکل گئیں۔آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔پھر دارا شکوہ نے چلا کر امیر الاامراء کے لشکر کی طرف اشارہ کیا۔بدنصیب ولی عہد نے آنکھیں پھاڑ کر دیکھا کہ نواب اپنے لشکر کے ساتھ شاہزادہ مراد کے سامنے سلامی دیتا گزر رہاہے۔ساتھ ہی رکاب میں کھڑے علم اٹھائے ہوئے خواص کا سر پانچ سیر کے گولے سے اڑ گیا۔اب شہباز خاں او ر شاہزادہ سلطان محمد نے پشت پر حملہ کر دیا تھا اور وہ اسلام خاں کے تیروں کے زد میں آگیاتھااور مرادتفنگوں سے آگ برسنے لگی تھی اورسوار مرنے لگے تھے۔
دارا نے فتح خاں کو حکم دیا۔
’’سپہرہ شکوہ کو اکبر آباد پہنچا دو۔‘‘
اورخود گھوڑا بڑھا کر چلا دشمن کے گولوں کا شکار ہو جائے لیکن جانثاروں نے رکاب پر سر رکھ دیئے اورمراجعت کی گزارش کی کہ ابھی شہنشاہ زندہ ہے۔سطان سلیمان شکوہ کوچ کوچ کرتا دارالخلافت پہنچ رہا ہے۔پنجاب،کابل،الہ آباد اورسندھ اس کے حکم پابند ہیں اور یہ کہ ایسے ایسے کتنے ہی لشکرچشم زدن میں تیار کئے جا سکتے ہیں۔
اور دارا دوسرں کے ہاتھوں میں گھوڑا دے کر اکبر آباد کی طرف مڑگیا۔ساموگڑھ کی لڑائی شاہ جہاں کے دو بیٹوں کے مابین تخت وتاج کے حصول ہی کیلئے نہیں لڑی گئی،بلکہ یہ دو نظریوں کی جنگ تھی جس کا فیصلہ سامو گڑھ کے صفحے پر تلوارکی نوک سے لکھا گیا۔سیاسی،تہذیبی اور عسکری نقطہ نظر سے یہ جنگ ہندوستان کی اہن ترین جنگوں میں سے ایک تھی۔ساموگڑھ نے یہی نہیں کیا کہ ہندوستان کا تاج دارا سے چھین کر اورنگ زیب کے سر پر رکھ دیابلکہ مغل تاریخ کے اس زریں باب پر مہر لگا دی جسے اکبر کا عہد کہا جا تا ہے ۔وہ عہد جس نے سیاست کو قومیت کا اعتبار کیا تھا۔جس نے ہندوستان کے قدیم ادب کو نئی زندگی اور نئی تفسیر کا خلعت پہنایا تھا۔جس نے پرانے فنون لطیفہ کو ثقاہت اور استناد کا حق بخش دیا تھا۔وہ مبارک عہد،وہ سنہرا زمانہ مجدالف ثانی کی تحریک احیاء کے ہاتھوں سامو گڑھ کے میدان میں ہار گیا۔خاک و خون میں نہلا دیا گیا۔وہ علم اس طرح سرنگوں ہو گئے کہ پھر کبھی کسی کاندھے پر اس شکوہ سے نہ لہرا سکے۔(جاری ہے )
تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 54 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں