تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 54
اس میدان میں دارا شکوہ نے اپنی شاندار فوج ہی نہیں کھوئی بلکہ وہ خوداعتمادی بھی کم کر دی جو بڑی بڑی تباہیوں کو انگیز کر لیتی ہے اور عظیم الشان تعمیروں کی بنیادیں ڈال دیتی ہے۔اب دارا شکوہ کی ٹوٹی ہوئی کشتی سیہ بخت طوفان کی چنگھاڑتی موجو د کے رحم و کرم پر تھی۔تقدیر نے دار ا کو اس لئے زندہ بچا لیا تھا کہ بدنصیب ولی عہد سے ان بے محابا عشرتوں کے ایک ایک قطرے کا حساب لینا تھا جو کشور ہند کے سب سے شاندار شہنشاہ نے اس پر روار رکھی تھیں۔
دوکروڑ کا سازو سامان لوٹ کر فاتح اورنگ زیب نے ’’فلک بارگاہ‘‘ میں قیام کیا۔اپنے امرائے نامداز کے ساتھ نواب اللہ خاں اور برق انداز خاں( سید جعفر) جو جاگیر منصب سے نہال کیا اور دوسرے دن چھوٹے چھوٹے کو چ کرتا ہو ااکبر آباد میں داخل ہونے کے بجائے باغ عمادالدولہ میں بارگاہ نصب کر دی۔گوش گزار کیا گیا کہ شہنشاہ کے عنایت کئے ہوئے اشرفیوں سے لدے ہوئے خچروں اور روپیوں سے لدے اونٹوں اور جواہرات کے صندوقوں کے ساتھ داراشکوہ شاہ جہاں آباد کی طرف کوچ کر چکا ہے۔شاہ جہاں آباد کے تمام راستے مسدود کر دیئے گئے اور قلعہ مبارک کا اس طرح محاصرہ کر لیا گیا کہ اکبر ی مسجد کے فصیلوں پر توپیں چڑھا دی گئیں اور جمنا پر فرات کی طرح پہرے بٹھا دئیے گئے ۔بوڑھا اور بیمار شہنشاہ جو سامو گڑھ کے ناقابل یقین انجام سے بے حواس تھا اور نڈھال ہو گیا۔
تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 53 پڑھنے کیلئے یہاں کک کریں
دنیا پرست جو اٹھتے ہو ئے آفتاب کی پرستش کرتے ہیں۔دن دیہاڑے کھلے خزانے قلعہ معلی کی ملازمت چھوڑ چھوڑ کر اورنگ زیب کے حضور میں حاضر ہونے لگے۔ تاہم شاہ جہاں قلعہ کی مدافعت کرتا رہا لیکن جب قلعہ معلی کا کنواں پانی کی کفالت نہ کر سکا او ر محافظ فوج جو ہزار نفوس پر مشتمل تھی،بددل ہونے لگی تو بادشاہ بیگم( جہاں آرابیگم) شہنشاہ کی آخری سفارت کے فرائض انجام دینے کی تیاریاں کرنے لگیں۔
ہمیشہ کی طرح ایک ہزار عصا بردار سڑک کو راہ گیروں سے پاک کرنے کیلئے نکلے،محاصرہ کیے ہوئے لشکر نے کوئی مزاحمت نہ کی۔اونگ زیب چاہتا تھا قلعہ معلی کو براہِ راست تلوار سے قابو میں لانے کے بجائے شاہ جہاں کو خود دروازے کھول دینے پر مجبور دکر دے۔اس لئے باہر آنے پر کوئی پابندی نہ تھی کیونکہ اس طرح شاہ جہانی کی قوت گھٹ رہی تھی لیکن داخلے پر سخت تر پابندیاں تھیں۔پھر ایک ہزار خواجہ سرا طلائی سازوسامان سے آراستہ گھوڑوں پر سوار ہو کر ہم رکاب ہوئے۔بیگم صاحب کے جواہر نگار چندول کے چاروں طرف ایک ہزار ازبک او رراجپوت خواصوں کا منظم ہ جوم تھا جو نرگھوڑوں پر سوار تھیں اور دستانہ پوش ہاتھوں میں تلواریں علم کئے تھیں اور ان کی آنکھوں تک جالی کے نقاب پڑے تھے۔ پشت پر ایک ہزار برقنداز تفنکیں اور زنبوریں لئے ہاتھیوں او رگھوڑوں پر سوار تھے۔ چنڈول پر پڑی ہوئی موتیوں کے چلمنوں کے پیچھے بادشاہ بیگم تھی اور دیکھ رہی تھی کہ وہ آگ سے جلن کے بعد صحت یاب ہو چکی ہے اور شہنشاہ نے جشن صحت کا حکم دیا ہے اور شاہ جاں آباد کا لال قعلہ ملکہ کی طرف سجا ہو اہے اور اس کی صحت کی مبارکباد دینے کے لئے بنگال سے شاہراہ مراد باریاب ہو چکا ہے لیکن شاہزادہ اورنگ زیب حاکم و کن معتوب ہو چکا ہے ۔جمنا کے کنارے اپنا لشکر لئے پڑا ہے اور شہنشاہ داراشکوہ کے اشارے پر حضوری سے انکار کر چکاہے اور اورنگ زیب کا بڑا بیٹا اس کا بھتیجا شاہزادہ سلطان محمد اپنے باپ کی سفارش کیلئے اس محل میں مقیم ہے۔پھر وہ شاہ جہاں سے ضد کرتی ہے تو شاہ جہاں قبول کرنے پر رضا مند ہو جاتا ہے۔اورنگ زیب کی نذر قبول ہوتی ہے لیکن خلعت عطا نہیں ہوتی،قصور معاف نہیں ہوتا۔
صوبہ دکن کی امارات و اگزار نہیں ہوئی اور اورنگ زیب اس کے حضور میں پیش ہو کرخراج پیش کرتاہے۔گھٹنوں پر گر کر اس کا دامن پکڑ لیتا ہے اور ظلِ سبحانی سے سفارش کی درخواست کرتا ہے۔
اور صرف اس کے کہنے سے اس کے اصرار سے ظلِ سبحانی اورنگ زیب کی خطائیں معاف فرماتے ہیں۔خلعت پہناتے ہیں اوردکن کی امارات بھی عطا ہوتی ہے۔اورنگ زیب اس کے احسانوں کے بوجھ سے لدا ہو ارخصت ہو جاتا ہے۔اسی اورنگ زیب سے اکبر آباد کے حاکم سے ہندوستان کے فاتح سے آج پہلی باروہ کچھ مانگنے جا رہی تھی۔
بیگم صاحب کے ہاتھیوں کے نشانوں کو دیکھتے ہی اورنگ زیب نے حکم دیا۔شاہزادہ محمد بہادر خاں کو کلتاش،خانخاناں نجابت خاں اور اسلام خاں پا پیادہ پیشوائی کو بڑھیں اور چنڈول پر نگاہ پڑتے ہی وہ گھوڑے سے اتر پڑا۔چنڈول کے پیچھے چلتا ہوا اپنی بارگاہ تک گیا۔بادشاہ بیگم کے برآمد ہوتے ہی گھنٹوں تک سر جھکا کر کورنش ادا کی۔دونوں ہاتھوں میں ہاتھ لے کر ساتھ لایا۔تخت پر بیٹھا یا اور خود دوزانوں فرش پر بیٹھ گیا۔کنیزوں کے سروں پر رکھی ہوئی کشتیوں میں تحائف جو شہنشاہ کی طرف سے آئے تھے،بادشاہ بیگم نے اپنے ہاتھ سے پیش کئے ۔انہیں میں اکبری تلواربھی تھی جس کا نام’’دل درپن‘‘ تھا ۔اورنگ زیب نے اس کے قبضے کو بوسہ دیا۔اب خود شاہ جہاں کی ایک تلوار سامنے آئی،اس کا نام ’’عالمگیر ‘‘تھا ۔اورنگ زیب نے اس کو اٹھا یا اور بوسہ دیا اور کئی بارآہستہ آہستہ ’’عالمگیر‘‘منہ سے ادا کیا۔کمر سے اپنی تلوارکھول کر ڈال دی۔’’عالمگیر‘‘نامی تلوار پہن لی اور مدھم لیکن مضبوط لہجے میں بولا۔
’’محی الدین محمد اورنگ زیب عالمگیر‘‘
بادشاہ بیگم نے ابرو اٹھا کر دیکھا،تحائف پیش کرتی رہیں ،پھر اپنی طرف سے چار لاکھ کے تحفے پیش کئے۔ان کے ہاتھ اپنے فرائض کی انجام دہی میں مصروف تھے لیکن دماغ ماؤف ہو گیا تھا۔ان کو یقین ہو گیا کہ اورنگ زیب تخت وتاج سے دست بردار نہ ہو گا۔ظلِ سبحانی کو برداشت نہ کرے گاتاہم انہوں نے اورنگ زیب سے وعدہ لیا کہ وہ ظل سبحانی کے حضور میں پیش ہو گا اور بالمشافہ گفتگو کرے گا، اپنے معاملات کو سلجھائے گا۔وہ شاہزادہ مراد سے ملے بغیر سوار ہونے لگیں تو اورنگ زیب نے چنڈول کے پاس کھڑے ہو کر پھر اقرار کیا۔
’’ظلِ سبحانی کے حضور میں اورنگ زیب کی طرف سے وہ تما م آداب پیش کر دیجئے جو رعایا کے کسی ادنیٰ ترین فرد پر لازم ہوتے ہیں۔پھر عرض فرمایئے کہ یہ مردود بارگاہ آج ہی شام کو قدم بوسی کیلئے حا ضر ہو تا ہے‘‘
ظہر کی نماز پڑھ کر اورنگ زیب سوار ہوا۔پچیس ہزار فوج جلو میں چل رہی تھی اور اکبر آباد کی پوری آبادی ایک آنکھ بنی ہوئی اپنے نئے شہنشاہ کو دیکھ رہی تھی اور اس کی سواری اکبری مسجد کے سامنے آگئی تھی کہ نواب شائستہ خاں او رنواب خلیل اللہ خاں حاضر ہوئے اور ایک خط میں پیش کیا جو بظاہر شاہ جہاں کی طرف سے لکھا گیا تھا اور جو دارا کے نام تھا لیکن گرفتار ہو گیا تھا۔اورنگ زیب نے ہاتھی روک لیااور عماری میں بیٹھے بیٹھے خط پڑھا یعنی شاہ جہاں نے مہابت خاں صوبہ دار کابل کو حکم بھیجا ہے کہ وہ پچاس ہزار سواروں پر مشتمل ایک نئی حرکت کرے اور اسی اثناء میں اگر اورنگ زیب اس سے ملنے قلعہ معلی کے اندر آگیاتو اوزبک عورتیں اس کی بوٹیاں اڑادیں گی۔اورنگ زیب نے بظاہر اس خط کی صداقت پر تامل کیا تاہم احتیاط کے پیش نظر قلعہ میں داخل ہونا ملتوی کردیا اور داراشکوہ کے محل میں اتر پڑا۔
(جاری ہے )